کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

رومیوں 10

 10

  1 اے بھائیواور بہنو! میری د لی خُواہش اور دُعا ہے کہ اسرائیل نجات پائے۔  2 میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ اپنے دل میں خُدا کے لیے غیرت تو رکھتے ہیں مگر بغیر رُوحانی سمجھ کے۔  3 وہ خُدا کی راستبازی کو جانے بغیر اپنی راستبازی کو قائم کرنے کی کوشش میں لگے رہے اور خُدا کی راستبازی کے تابعِ نہ ہوئے۔

  4 مسیِح نے شریعت کے مقصد کو اپنے میںپُورا کر دیا ہے تاکہ جو اُس پر ایمان لائے وہ راستبازٹھہرے۔

 نجات سب کے لیے:

  5 مُوسیٰ ؔنے لکھا ہے کہ شریعت کے وسیلے اُسی وقت را ستباز ٹھہر سکتے ہیں جب اُس کے سارے احکام پر پُورا پُورا عمل کیا جائے۔

  6 مگر ایمان کے ذریعے راستبازی یہ کہتی ہے:
 ”اپنے دِل میں یہ نہ کہہ کہ آسمان کون چڑھے گا؟“ (یعنی مسیِح کو زمین پر لانے کے لئے)
  7 اور یہ نہ کہے کہ کون پاتال میں جائے گا؟ (مسیِح کو مُردوں میںسے اُوپرلانے کے لئے)
  8 بلکہ ایمان سے راستبازی یہ کہتی ہے کہ:
 ”کلام تیرے نزدیک بلکہ تیرے مُنہ اور تیرے دل میں ہے۔“ (اِستثنا۳۰: ۱۲۔ ۱۴)

 یہ وہی ایمان کا کلام ہے جس کی ہم منادی کرتے ہیں۔  9 اگر تو اپنے مُنہ سے مسیِح یسُوعؔ ؔکے خُداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خُدا نے اُسے مُردوں میں سے زندہ کیا ہے تو نجات پائے گا۔  10 کیونکہ راستبازی کے لیے ایمان لانا دل سے ہوتاہے اور نجات کے لیے اقرار مُنہ سے کیا جاتا ہے۔  11 اِسی لیے کلام میں لکھاہے کہ جو کوئی مسیِح پر ایمان لائے گا شرمندہ نہ ہو گا۔  12 چاہے یہودی ہو یایُونانی خُدا کے نزدیک کچھ فرق نہیں کیونکہ وہ اپنے سب دُعا کرنے والوں کو کثرت سے برکت دیتا ہے۔

  13 کیونکہ جو کوئی اُس کا نام لے گا نجات پائے گا۔  14 کوئی اُس کا نام کیسے لے جب اُس پر ایمان نہیں لایا؟ اور جب تک اُس کے بارے میں سُنے نہ تو ایمان کیسے لائے؟ اور بغیر منادی کے کیسے سُنے؟  15 اور جب تک کوئی بھیجا نہ جائے منادی کیسے ہو؟

 ؎چُنانچہ لکھا ہے کہ: ”کیا ہی خُوشنما ہیں اُن کے قدم جو سلامتی کی خُوشخبری لاتے ہیں۔“ (یسعیاہؔ ۵۲: ۷)

  16 مگر سب نے اِس خُوشخبری کو قبُول نہیں کیا۔ جیسا یسعیاہؔ نے کہا: ”اے خُداوند ہما رے پیغام کا کس نے یقین کیا؟“ (یسعیاہؔ ۵۳: ۱)  17 پس ایمان سُننے سے پیدا ہوتا ہے اور سُننا مسیح کے کلام سے۔  18 تو کیا بنی اسرائیل نے یہ پیغام نہیں سُنا؟ بے شک سُنا! چُنانچہ کلام میں لکھا ہے کہ:

 ”اُن کی آواز تمام رُوحِ زمین پر
 اور اُن کی باتیں دُنیاکی انتہا تک پہنچیں۔“ (زبور۱۹: ۴)
  19 اگر سُنا تو کیا اُن کو اِس بات کی سمجھ نہیں آئی؟ یقینا وہ سمجھتے تھے۔ پہلے مُوسیٰ ؔکے وسیلے خُدا نے کہا:
 ”میںخُود تُمہیں اُن سے غیرت دلاؤں گا جو قوم ہی نہیں۔
 اور ایک نادان قوم سے تُمہیں غُصّہ دلاؤں گا۔“ (۱ِستثنا۳۲: ۲۱)
  20 پھر یسعیاہؔ نے بڑی دلیری سے کہا:
 ”جنہوں نے مُجھے نہیں ڈُھونڈا اُنہوں نے مُجھے پا لیا۔
 جنہوں نے میرے بارے میں نہیں پُوچھا میں اُن پر ظاہر ہوں گا۔“ (یسعیاہ ؔ۵۶: ۱)
  21 لیکن اسرائیلؔ کے لیے یہ کہتا ہے:
 ”میں نے دن بھرایک سرکش اور نافرمان قوم کے لیے
 اپنے ہاتھ پھیلائے رکھے۔ (یسعیاہؔ۶۵: ۲)