مفلُوج آدمی کی شفا:
1 یسُوعؔ کشتی پر سوار ہو کر واپس اپنے شہر میں آیا۔ 2 کچھ لوگ ایک مفلوج کو چارپائی پر ڈال کر یسُوعؔ کے پاس لائے۔ یسُوعؔ نے اُن کے ایمان کو دیکھ کر مفلُوج سے کہا، ”بیٹا! حوصلہ رکھ تیرے گُناہ مُعاف ہوئے۔“
3 وہاں موجود شریعت کے کچھ عالم اپنے دل میں کہنے لگے کہ یہ آدمی کُفر بک رہا ہے۔ 4 یسُوعؔ نے یہ جان کر کہ وہ اپنے دل میں کیا سوچ رہے ہیںاُن سے کہا، ”تُم اپنے دل میں کیوں بُری باتیں سوچتے ہو۔“ 5 کون سی بات آسان ہے یہ کہنا کہ ’جا تیرے گُناہ مُعاف ہوئے‘ یا یہ کہنا کہ ’اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا اور چل پھر۔‘
6 اِس با ت کو ثابت کروںگا کہ ابنِ آدم کو زمین پر گُناہ مُعاف کرنے کا اختیار ہے۔“ یسُوعؔ نے مفلوج کی طرف دیکھ کر اُس سے کہا، ”اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔“ 7 وہ ایک دَم اُٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔
8 یہ دیکھ کر لوگوں پر خوف چھا گیااور وہ سب خُدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا۔
متّی ؔکا بُلایا جانا:
9 جب یسُوع ؔوہاں سے آگے بڑھا تو اُسے ایک شخص جو ٹیکس لیتا تھا اپنے کام کی جگہ پر بیٹھا ملا۔ اُس کا نام متّی ؔ تھا۔ یسُوعؔ نے اُس سے کہا، ”میرے پیچھے ہو لے۔“ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور اُس کے پیچھے چل دیا۔
10 متّی ؔ نے بعدمیںیسُوعؔ اور اُس کے شاگردوں کواپنے گھر کھانے پر بُلایا۔ جب وہ کھانا کھا نے بیٹھے تو بُہت سے اور ٹیکس دینے والے بھی اُن کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے۔ 11 فریسی یہ دیکھ کر یسُوعؔ کے شاگردوں سے کہنے لگے، ”تُمہارا اُستادٹیکس جمع کرنے والوں اور گُنہگاروں کے ساتھ کھانا کیوںکھاتا ہے؟“ 12 یسُوعؔ نے یہ سُن کر اُن سے کہا، ”صحت مندوں کو ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بیماروں کو۔“ 13 پھر اُس نے کہا، ”کلام کی اِس بات کے معنی سمجھنے کی کوشش کروکہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوںکیونکہ میں اُن کے لیے نہیں آیا جو اپنے آپ کو راستباز سمجھتے ہیںبلکہ گُنہگاروں کے لیے کہ وہ توبہ کریں۔“ (ہوسیعؔ ۶: ۶)
14 ایک دن یُوحناؔ بپتسمہ دینے والے کے شاگرد یسُوعؔ کے پاس آئے اور اُس سے پُوچھنے لگے کہ ہم اور فریسی تو اکثرروزہ رکھتے ہیں مگرتیرے شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے۔ 15 یسُوعؔ نے جواب میںکہا، ”وہ لوگ جو بارات میں شامل ہیں، خُوشی مناتے ہیں یا ماتم کرتے ہیں؟ مگر ایک دن دُلہااُن سے جُداکیا جائے گا تب وہ روزہ رکھیں گے۔ 16 ”کون پُرانے پھٹے لباس کو نئے کپڑے کا ٹکڑا لگا کر سیتا ہے؟ کیونکہ نیا کپڑا پُرانے کو کھینچ کراور بھی پھاڑ دے گا۔ 17 ”کوئی بھی نئی مے کو پُرانی مشکوں میں نہیں بھرتا۔ کیونکہ پُرانی مشکیں اُس کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتیں یوں وہ پھٹ کر برباد ہو جاتی ہیں اورمے بہہ جاتی ہے۔ بلکہ نئی مے نئی مشکوں میں بھری جاتی ہے تاکہ دونوں محفوظ رہیں۔
18 یسُوعؔ یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ عبادت خانے کا ایک سردار اُس کے پاس آیا اوراُسے سجدہ کر کے کہنے لگا کہ ”میری بیٹی ابھی مری ہے لیکن اگر توُمیرے ساتھ چلے تو وہ تیرے چھؤنے سے زندہ ہو سکتی ہے۔“ 19 یسُوعؔ اُٹھ کر اپنے شاگردوں سمیت اُس کے ساتھ چل دیا۔ 20 راستے میں ایک عورت نے جس کے بارہ برس سے خُون جاری تھا، بھِیڑ میں یسُوعؔ کے پیچھے سے آ کر اُس کی پوشاک کی جھالر کو چھُوا۔ 21 کیونکہ اُس نے سوچا اگر میں صرف اُس کی پوشاک ہی کو چھُو لوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی۔ 22 یسُوعؔ نے گُھوم کر اُسے دیکھااور کہا، ”بیٹی تسلی رکھ تیرے ایمان نے تُجھے اچھا کردیا۔“ وہ عورت اُسی وقت اچھی ہو گئی۔ 23 جب یسُوع ؔ اُس سردار کے گھر پہنچا تو بانسلی پر ماتم کی دُھن بج رہی تھی اور لوگ ماتم کر رہے تھے۔ 24 یسُوعؔ نے لوگوں سے کہا، ”باہر جاؤ، لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے۔“ یہ سُن کر لوگ اُس پر ہنسنے لگے۔ 25 جب لوگوں کو باہر نکال دیا گیا تو یسُوع ؔ نے اندر جا کر لڑکی کو ہاتھ سے پکڑ کراُٹھایا اور لڑکی اُسی دَم اُٹھ گئی۔ 26 اِس معجزے کی خبر اُس سارے علاقے میں پھیل گئی۔
27 جب یسُوعؔ وہاں سے روانہ ہوا تو راستے میں دو اَندھے اُس کے پیچھے چِلّاتے ہوئے کہنے لگے، ”اَے ابنِ داؤد! ہم پر رحم کر۔“ 28 اُنہوں نے اُس گھر تک اُس کا پیچھا کیا جہاں وہ رہتا تھا۔ یسُوعؔ نے اُن سے پوچھا، ”کیاتُم ایمان رکھتے ہو کہ میں تُمہیں ٹھیک کر سکتا ہوں؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”ہاں خُداوند! ہم ایمان رکھتے ہیں۔“ 29 تب یسُوعؔ نے اُن کی آنکھوں کو چھؤکرکہا، ”تُمہارے ایمان کے مطابق تُمہارے لیے ایسا ہی ہو۔“ 30 اُن کی آنکھیں کھُل گئیں اور اُن کو نظر آنے لگا۔ یسُوعؔ نے اُن کو سختی سے خبردارکیا کہ، ”کسی سے اِس کا ذکر نہ کرنا۔“ 31 اِس کے باوجود اُنہوں نے باہر جا کر ہر طرف اِس بات کو مشہور کر دیا۔
گونگے کی شفا:
32 جب وہاں سے باہر نکلے تو راستے میں ایک شخص کو جس میں ایک گونگی رُوح تھی، اُس کے پاس لائے۔ 33 جب یسُوعؔ نے اُس بدرُوح کو اُس میں سے نکال دیا تو گونگا بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر سب حیران ہو ئے اور کہنے لگے کہ اسرائیل میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔
34 لیکن فریسیوں نے کہا کہ یہ تو بدرُوحوں کے سردار کی مددسے بدروحوں کو نکالتا ہے۔
مزدُور کم ہیں:
35 یسُوع ؔ اُس علاقے کے تمام قصّبوں اور گاؤں میںجا کر اُن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا اور آسمان کی بادشاہی کی خُوشخبری سُناتا اوراُن کے مریضوں اور بیماروں کو شفا دیتا۔ 36 جب یسُوعؔ نے ہجوم کو دیکھا تو اُسے اُن پر ترس آیا۔ وہ اُن بھیڑوں کی طرح بے یارومددگاراوربدحال تھے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو۔ 37 اُس نے شاگردوں سے کہا، ”فصل تو بُہت ہے مگر مزدُور کم ہیں۔ 38 ”فصل کے مالک کی مِنّت کروکہ فصل کاٹنے کے لیے مُزدور بھیجے۔“