یُوحنّا ؔ کے شاگردں کا یسُوعؔ سے سوال:
1 یسُوعؔ جب اپنے شاگردوں کو ہدایت دے چُکا تو اُس علاقے کے تمام شہروں میں منادی کرنے اور تعلیم دینے کے لیے روانہ ہوا۔
2 یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والا جو قید میں تھا جب اُس نے یسُوعؔ کے کاموں کا سُنا تو اپنے شاگردوں کو یسُوعؔ کے پاس بھیجا۔ 3 یہ پوچھنے کے لیے کہ کیا توُ ہی مسیح ہے جس کا ہم انتظارکر رہے ہیں یا پھر کسی اور کا انتظار کریں؟ 4 یسُوعؔ نے جواب میں اُن سے کہا، ”جو کچھ تُم نے سُنااور دیکھا ہے یُوحنا ؔکو جا کر بتا ؤ۔ 5 ”کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے، کوڑھی پاک صاف کیے جاتے، بہرے سُنتے، مُردے زندہ کئے جاتے اور غریبوں کو خُوشخبری سُنائی جاتی ہے۔ 6 ”اور مبارک ہے وہ شخص جو میرے بارے میں شک نہ کر ے۔“
7 جب یُوحنا ؔ کے شاگرد چلے گئے تو یسُوعؔ نے لوگوں کو یُوحنّا ؔکے بارے کہنا شروع کیا، ”تُم بیابان میں کس سے ملنے گئے تھے؟ ایک کمزور سے سر کنڈے سے جو ہوا کے جھونکے سے ہل جاتاہے؟ 8 ”یا پھر ایسے شخص سے جس نے شاہی لباس پہن رکھا ہو؟ نہیں! کیونکہ شاہی لباس پہننے والے تو محلوں میں رہتے ہیں۔ 9 ”تو پھر کسی نبی سے؟ ہاں! بلکہ نبی سے بھی بڑے سے۔ 10 ”یُوحنّاؔ ہی وہ شخص ہے جس کے لیے کلام میں لکھا ہے:
’دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوںاور وہ تیرے آگے تیری راہ تیار کرے گا۔‘ (ملاکی۳: ۱)
11 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں اِس دُنیا میںجتنے بھی عورت سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں سے کوئی بھی یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والے سے بڑا نہیں لیکن آسمان کی بادشاہی میں جو سب سے چھوٹا ہے وہ یُوحنّا ؔ بپتسمہ دینے والے سے بڑا ہے۔ 12 ”یُوحنّاؔپبتسمہ دینے والے کی خدمت کے شروع سے آج تک آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے زور مارا جاتا ہے اورز رآوراُسے چھین لیتے ہیں۔ 13 ”سب نبیوں اورموسیٰؔ کی شریعت نے فقط یُوحنّاؔ تک نبوت کی۔ 14 ”اور اگر تُم چاہو تو مانو، میں تُم سے کہتا ہوں ایلیاؔ ہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔ (ملاکی ۴: ۵) 15 ”جو سُن سکتا ہے سُنے! 16 ”میں اِس زمانے کے لوگوں کا کن سے مقابلہ کروں۔ یہ اُن لڑکوں کی مانند ہیںجو بازاروں میں بیٹھ کر اپنے دوستوں کو پکُار کر کہتے ہیں۔ 17 ”ہم نے تُمہارے لیے گایا بجایا مگر تُم نہ ناچے۔ ہم نے ماتم کیا اور تُم نے آہ و نالہ نہ کیا۔ 18 ”اِسی طرح یُوحنّاؔآیاجسے اپنے کھانے پینے کی فکر نہیں تھی اور یہ لوگ اُسے بدرُوح گرفتہ کہتے ہیں۔ 19 ”اور اِ بن آدم جو کھاتا پیتا آیا یہ لوگ اُسے کھاؤاور شرابی کہتے ہیں اور ٹیکس لینے والوں اور گُنہگاروں کا یار، مگر حکمت اپنے کاموں سے راست ثابت ہوئی۔“
ایمان نہ لانے والے شہروں پر افسوس:
20 پھریسُوعؔ اُن شہروں پر افسوس کرنے لگا جن میں اُس نے بُہت سے معجزات دکھائے مگر وہاں کے لوگوں نے نہ توبہ کی اور نہ اپنے گُناہوں کو چھوڑا۔ 21 ”اَے خرازؔین تُجھ پر افسوس! اَے بیت صیداؔتُجھ پر افسوس! وہ مُعجزے جو تُم میںہوئے اگر صورؔاور صیدا ؔ میں ہوتے تو وہ کب کے خاک اور راکھ میں بیٹھ کر توبہ کر چُکے ہوتے 22 ”اِس لیے میں تُجھ سے کہتا ہوں کہ عدالت کے دن صورؔ اور صیدا کا حال تُم سے بہتر ہوگا۔
23 ”اور اَے کفرنحوم! ؔ کیا تُو آسمان تک بلند کیا جائے گا؟ نہیںتُو تَو عالم ِاَروح میں اُتارا جائے گا۔ وہ مُعجزے جو تُم میں ہوئے اگر سدُومؔ میں ہوتے تو برباد نہ ہوتابلکہ آج تک قائم رہتا۔ 24 ”یقینا عدالت کے دن سدُومؔ کا حال تُجھ سے بہتر ہو گا۔“
خُداوندتھکے ماندوں کو بُلاتا ہے:
25 تب یسُوع ؔنے یہ دُعا کی ، ”اَے باپ آسمان اور زمین کے خداوندمیںتیرا شُکرگُزار ہوں کہ تُو نے یہ باتیں اُن سے پوشیدہ رکھیں جواپنے آپ کو دانا اور عقلمند سمجھتے ہیں اور بچوںپر ظاہر کیں۔ 26 ”ہاں! اَے باپ! اسی میں تیری خُوشی تھی۔ 27 ”میرے باپ نے سب کچھ میرے حوالے کیا ہے۔ کوئی بیٹے کو نہیں جانتا ہے سوائے باپ کے۔ اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سوائے بیٹے کے، یا وہ جس پر بیٹا باپ کو ظاہر کرنا چاہے۔
28 ”اَے محنت ومشقت کرنے والو! اور بوجھ سے دبے لوگو! میرے پاس آؤمیں تُمہیں آرام دُوں گا۔ 29 ”میرا جؤا اُٹھا لو اور مُجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم اور نرم دل ہوں۔ تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی۔
30 ”کیونکہ میرا جؤا نرم اور میرا بوجھ ہلکا ہے۔“