خُدا اور یہودی قوم:
1 میں مسیِح میں سچ کہتا ہوںاور میرا دِل بھی پاک رُوح کے وسیلے اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ 2 میرا دل غم سے بھرا ہے اور میں مسلسل دُکھی رہتا ہوں۔ 3 اپنے یہودی بھا ئیوں اور بہنوں کے لیے جو میرے قرابتی ہیں۔ میںخُود یسُوع ؔسے محروم ہو جاتا اگر اِس طرح وہ نجات حاصل کر سکتے۔ 4 وہ اسرائیلی ہیں اور خُدا نے اُنہیں چُنا ہے کہ اُس کے لے پالک ہوں۔ خُدا نے اُن ہی کے ساتھ عہد باندھے اور اپنی شریعت دی۔ اُن ہی کو اُس نے اپنی عبادت کرنے کا حق بخشا اور سارے وعدے اُن ہی کے ساتھ ہیں۔ 5 وہ ابرہامؔ، اضحاقؔ اور یعقوب ؔکی اَولاد ہیںاور مسیِح بھی جسم کے لحاظ سے اسرائیلی ہے جو سب سے بلند اور ہمیشہ تک پرستش کے لائق ہے۔ آمین! 6 تو کیاخُدا کے وعدے سچے نہ نکلے؟ ایسانہیں! کیونکہ جو اسرائیل کی اَولادہیںوہ سب حقیقی اسرائیلی نہیں۔ 7 اور نہ ابرہامؔ کی اَولاد ہونے کے سبب سے سب اُس کے فرزند ہیں کیونکہ لکھا ہے کہ: ”اضحاق ہی سے تیری نسل کہلائے گی“ (پیدایش ۲۱: ۱۲) جبکہ اُس کے اور بھی فرزند تھے۔ 8 یعنی ابرہام ؔ کی جسمانی اَولاد خُدا کے فرزند نہیں۔ صرف وعدہ کے فرزند ہی ابرہام ؔکی نسل گنے جاتے ہیں۔
خُدا کا وعدہ:
10 یہ ہمارا باپ اضحاقؔ تھا جس سے رِبقہؔ کے بچے پیدا ہوئے۔ 11 مگر اُن کے پیدا ہونے اوراُن کے نیکی یا بدی کرنے سے پہلے خُدا نے اُن میںسے ایک کو چُن لیاتاکہ اپنا مقصد پورا کرے۔ 12 اور یہ ظاہر ہو جائے کہ خُدا کا چُناؤکسی کے اعمال پر مبنی نہیں بلکہ بُلانے والے کی اپنی مرضی پر تھا۔ اِس لیے اُس نے ربقہؔ کو بتایا کہ:
13 جیسا کہ لکھا ہے: ”میں نے یعقوب ؔ سے محبت کی مگر عیسوؔ سے نفرت۔“ (ملاکی۱: ۲۔ ۳)
14 پس ہم کیا کہیں؟ کیا خُدا بے انصاف ہے؟ ہر گز نہیں۔ 15 کیونکہ خُدا نے مُوسیٰ ؔسے کہا: ”جس پر رحم کرنا چاہوں رحم کروں گا۔ جس پر ترس کھانا چاہوں ترس کھا ؤںگا۔“ (خروج ۳۳: ۱۹) 16 پس یہ نہ خواہش کرنے والے پر اور نہ ہی محنت کرنے والے پر بلکہ رحم کرنے والے خُداپرمنحصر ہے۔ 17 کلام میں یوںلکھا ہے کہ:
خُدا نے فرعون ؔ سے کہا: ”میں نے تُجھے اِس لیے کھڑا کیا کہ تیری وجہ سے اپنی قُدرت ظاہر کروُں اور میرا نام تمام رُوحِ زمین پر مشہوُر ہو جائے۔“ (خروج ۹: ۱۶)
18 اِس سے پتا چلتا ہے کہ خُدا جس پر چاہے رحم کرتا ہے اور جس کا چاہے دل سخت کر تا ہے تاکہ وہ اُس کی نہ سُنیں۔
19 تو تُم کہو گے کہ پھر خُدا کیوں ہم کو مُجرم ٹھہراتا ہے؟ [کیونکہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کے پیچھے اُس کا ارادہ ہے۔] کون اُس کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ 20 میں کہتا ہوںکہ ایسا کہنا مناسب نہیں! انسان کیسے خُدا سے بحث کرسکتا ہے؟ مخلوق کیوں کر خالق سے پُوچھ سکتی ہے کہ تُونے مُجھے ایسا کیوں بنایا؟ 21 کیا کمہار کو یہ اختیار نہیں کہ مَٹّی کو گوندھ کر اُس میں سے جیسا چاہے برتن بنائے، خاص استعمال کے لیے یا عام استعمال کے لیے بھی۔ 22 اسی طرح کیا خُدا کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جو ہلاکت کے لائق ہیںاُن پر اپنے غصب اور قدرت کو ظاہر کرنے کے بجائے اپنا تحمل ظاہر کرے؟ 23 اور یہ اِس لیے تاکہ اُن کوپہلے سے اپنے رحم کے لیے چُن کر اُن کے ذریعے اپنا جلال کثرت سے ظاہرکرے۔ 24 ہم چُنے ہوئوں میں سے جوکچھ یہودیوں اور کچھ غیر قوموں میں سے ہیں۔
27 اور یسعیاہؔ کی معرفت خُدا اسرائیل کے بارے میں کہتا ہے:
29 چُنانچہ یسعیاہؔ نے یہ بھی کہا:
30 اِس کاکیا مطلب نکلتا ہے؟ یہ کہ غیرقومیں جنہوںنے راستبازی کی تلاش نہ کی تھی وہ خُدا کے نزدیک راستباز ٹھہرے اوریہ اُن کے ایمان کے وسیلے ہوا۔ 31 مگر اسرائیلی جنہوں نے شریعت کے ذریعے راست بازی تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہ پا سکے۔ 32 ایسا کیوں؟ اِس لیے کہ اُنہوں نے مُوسیٰ ؔکی شریعت پرعمل عمل کرنے سے اُس کی تلاش کی اور خُدا پر بھروسا نہ کیااُنہوں نے راہ میں پڑے پتھر سے ٹھوکر کھائی۔
33 اور یہ بات کلام میں بھی لکھی ہے کہ: