کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

رومیوں 4

 4

 ابرہام ؔ کی مثال:

  1 ابرہامؔ جو ہمارا باپ ہے اُس کے بارے میں ہم کیا کہیں؟ وہ کس طرح خُدا کے نزدیک راستباز ٹھہرا؟  2 اگر ابرہام ؔاپنے کاموں کے باعث راستباز ٹھہرتا تو یہ اُس کے لیے فخر کا باعث ہوتا مگر خُدا کے نزدیک اِس طرح راستباز نہیں ٹھہرا جاسکتا۔  3 کلام ِمقدس میں لکھا ہے کہ ”ابرہام ؔ خُدا پر اپنے ایمان لانے کے وسیلے سے راست باز ٹھہرا۔“ (پیدایش۱۵: ۶)  4 کام کرنے والے کی مزدوری بخشش نہیں اُ س کا حق ہے۔  5 جو شخص اپنے کاموں پر بھروسا نہیں کرتا بلکہ گناہ گاروں کو راست باز ٹھہرانے والا خدا پر ایمان لاتا ہے تو اُس کا یہی ایمان ا س کے لئے بھی راست بازی گِنا جاتا ہے۔  6 داؤدؔ بھی اُس شخص کی مبارک حالی کوجسے بغیر اعمال کے راستباز ٹھہرایا جاتا ہے اِس طرح بیان کرتا ہے:

  7 ”مبارک ہے وہ جن کی بدکاریاں معاف ہوئیں
 اور جن کے گُناہ ڈھانکے گئے۔“ (زبور۳۲: ۱۔ ۲)

  8 ہاں! مبارک ہے وہ شخص جن کے گُناہوں کا خُداحساب نہیں کرتا۔  9 کیا یہ مبارک حالی صرف مختونوںکے ہی لیے ہے؟ یا نا مختونوں کے لیے بھی؟ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ابرہام ؔ کے لیے اُس کا ایمان اُس کی راستبازی گِنا گیا۔

  10 ابرہام کبؔ راستباز ٹھہرا؟ اپنے ختنے سے پہلے یا ختنے کے بعد؟ ہم جانتے ہیں کہ ختنے سے پہلے۔  11 ختنہ ابرہامؔ کی اُس راستبازی پرنشان تھا جو اُسے ایمان سے نامختونی کی حالت میں ملی تھی تاکہ وہ اُن سب کا باپ ٹھہرے جو نامختونی کی حالت میں ایمان کے وسیلے راستباز ٹھہرتے ہیں۔  12 اور اُن مختونوں کا باپ بھی ہو جو مختونی میں باپ ابرہامؔ کی طرح اُس ایمان کی راہ پر چلتے ہیں جو اُسے نامختونی کی حالت میں حاصل تھا۔

  13 کیونکہ خُدا نے ابرہامؔ اور اُس کی نسل کے ساتھ شریعت کے اعمال کے وسیلے یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ دُنیا کے وارث ہوں گے بلکہ ایمان کی راستبازی کے وسیلے سے کیا۔  14 اگر خُدا کے وعدے صرف شریعت والوں کے لیے ہیں تو ایمان لانا بے فائدہ اور خُدا کے وعدے بے مقصد ٹھہرے۔  15 کیونکہ شریعت تو حکم کی نافرمانی پرسزا کا حُکم کرتی ہے۔ مگر جہاںشریعت نہیں وہاں حُکم کی نافرمانی بھی نہیں۔  16 اور وعدوں کا حصّول ایمان سے ہے کیونکہ یہ بخشش ہے اور ہم سب یقینااِ ن وعدوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے ہم مُوسیؔ کی شریعت کے مطابق زندگی گُزارتے ہو ںیا شریعت کے بغیر۔ مگر ابرہامؔ کی طرح ایمان رکھیں کیونکہ ابرہام ؔ سب ایمانداروں کا باپ ہے۔  17 جیسا کلام میں لکھا ہے: ’میں نے تُجھے قوموں کا باپ ٹھہرایا۔‘ (پیدایش۱۷: ۵) ابرہامؔ اُس خُدا پر ایمان لایا جو مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور جن چیزوں کا وجود نہیں اُنہیں اُسے بُلالیتا ہے گویا کہ وہ چیزیں ہیں۔  18 اُس نے اپنی نااُمیدی کی حالت میں اُمید کے ساتھ ایمان رکھا کیونکہ خُدا نے اُس کو قوموں کا باپ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔  19 وہ جو سو برس کا تھا باوجود اپنے مُردہ بدن اور سارہ ؔ کے رحم کی مُردگی کے وہ اپنے ایمان میں کمزور نہ ہوا۔  20 اور خُدا کے وعدہ پر شک کرنے کے بجائے ایمان میں مضبوط ہو کر خُدا کی تمجید کی۔

  21 اور اِس بات پر پُورا بھروسا رکھا کہ خُدا جو کچھ کہتا ہے اُسے پُورا کرنے پر قادر ہے۔  22 اور یہ اُس کے لیے راستبازی گِناگیا۔  23 اور کلامِ مقدس میں یہ صرف ابرہامؔ ہی کے لیے نہیںلکھا کہ ”ایمان اُس کے لیے راستبازی گِنا گیا۔“  24 بلکہ ہمارے لیے بھی لکھا گیا جواُس خُدا پر ایمان لانے سے راستباز ٹھہرے جس نے ہمارے خُداوند یسُوع ؔمسیح کو مُردوںمیں سے زندہ کیا۔  25 وہ ہمارے گناہوں کے بدلے مارے جانے کے لیے حوالے کیا گیااور ہم کو راستباز ٹھہرانے کے لیے پھر زندہ کیاگیا۔