کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

رومیوں 7

 7

 شریعت کی وضاحت:

  1 عزیز بھائیو! اور بہنو! تم جو مُوسیٰ ؔکی شریعت سے واقف ہو، کیا نہیں جانتے کہ شریعت آدمی پر اُس وقت تک لاگو رہتی ہے جب تک وہ زندہ ہے۔  2 جیسے کہ ایک عورت جب تک اُس کا شوہر زندہ ہے اپنے شوہر کے بندھ میں ہے لیکن جب شوہر مر جائے تو وہ اُس کے بندھن سے آزاد ہو جاتی ہے۔  3 پس اپنے شوہر کی زندگی میں اگر وہ کسی دُوسرے شخص سے تعلق رکھتی ہے تو زانیہ کہلاتی ہے۔ لیکن اپنے شوہر کے مر جانے کے بعد اگر دوبارہ شادی کرے تو زناکار نہیں کہلاتی۔  4 پس اے بھائیو اور بہنو! تُم جو مسیِح کے ساتھ اُس کی موت میں شامل ہو کر شریعت کے بندھ سے آزاد ہو تاکہ اُس دُوسرے کے ساتھ مل کرجو مُردوں سے زندہ ہوا خُدا کے لیے نیکی کے پھل پیدا کرو۔  5 کیونکہ جب ہم اِس جسم میں پرانی فطرت کی تابعداری میں زندگی بسر کرتے تھے تو گُناہ آلودہ خواہشیں جو شریعت کے باعث پیدا ہوتی تھیں ہمارے اعضاپراثر انداز ہوکر رُوحانی موت کا سبب بنتی تھیں۔  6 ہم جس شریعت کی غلامی میں تھے موت کے وسیلے اُس شریعت سے آزاد ہو گئے تاکہ خُدا کی خدمت رُوح کے اعتبار سے نئے طور پر کریں نہ کہ لفظوں کے اعتبار سے پُرانے طور پر۔

 شریعت اور گُناہ:

  7 تو کیا کہیں! کیا خُدا کی شریعت گُناہ ہے؟ ہر گز نہیں! بلکہ بغیر شریعت کے میں گُناہ کو نہ پہچان سکتا۔ مثلاً اگر شریعت یہ نہ کہتی کہ لالچ گُناہ ہے تو میں لالچ کو نہ جانتا۔  8 مگر گُناہ نے شریعت کے حُکم سے میرے اندرہر طرح کا لالچ پیدا کردیا۔ اگر شریعت نہ ہوتی تو گُناہ زورآور نہ ہوتا۔  9 جب تک میں شریعت کے حُکم سے واقف نہ تھا میں بے گُناہ تھا جیسے ہی مُجھے یہ پتا چلا کہ لالچ گُناہ ہے اِس حُکم کی بدولت گُناہ نے میری زندگی میں جنم لیا۔  10 اور وہ حُکم جس کا مقصد زندگی دینا تھا میرے لیے مو ت کاسبب بنا۔  11 گُناہ نے اِن حُکموں کا سہارا لے کر مُجھے بہکایا اور اِن ہی حُکموں کے وسیلے مُجھے مار بھی ڈالا۔  12 مگر شریعت اپنے آپ میں پاک ہے اور اِس کے حُکم بھی پاک اور راست اور اچھے ہیں۔  13 تو پھر کیاایک اچھی چیز میرے لیے موت کا سبب بنی؟ ہر گز نہیں! گناہ نے ایک اچھی چیز کو استعمال کرکے مُجھے مُجرم ٹھہرایا اور موت کا حُکم دیا تاکہ گُناہ شریعت کے وسیلے اپنے آپ میں حد سے زیادہ نفرت انگیزنظر آئے۔

  14 پس شریعت بُری نہیں بلکہ رُوحانی اور اچھی ہے۔ میں بُرا ہوں کیونکہ جسم میں گُناہ کے ہاتھوں بِکاہوا ہوں۔  15 کیونکہ مُجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کروں۔ کیونکہ مُجھ سے وہ اچھاکام نہیں ہو پاتا جسے میں کرنا چاہتا ہوں، مگر وہ ہو جاتا ہے جس سے مُجھے نفرت ہے۔

  16 اگر مُجھے پتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک نہیں تو ظاہری بات ہے کہ میں شریعت کو مانتا ہوںکہ اچھی ہے۔  17 لہٰذا اُس کام کو کرنے والا میں نہیں بلکہ گُناہ ہے جو مُجھ میں بسا ہے۔  18 میں جانتا ہوں کہ میری گُناہ آلودہ فطرت میں کوئی نیکی موجود نہیںمگرنیک کام کرنے کا ارادہ تو رکھتا ہوں لیکن کر نہیں پاتا۔  19 چُنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو کر نہیں پاتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا وہ کر لیتا ہوں۔  20 پس اگر میں وہ کرتاہوں جس کا ارادہ نہیں کرتا تو اُس کا کرنے والا میں نہ رہا بلکہ گُناہ ہے جو مُجھ میں بسا ہے۔

  21 مُجھے تو شریعت کی یہ سمجھ آئی ہے کہ جب میں کوئی نیکی کرنے کا اِرادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے۔  22 میںاپنی سمجھ سے تو خُدا کی شریعت کو پسند کرتا ہوں۔  23 مگر مُجھے میرے جسم میں ایک اور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری سمجھ کی شریعت سے سے لڑ کر مُجھے گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے جسم میں بسی ہے۔  24 ہائے میں کیسا بے بس ہوں! کون مُجھے اِس بدن میں بسے گُناہ اور موت سے بچائے گا؟  25 میں خُدا کا شُکر گُزار ہوں جو خُداوند یسُوعؔ مسیِح کے وسیلے مُجھے نجات بخشتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی سمجھ سے تو خُدا کی شریعت کا تابع ہوں۔ مگر اپنے بدن میں بسی ہوئی پرانی فِطرت کی وجہ سے گُناہ کی شریعت کا محکوم ہوں۔