آسمان کی بادشاہی میں بڑا کون؟
1 اُس وقت شاگردیسُوعؔ سے پُوچھنے لگا کہ آسمان کی بادشاہی میں کون بڑاہے؟ 2 یسُوع ؔ نے ایک بچے کو پاس بُلاکراُسے اُن کے درمیان کھڑا کیا۔ 3 پھر کہا ، ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں اگر تُم تُوبہ نہ کرو اور اِس بچے کی مانند نہ بنو تو تُم آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتے۔ 4 ”پس جو کوئی اپنے آپ کو اِس بچے کی مانند چُھوٹا بنائے گا و ہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہو گا۔ 5 ”اور جو کوئی ایسے بچے کو میرے نام سے قبوُل کرتا ہے وہ مُجھے قبوُل کرتا ہے۔ 6 ”اور جو کوئی اِن چھُوٹوں میںسے جو مُجھ پر ایمان رکھتے ہیں کسی کو گُمرا ہ کرے تو بہتر ہے کہ اُس کے گلے میں چکّی کے بھاری پتھر کو باندھ کر گہرے سمندر میں پھینک دیا جائے۔ 7 ”اِس دُنیا پر افسوس جس کے باعث لوگ گُناہ کی آزمائش میںپڑکر گمراہ ہوتے ہیں۔ آزمائشوں کا آنا تو ضرورہے مگر اُن پرافسوس جو دُوسروں کے لیے ٹھوکرکا باعث بنتے ہیں۔ 8 ”اگر تُو اپنے ہاتھ یا پاؤ ںسے کسی گناہ کامرتکب ہو تو اُسے کاٹ کر پھینک دے۔ تیرے لیے لنگڑا یا ٹُنڈا ہو کر ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہونا بہتر ہے بجائے اِس کے کہ دو ہاتھ اور دو پاؤںکے ساتھ تُو جہنم کی آگ میں ڈالا جائے۔ 9 ”اگر تیری آنکھ تُجھ سے گُناہ کرائے تو اُسے نکال کر پھینک دے۔ ایک آنکھ رکھ کر خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونا بہتر ہے، بجائے اِس کے کہ تُو دو آنکھوں کے ساتھ جہنّم کی آگ میں ڈالا جائے۔
کھوئی ہوئی بھیڑ کی تمثیل:
10 ”خبر دار تُم اِن چھوٹوں میں سے کسی کو کم ترنہ جانوکیونکہ اِن کے فرشتے آسمان پر ہر وقت میرے آسمانی باپ کا مُنہ دیکھتے ہیں۔
11 کیونکہ اِبن آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھوندنے اور نجات دینے آیا ہے۔ 12 ”تُمہارا کیا خیال ہے؟ اگر کسی شخص کی سو بھیڑیںہوں اور اُن میں سے ایک کھوجائے۔ تو وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ اپنی ننّانوے بھیڑوں کوچھوڑ کر اُس ایک کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے نہ جائے گا؟ 13 اور جب مل جائے تومیں تُم سے سچ کہتا ہوں وہ اِس ایک بھیڑ کے لیے اُن ننّانوے بھیڑوں کی نسبت زیادہ خُوشی منائے گا۔ 14 ”اِسی طرح تُمہارا آسمانی باپ اِن چھوٹوں میں سے کسی ایک کی بھی ہلاکت نہیں چاہتا۔
15 ”اگر کوئی ایماندار بھائی تیرے ساتھ کچھ بُرا کرے تو علیٰحدگی میں اُس سے بات کرکہ تُجھے اُس کی کس بات سے دُکھ پہنچا ہے۔ اگر وہ تیری سُن لے تو تُو نے اُس کو پا لیا۔ 16 ”اور اگر نہ سُنے تو دو یا تین بھائیوں کو اپنے ساتھ لے کر پھر اُس کے پاس واپس جا تاکہ جو بھی تُو بات کرے اُس کے وہ گواہ ہوں۔ 17 ”اور اگر پھر بھی وہ نہ سُنے تو تُو معاملے کوکلیسیا میں لے جا اور اگر وہ کلیسیاکی بھی نہ سُنے تو اُسے غیرقوم والوں کی مانند یا بددیانت ٹیکس لینے والوں کی مانند جان۔ 18 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں جو فیصلہ تُم زمین پر کرو گے آسمان پر بھی وہی فیصلہ ہوگا اور جس کسی کو تُم زمین پر معاف کر کے رہا کرو گے وہ آسمان پر بھی رہا کیا جائے گا۔ 19 ”یہ بھی کہتا ہوں۔ اگر اِس زمین پر تُم میں سے دو شخص کسی بات پر متفق ہو کر دُعا کریں تو آسمانی باپ اُن کی دُعا کے مطابق کر دے گا۔ 20 ”کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام سے جمع ہوتے ہیں میں وہاں اُن کے بیچ میں ہوں۔“
بے رحم نوکر کی تمثیل:
21 پطرس ؔ نے یسُوعؔ سے آکر پُوچھا، خُداوند اگر میرا بھائی میرا گُناہ کرے تو میں کتنی دفعہ اُسے معاف کروں؟ کیاسات بارتک؟
22 یسُوعؔ نے جواب دیا، ”سات دفعہ نہیں بلکہ سات کے ستّر بارتک۔ 23 ”آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی طرح ہے جس نے اپنے نوکروں کو بُلایا کہ اُن کا حساب لے۔ 24 جب ایک نوکر آیا جس پر اُس کا سونے کے سِکُوں کے دس توڑے قرض تھا۔ 25 ”چونکہ وہ قرض ادا نہیں کر سکتا تھا۔ بادشاہ نے حُکم دیا کہ اُس کی بیوی بچوں سمیت جو کچھ بھی اُس کا ہے بیچ کر قرض وصُول کیا جائے۔ 26 ”نوکر نے اُس کے قدموں میں گر کر اُس کی منت کی کہ مُجھے مُہلت دے میں تیرا سارا قرض ادا کر دُوں گا۔ 27 ”اُس کے مالک نے اُس پر ترس کھا کر اُسے چھوڑ دیا اور اُس کا سارا قرض معاف کر دیا۔ 28 ”لیکن جب وہ باہرآیا تو اُس کا ایک قرض دار جس پر اُس کے سو چاندی کے سکِّے آتے تھے ملا، اُس نے اُسے گلے سے پکڑ کر کہا کہ میرا قرض ادا کر دے۔ 29 ”اُس کے قرض دار نے اُس کی مِنّت کی کہ مُجھے مُہلت دے میں تیرا قرض تُجھے ادا کر دُوں گا۔ 30 ”مگر وہ نہ مانا اور اُسے پکڑ کر اُس وقت تک قیدخانہ میں ڈال دیا جب تک قرض ادا نہ کرے۔ 31 ”جب اُس کے ساتھ کام کرنے والوں نے یہ دیکھا تو غمزدہ ہو کر بادشاہ کو اِس کی خبر دی۔ 32 ”تب بادشاہ نے اُس نوکر کو جس کا قرض اُس نے معاف کر دیا تھا بُلا کر کہا، شریر نوکر! جب تُو نے میری مِنّت کی تو میں نے ترس کھا کر تیرا قرض معاف کر دیا۔ 33 ”کیا تُجھے بھی تیرے قرض دار کواسی طرح رحم کھا کر معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ 34 ”تب بادشاہ نے عُصّے میں آکر اُسے سزا دینے کے لیے قید خانے میںسپاہیو ں کے حوالے کردیا کہ جب تک قرض ادا نہ کر ے قید میں رہے۔ 35 ”میرا آسمانی باپ بھی اِسی طرح تُم سے کرے گا اگر تُم اپنے بھائی یا بہن کو دِل سے معاف نہ کرو گے۔“