کتاب باب آیت

متّی 15

 15

 روایات اور خُدا کا کلام:

  1 تب کچھ فریسی اور شرع کے عالم یروشلیمؔ سے یسُوعؔ کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ:  2 تیرے شاگرد کیوں باپ دادا کی روایات کو نہیں مانتے؟ وہ کھانے سے پہلے ہاتھ نہیں دھوتے۔  3 یسُوعؔ نے اُن سے پوچھا،  ”تُم اپنی روایات کی خاطر خُدا کے حُکموں کوکیوں توڑ دیتے ہو؟   4  ”خُدا کا حُکم ہے کہ تُو اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنااور جو کوئی باپ یا ماں کی بے عزتی کرے وہ جان سے مار ڈالا جائے۔   5  ”مگر تُم کہتے ہو اگر کوئی اپنے باپ یا ماں سے یہ کہے کہ جو کچھ میں نے تُمہیں دینا تھا وہ تو میں نے خُدا کی نذر کر دیا۔   6  ”یوں تُم اُنہیں خُدا کے حُکم کے بر خلاف اپنے ماں باپ کی عزت نہ کرنے کی تعلیم دیتے ہواور اپنی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے خُدا کے کلام کومنسوخ کر دیتے ہو۔   7  ”اَے ریاکارو! یسعیاہ ؔنے تُمہارے لیے صحیح کہا ہے:

  8  ’یہ لوگ ہونٹوں سے تو میری عزت کرتے ہیں
  مگر اِن کا دِل مُجھ سے دُورہے۔
  9  اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں،
  کیونکہ اِنسانی اِحکام کی تعلیم دیتے ہیں۔‘ (یسعیاہؔ۲۹: ۱۳)

  10 تب یسُوعؔ نے لوگوں کو پاس بُلا کر کہاسُنو اور سمجھو:  11  ”وہ چیز جو مُنہ کے اندر جاتی ہے ناپاک نہیں کرتی بلکہ جو مُنہ سے نکلتی ہے و ہی ناپاک کرتی ہے۔“   12 تب شاگردوں نے یسُوعؔ کے پاس آ کر کہاکہ کیا تُجھے پتا ہے کہ فریسیوں نے تیری اِس بات سے بُرا منایا ہے؟  13 اُس نے جواب میں کہا،  ”ہر وہ پودا جو میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا، جڑ سے اُکھاڑا جائے گا۔   14  اُنہیں چھوڑ دو یہ اندھے راہ دکھانے والے ہیں۔ اگر ایک اندھا دُوسرے اندھے کو راہ دکھائے گا تو دونوں گڑھے میں گریں گے۔“   15 پطرس ؔ نے اُس سے کہاہمیں یہ تمثیل جو تُونے ابھی سُنائی ہے سمجھا دے۔  16 یسُوعؔ نے اُن سے پوچھا، ’  کیا تُم ابھی تک نہیں سمجھے۔‘   17  ”جو کچھ مُنہ میں جاتا ہے پیٹ سے ہوکر فُضلہ کے راستے باہر چلا جاتا ہے۔   18  ”مگر جو کچھ تُم مُنہ سے کہتے ہو دِل سے نکلتا ہے و ہی ناپاک کرتا ہے۔   19  ”کیونکہ یہ دِل ہی ہے جہاں سے بُرے خیال، خونریزی، زناکاری، حرامکاری، چوری، جُھوٹی گواہی اوربدگوئی نکلتی ہے۔   20  ”اِن ہی باتوں سے آدمی ناپاک ہوتا ہے نہ کہ بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانے سے۔“

 کنعانی عورت کا ایمان:

  21 یسُوعؔ وہاں سے نکل کر صُورؔ اور صیداؔ کے علاقے میں چلا گیا۔  22 ایک کنعانی عورت نکل کر یسُوع ؔ کے پاس آئی اور چِلّا چِلّا کر کہنے لگی، اَے خُداوند ابنِ داؤد! مُجھ پر رحم کر۔ میری بیٹی میں ایک بدرُوح ہے جو اُسے بُہت ستاتی ہے۔  23 مگر یسُوعؔ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا۔ تب اُس کے شاگردوں نے اُس سے کہا کہ اِسے رخصت کر یہ ہمارے پیچھے پیچھے چِلّاتی ہے۔  24 مگریسُوعؔ نے جواب دیا،  ”خُدا نے مُجھے اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں بھیجا۔“   25 مگر اُس عورت نے آکر اُسے سجدہ کیا اور کہا، اَے خُداوند! میری مدد کر۔  26 یسُوعؔ نے اُس سے کہا،  ”یہ ٹھیک نہیں کہ بچوں کی روٹی لے کر کُتوں کو دے دی جائے۔“   27 عورت نے کہا یہ سچ ہے خُداوند، مگر کُتے بھی تو اُن روٹی کے ٹُکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو مالک کی میز سے گرتے ہیں۔  28 یہ سُن کر یسُوعؔ نے اُس عورت سے کہا،  ”اَے عورت تیرا ایمان بُہت بڑا ہے۔ جا! تیری دُعا سُنی گئی۔“ اُس کی بیٹی نے اُسی وقت شفا پائی۔

  29 وہاں سے یسُوعؔ واپس گلیلؔ کی جھیل کے نزدیک آیا اور ایک پہاڑی پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔  30 بُہت سے لوگ بیماروں کو لے کر اُس کے پاس آئے جو لنگڑے، اندھے، گوُنگے، ٹُنڈے اور طرح طرح کی بیماریوں میں مُبتلا تھے اُس نے اُنہیںاچھا کیا۔  31 جب لوگوں نے دیکھا کہ گوُنگے بُولتے، ٹُنڈے ٹھیک ہوتے، لنگڑے چلتے پھرتے اور اندھے دیکھتے ہیںتو بُہت حیران ہوئے اور اسرائیل کے خُدا کی تمجید کرنے لگے۔

 چار ہزار کو کھلانا:

  32 یسُوعؔ نے شاگردوں کو بُلاکر کہا،  ”مُجھے اِن لوگوں پر ترس آتا ہے یہ مسلسل تین دن سے میرے ساتھ ہیں اور اِن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں بچا۔ میں اِنہیں بھُوکا واپس نہیں بھیجنا چاہتا۔ ایسا نہ ہو کہ بھُوک کے مارے راستے میں گر جائیں۔“   33 شاگردوں نے کہااتنے سارے لوگوں کے لیے ہم اتنی روٹیاں کہاں سے لائیں گے؟  34 یسُوعؔ نے اُن سے پُوچھا،  ”تُمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟“ اُنہوں نے کہا سات روٹیاں اور کچھ چھوٹی مچھلیاں۔  35 اُس نے لوگوں کو زمین پر بیٹھنے کا حُکم دیا۔  36 پھر اُس نے سات روٹیوں اور مچھلیوں کو لے کر شُکر کیا اور توڑکر شاگردوں کودی اور شاگرد لوگوں میں بانٹتے رہے۔  37 جب سب نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو بچے ہوُے ٹُکروں کے سات ٹوکرے اُٹھائے۔  38 کھانے والے بچوں اور عورتوں کے علاوہ چار ہزار مرد تھے۔  39 پھر وہ لوگوں کو روانہ کرکے کشتی پر سوار ہوا اور مگدن ؔکے علاقے میں چلا گیا۔