شادی کی دعوت:
1 یسُوعؔ نے تمثیل میں اور بھی کہانیاں سُنائیں۔ اُس نے کہا، 2 ”آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی طرح ہے جس نے اپنے بیٹے کی شادی پر ضیافت کا انتظام کیا۔ 3 ”جب ضیافت تیار ہو گئی تو اُس نے اپنے نوکروں کو بھیجا کہ مہمانوں کو جنہیں دعوت دی گئی تھی اطلاع کریں مگر اُنہوں نے آنا نہ چاہا۔ 4 ”پھر اُس نے اور نوکروںکو یہ کہہ کر بھیجا کہ بُلائے ہوؤں سے کہو کہ ’میںنے اپنے بیل اور موٹے موٹے جانور ذبح کر لیے ہیں اور سب کچھ تیار ہے۔ دعوت میں آؤ۔ 5 ”مگراُ نہوں نے اُن کی بات نہ سُنی اور اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے کوئی اپنے کھیت میں اور کوئی اپنے کاروبارمیں۔ 6 ”اور کچھ نے اُن کو پکڑا اور اُن میں سے بعض کو قتل کیا۔ 7 ”بادشاہ غصبناک ہو ااوراپنے سپاہیوں کو بھیج کر قاتلوں کو ہلاک کیا اور اُن کا شہر کو جلا دیا۔ 8 ”تب اُس نے اپنے نوکروں کو کہا، دعوت تو تیار ہے مگر بُلائے ہوئے اِس لائق نہ تھے۔ 9 ”اَب تُم جاؤ اور شہر کی بڑی سڑک پر کھڑے ہوکر جتنے ملیں اُنہیں دعوت میں بُلا لاؤ۔
10 ”پس نوکر وںنے نکل کر سڑک پرجو ملا کیا بُرا، کیا اچھا، سب کو دعوت میں لے آئے اور شادی کا ہال مہمانوں نے بھر گیا۔ 11 ”اور جب بادشاہ مہمانوں سے ملنے آیا تو اُسے وہا ں ایک شخص نظر آیا جو شادی کے میں نہ تھا۔ 12 بادشاہ نے اُس سے پُوچھا کہ تُو شادی کا لباس پہنے بغیر یہاں کیوں آیا؟ اور وہ کچھ جواب نہ دے سکا۔ 13 ”تب بادشاہ نے اپنے نوکروں کو حُکم دیا کہ اسے باندھ کر باہر اندھیرے میں پھینک دو جہاں ہر وقت رونا اور دانتوں کا پیسنا ہے۔ 14 ”کیونکہ بُلائے ہوئے تو بُہت ہیں مگر چُنے ہوئے کم ہیں۔“
ٹیکس دینا روا ہے یا نہیں؟
15 شریعت کے اُستاد یسُوعؔ کو کسی بات میں پھنسا کر گرفتار کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ 16 اُنہوں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ ہیرودیس ؔ کے حمایتیوں کو یسُوعؔ کے پاس بھیجا۔ اُنہوں نے یسُوعؔ سے کہااَے اُستاد! ہم جانتے ہیں کہ تو کس قدر ایماندار ہے اور سچائی سے خُدا کی تعلیم دیتا ہے اورتُو کسی کی طرفداری کر کے حمایت نہیں کرتا۔ 17 اَب ہمیں بتا کیا قیصر ؔکو ٹیکس دینا جائز ہے؟ 18 یسُوعؔ نے اُن کی شرارت کو جان کر اُن سے کہا، ”اے ریاکارو! تُم مُجھے کیوں آزماتے ہو؟ 19 ”وہ سِکّہ جو تُم ٹیکس دینے کے لیے استعمال کرتے ہو میرے پاس لاؤ۔ وہ ایک دینار اُس کے پاس لائے۔ 20 ”اُس نے اُن سے پُوچھا، ”اِس سِکّے پر کس کی تصویر اور نام ہے۔ 21 ”اُنہوں نے جواب دیا قیصرؔ کا۔ اِس پر یسُوعؔ نے اُن سے کہا جو قیصرؔ کا ہے، قیصرؔ کو دو اور جو خُدا کا ہے
خُدا کو دو۔“
22 وہ یہ سُن کر بُہت حیران ہوئے اور اُس کے پاس سے چلے گئے۔
قیامت کے بارے سوال:
23 اُسی دن کچھ صدوُقیوں نے جواِس بات کو نہیں مانتے تھے کہ قیامت کے دن مُردے جی ا ُٹھیں گے۔ یسُوعؔ سے سوال کیا۔
24 اُستاد مُوسیٰ ؔنے حُکم دیا تھا کہ اگر کوئی شخص بغیر اَولاد کے مر جائے تو اُس کا بھائی اُس کی بیوی کے ساتھ شادی کرے اور اُس کے لیے اَولادپیدا کرے۔ 25 فرض کریں ہمارے درمیان سات بھائی تھے۔ پہلے نے شادی کی اور بغیر اَولاد کے مر گیا تواُس کے دُوسرے بھائی نے اُس کی بیوہ سے شادی کی۔ 26 دُوسرا بھی بغیر اَولاد کے مر گیا تو تیسرے نے اُس عورت کے ساتھ شادی کی۔ اِس طرح اُس عورت کی شادی ساتوں بھائیوں سے ہوئی۔ 27 سب کے بعد وہ عورت بھی مر گی۔ 28 قیامت کے دن جب مُردے زندہ ہوں گے تو وہ کس کی بیوی کہلائے گی کیونکہ اُس نے سب سے شادی کی؟ 29 یسُوعؔ نے جواب میں کہا، ”تُم غلط سمجھتے ہوکیونکہ نہ تُم کلا م مُقدس کو جانتے ہو اور نہ ہی خُدا کی قدرت کو۔ 30 ”مُردوں میں زندہ ہونے کے بعد شادی نہیں ہوتی بلکہ وہ آسمان پر خُدا کے فرشتوں کی مانند ہوں گے۔ 31 اور یہ کہ مُردے جی اُٹھیں گے یا نہیں۔ کیا تُم نے کلام میں کبھی نہیں پڑھا جو خُدا نے تُم سے کہاکہ: 32 ’میں ابرہام ؔکا خُدا اور اضحاقؔ کا خُدا اور یعقوب ؔکا خُدا ہوں‘ وہ تو زندوں کا خُدا ہے مُردوں کا نہیں۔“ (خروج۳: ۶)
33 لوگ یہ سُن کر اُس کی تعلیم پر حیران ہوئے۔
سب سے بڑا حُکم:
34 جب شرع کے عالموں نے دیکھا کہ یسُوعؔ نے صدُوقیوں کا مُنہ بندکر دیا تو اُس کے پاس جمع ہو کر سوال کرنے لگے۔
35 اور اُن میں سے ایک شریعت کے عالم نے اُسے آزمانے کے لیے سوال کیا۔ 36 اَے اُستاد! شریعت میں کون سا حُکم سب سے بڑا ہے؟ 37 یسُوعؔ نے جواب دیا، ”خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ (استشنا ۶: ۵) ۔ 38 ”پہلا اور بڑا حُکم یہی ہے (احبار ۱۹: ۱۸) ۔ 39 اور دُوسرا اتنا ہی بڑا حُکم یہ ہے کہ ’اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کر۔ 40 ”ساری شریعت اور بنیوں کی تعلیم اِن ہی دو حُکموں کی بنیاد پر ہے۔“
مسیح کس کا بیٹا ہے؟
41 جب شرع کے عالم جمع ہوئے تو یسُوعؔ نے اُن سے پُوچھا، 42 ”مسِیح کے بارے میں تُمہارا کیاخیال ہے؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا کہ ’داؤدؔکا‘ ۔ 43 اِس پر یسُوعؔ نے کہا، ”تو پھر داؤدؔ پاک رُوح کی تحریک سے مسیِح کو خُداوند کیوں کہتا ہے۔ جب وہ یہ کہتاہے:
45 جب داؤدؔ نے اُسے خُداوند کہا ہے تو وہ اُس کا بیٹا کیسے ہوا؟“ 46 اور کوئی بھی اُ س کو جواب نہ دے سکااور کسی نے اُس سے کوئی اور سوال کرنے کی جُرأت نہ کی۔