یُوحنّا ؔ بپتسمہ دینے والے کا قتل:
1 اُس وقت گلیل ؔ کے حاکم ہیردویس انتپاس ؔنے جب یسُوع ؔکے بارے میں سُنا۔ 2 تو اُس نے اپنا نوکروں سے کہا یہ شخص ضرور یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والا ہے جو مُردوں میں سے جی اُٹھاہے۔ اِسی لیے وہ ایسے مُعجزات دکھاتا ہے۔ 3 کیونکہ ہیرودیسؔ نے ہیرودیا ؔس کی وجہ سے یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والے کو قید میں ڈلوا دیا تھاجو اُس کے بھائی فلپسؔ کی بیوی تھی۔ 4 کیو نکہ وہ بار بار ہیرودؔیس سے کہتا تھا کہ تُجھے اپنے بھائی کی بیوی رکھناجائز نہیں۔ 5 ہیرودیسؔ یُوحنّاؔ کو قتل کروانا چاہتا تھامگر عام لوگوں سے ڈرتا تھا کیونکہ وہ اُسے نبی مانتے تھے۔ 6 ایک دن ہیرودؔیس اپنی سالگرہ منا رہا تھا کہ ہیرودیاؔس کی بیٹی نے محفل میں ناچ کر اُسے خُوش کیا۔ 7 جس پرہیرودؔیس نے قسم کھا کر اُس سے وعدہ کیا کہ جو کچھ تُومانگے گی میں دُوں گا۔ 8 اپنی ماں کے اُبھارنے سے اُس نے یُوحنّا ؔ بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال پر رکھ کر لانے کے لیے مانگ لیا۔ 9 ہیرودیسؔ اِس پر افسردہ ہوگیا مگر مہمانوں کے سامنے اپنی قسم کی وجہ سے اُس نے حُکم جاری کر دیا۔ 10 اُس نے سپاہی بھیج کر یُوحنّا ؔ کا سر کٹوا دیا۔ 11 سپاہی اُس کا سرایک تھال پر رکھ کر لے آئے اور لڑکی کو دے دیا۔ وہ اُسے اپنی ماں کے پاس لے گئی۔ 12 بعد میں یُوحنّاؔ کے شاگرد وں نے اُس کی لاش کو لے جا کر دفنایا اور یسُوع ؔ کو خبر دی۔
13 یہ سُنتے ہی یسُوعؔ ایک کشتی میں بیٹھ کر دُورکسی ویران جگہ کی طرف چلا گیا۔ لوگ ہر شہر سے پیدل اُس کے پیچھے گئے۔ 14 کشتی سے اُتر کر اُس نے ایک بڑی بھیڑ دیکھی تو اُسے اُن پر ترس آیااور اُن کے بُہت سے بیماروں کو اچھا کر دیا۔
15 جب شام ہوئی تو شاگردوں نے پاس آکر یسُوعؔ سے کہا کہ یہ جگہ ویران ہے اور بُہت دیر ہو گئی ہے اِنہیں بھیج کہ قریب گاؤں میں جا کر اپنے لیے کھانا خرید سکیں۔ 16 یسُوعؔ نے جواب میں کہا، ”اِن کا جانا ضروری نہیں تُم خُود اِنہیں کھانا کھلاؤ۔“ 17 شاگردوں نے یسُوعؔ کو بتایا کہ اُن کے پاس صرف پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔ 18 اُس نے کہا، ”وہ میرے پاس لے آؤ۔“ 19 اُس نے لوگوں کو گھاس پر بیٹھنے کو کہا۔ پھر اُس نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر برکت دی اور روٹیاں توڑ کر شاگردوں کو دیں تاکہ لوگوں میں بانٹ دیں۔ 20 جب سب کھا کر سیر ہو گئے تو روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کی بارہ ٹوکریاں اُٹھائیں۔ 21 عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر کھانے والے تقریباً پانچ ہزار مرد تھے۔
22 اِس کے فوراً بعد اُس نے شاگردوں کو کشتی پرسوار ہو کر جھیل کے پار جانے کو کہا اور خُود لوگوں کو رُخصت کرنے کے لیے رُک گیا۔ 23 لوگوں کو رُخصت کرنے کے بعد وہ دُعا کرنے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ جب شام کافی ہو گئی تو وہ پہاڑ پر اکیلا تھا۔
24 اُس وقت تک وہ کشتی جس پر شاگرد سوار ہوئے تھے کنارے سے بُہت دُور چلی گئی اور لہروں میں ڈگمگا رہی تھی کیونکہ ہَوااُن کے مخالف تھی۔ 25 تقریباً رات تین بجے کے قریب یسُوعؔپانی پر چلتا ہوا اُن کے پاس آیا۔ 26 جب شاگردوں نے اُسے پانی پر چلتے ہوئے اوراپنی طرف آتے دیکھا توبھُوت سمجھ کر خوف سے چِلّانے لگے۔ 27 یسُوعؔ نے فوراًاُن سے کہا، ”ڈرو مت۔ حوصلہ رکھو، میں ہوں۔“ 28 پطرسؔ نے پُکار کر اُس سے کہا، اَے اُستاد! اگریہ توُ ہے تو مُجھے پانی پر چل کر اپنے پاس آنے کا حُکم کر۔ 29 یسُوعؔ نے کہا، ’ ہاںآ‘ ۔ پطرسؔ کشتی سے اُترا اور پانی پر چلتا ہوا یسُوعؔ کی طرف جانے لگا۔ 30 مگر جب اُس نے تیز ہوا اور موجوں کو دیکھا تو خُوفزدہ ہو کر ڈوبنے لگا تو چِلّا کر کہا، اے خُداوند مُجھے بچا! 31 یسُوعؔ نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس سے کہا، ”تیرا اِیمان اِس قدر کمزور ہے! تُونے شک کیوں کیا؟“ 32 جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہو گئے تو طوفان تھم گیا۔ 33 کشتی پر موجود شاگردوں نے اُسے سجدہ کر کے کہا کہ تُو یقیناً خُدا کا بیٹا ہے۔
34 جھیل پار کر کے وہ گنیسرتؔ کے علاقے میں آئے۔ 35 وہاں کے لوگوں نے اُنہیں پہچان کر اِردگرِد کے علاقے میں خبر پہنچائی۔ تو لوگ بُہت سے بیماروں کو لے کر اُس کے پاس آئے۔ 36 اور یسُوعؔ سے درخواست کی کہ بیمار لوگوں کو صرف اپنا لباس چھُولینے دے اور جتنوں نے اُس کا لباس چھؤا، وہ شفا پا گئے۔