کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

مرقس 9

 9

  1 پھر یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”میرا یقین کرو میں تُم سے کہتا ہوں کہ تُم میں سے بعض جو یہاں کھڑے ہیں موت کو نہ دیکھیںگے جب تک خُدا کی بادشاہی کو پوری قدرت کے ساتھ آتا ہوا دیکھ نہ لیں۔“

 یسُوعؔ کی صورت کا تبدیل ہونا:

  2 چھ دن کے بعد یسُوعؔ اپنے تین شاگردوں، پطرس ؔ، یعقوبؔ اور یُوحناؔ کو الگ ایک اُونچے پہاڑ پر لے گیا اور اُن کے دیکھتے دیکھتے یسُوعؔ کی صورت بدل گئی۔  3 اُس کی پوشاک اِس قدر نورانی اور سفید ہو گئی کہ کوئی دھوبی بھی اتنی سفیداور اُجلی نہیں دھو سکتا۔  4 پھر ایلیاہؔ اور مُوسیٰ ؔکو نمودار ہوتے اور یسُوعؔ کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا۔  5 پطرسؔ نے یسُوعؔ سے کہا اے ربّی! کتنا ہی اچھا ہو اگر ہم یہاں یادگاری کے طور پر تین ڈیرے بنائیں، ایک تیرے لیے، ایک مُوسیٰؔکے لیے اور ایک ایلیاہؔ کے لیے۔

  6 پطرسؔ کو اِس کی علاوہ کچھ اور سمجھ نہیں آئی کہ اور کیا کہے کیونکہ وہ بُہت خُوفزدہ ہو گئے تھے۔

  7 پھر ایک بادل نے اُن کو چھپا لیا اور ایک آواز اُس بادل میں سے آئی، ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے اِس کی سُنو!“  8 لیکن جب اُنہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو سوائے یسُوعؔ کے کوئی نظر نہ آیا۔

  9 جب وہ پہاڑ سے واپس نیچے آ رہے تھے تو یسُوعؔ نے اُنہیں تاکیداً کہا کہ اِس واقعہ کی خبر کسی کو نہ دینا جب تک ابنِ آدم مُردوں میں سے جی نہ اُٹھے۔  10 شاگرد وں نے اِس بات کو اپنے دِل میں رکھا لیکن وہ اکثر ایک دُوسرے سے پُوچھتے کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا کیا مطلب ہے۔  11 پھر اُنہوں نے یسُوعؔ سے پُوچھا کہ شریعت کے اُستاد کیوں اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسیِح کی آنے سے پہلے ایلیاہؔ کا آناضرور ہے؟  12 یسُوعؔ نے جواب دیا،  ”بے شک ایلیاہؔ پہلے آئے گا اور سب کچھ بحال کرے گا، تو صحیفوں میں یہ کیوں لکھا ہے کہ ابنِ آدم بُہت سے دُکھ اُٹھائے گا اور اُس کی تحقیر کی جائے گی۔   13  ”لیکن میں تُم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہؔ آ چُکا ہے اور جیسا اُس کے بارے میں لکھا ہے اُنہوں نے اُس کے ساتھ بد سلوکی بھی کی۔“

 بدرُوح گرفتہ لڑکے کی شفا:

  14 جب وہ شاگردوں کے پاس آیا تو لوگوں نے اُن کو گھیر رکھا تھا جن میں شریعت کے اُستاد بھی تھے جو اُن سے بحث کر رہے تھے۔  15 جب بھیڑ نے یسُوعؔ کو دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر اُس کی طرف بھاگے اور سلام کیا۔  16 یسُوع ؔ نے اُن سے پُوچھا،  ”تُم کیا بحث کر رہے تھے؟“

  17 اُن میں سے ایک نے کہا، اَے اُستاد! میں اپنے بیٹے کوتیرے پاس لایا تھا جس میں ایک گونگی بدرُوح ہے۔  18 وہ جہا ں کہیں اُسے دیکھتی ہے بُری طرح زمین پر پٹک دیتی ہے اور لڑکا دانت پیسنے اورمُنہ سے جھاگ نکالنے لگتا ہے۔ میں نے تیرے شاگردوں کو کہا کہ وہ اِسے نکال دیں مگر وہ بدرُوح کو نکال نہ سکے۔  19 یسُوع ؔ نے اُن سے کہا،  ”اے کم اعتقادقوم! میں کب تک تُمہارے ساتھ رہ کر تُمہاری برداشت کروں گا؟ لڑکے کو میرے پاس لاؤ۔“   20 وہ لڑکے کو اُس کے پاس لائے۔ جیسے ہی بد رُوح نے یسُوع ؔکو دیکھا اُس نے لڑکے کو زور سے جھٹک کر زمین پر گرا دیا اور اُس کے مُنہ سے جھاگ نکلنے لگی۔  21 یسُوع ؔنے لڑکے کے باپ سے پُوچھا،  ”کب سے اِس کی یہ حالت ہے؟“ اُس نے جواب دیا: ”بچپن سے۔  22 بدرُوح نے کئی دفعہ اُسے آگ اور پانی میں پھینک کر مارڈالنے کی کوشش کی۔“

  23 پھر اُس نے یسُوعؔ سے کہا: ”ہم پر رحم کر، اگر تُوکر سکتا ہے، تو ہماری مدد کر۔ یسُوع ؔنے اُس سے کہا،  ”کیا کہا! اگر تُوکر سکتا ہے! جو اعتقاد رکھتا ہے اُس کے لیے سب کچھ ہو سکتا ہے۔“   24 لڑکے کے باپ نے فوراً چِلّاکر کہا، ’میں اعتقاد رکھتا ہوں۔ تُومیری کم اعتقاد ی کا علاج کر۔‘  25 جب یسُو ع ؔنے دیکھا کہ لوگ دیکھنے کے لیے جمع ہورہے ہیں تو بدرُوح کو جھڑک کر کہا،  ”اے گونگی اور بہری رُوح! میں تُجھے حُکم دیتا ہوں اِس لڑکے میںسے نکل جا اور پھر کبھی واپس نہ آنا۔“   26 بد رُوح چیخ کر اور لڑکے کو بُری طرح مروڑ کر اُس میں سے نکل گئی۔ وہ مُردہ سا زمین پر گر پڑااور لوگ کہنے لگے کہ وہ مر گیا ہے۔  27 یسُوعؔ نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اُٹھایا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔  28 جب وہ گھر میں آیا تو شاگردوں نے تنہائی میں اُس سے پُوچھا کہ ہم اِس بدرُوح کو کیوں نہ نکال نہ سکے؟

  29 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”یہ قسم دُعا اور روزہ کے بغیر نہیں نکل سکتی۔“

  30 پھر وہ وہاں سے روانہ ہوئے اور گلیلؔ سے ہو کر گُزررہے تھے یسُوعؔ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو پتا چلے کہ وہ یہاں ہے۔  31 کیونکہ وہ شاگردوں کے ساتھ کچھ وقت گُزارنا چاہتا اور تعلیم دینا چاہتا تھا۔ اُس نے اُن سے کہا،  ”ابنِ آدم لوگوں کے حوالہ کیاجائے گاوہ اُسے مار ڈالیں گے اور وہ تیسرے دن پھر جی اٹھے گا۔“   32 مگر شاگرد اِس کامطلب نہ سمجھ سکے اور اُس سے پُوچھتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔

 سب سے بڑا کون؟:

  33 اِس کے بعد وہ کفرِنحومؔ میں آئے جب گھر پہنچے تو یسُوعؔ نے شاگردوں سے پُوچھا،  ”تُم راستہ میں کیا بات کر رہے تھے؟“   34 وہ خاموش رہے کیونکہ وہ راستہ میں یہ بحث کر رہے تھے کہ اُن میں سے بڑا کون ہے۔  35 جب وہ بیٹھ گیا تو اُس نے بارہ شاگردوں کو بُلایااور اُن سے کہا،  ”جو کوئی تُم میں بڑ ا بننا چاہتا ہے پہلے وہ سب سے چھوٹا اور سب کا خادم بنے۔“   36 تب اُس نے ایک چھوٹے بچے کو لے کر اُن کے بیچ کھڑا کیا اور اُسے اپنی گود میں لے کر اُن سے کہا۔  37  ”جو کوئی اِس بچے کو میری خاطر قبُول کرتا ہے وہ صرف مُجھے ہی نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔“

  38 یُو حنّاؔنے یسُوع ؔ سے کہااے اُستاد! ہم نے ایک شخص کو تیرے نام سے بدرُوحیںنکالتے دیکھا تو ہم نے اُسے روکا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ نہیں۔  39 یسُوع ؔنے کہا،  ”اُسے مت روکو۔ کیونکہ اگر کوئی میرا نام لے کر معجزہ کرے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ جلد میرے خلاف کوئی بات کرے۔   40  ”جو ہمارے خلاف نہیں وہ ہمارے ساتھ ہے۔   41  ”میں تُمہیں یقین دلاتا ہوں اگر کوئی یہ جان کر کہ تُم مسیح کے ہو ایک گلاس پانی پلائے تو اپنا اَجر ہر گز نہ کھوئے گا۔

  42  ”اگر کوئی اِن چھوٹوں میں سے جو مُجھ پر ایمان رکھتے ہیں کسی ایک کے ٹھوکر کھانے کا باعث بنے اُس کے لیے یہی بہتر ہے کہ اُس کے گلے میں چکّی کا ایک بھاری پاٹ ڈال کر سمندر میں پھنک دیا جائے۔

  43  ”اگرتُو اپنے ہاتھ کے کسی کام سے گنہگارٹھہرے تو بہتر ہے کہ اُسے کاٹ کر پھینک دے۔ یہ اِس سے بہتر ہو گاکہ دو ہاتھ رکھ کرجہنم کی آگ میں جائے۔   44  ”جہاں کی آگ کبھی نہیں بُجھتی اور اُس کا کیڑا بھی نہیں مرتا۔   45  ”اور اگر تُو اپنے پاؤںکے کسی کام سے گنہگار ٹھہرے تو بہتر ہے کہ اُسے کاٹ کر پھینک دے یہ اِس سے بہتر ہو گا کہ دو پاؤںہوتے ہوئے جہنم کی آگ میں جائے۔   46  ”جہاں کی آگ کبھی نہیں بُجھتی اور اُ س کا کیڑا بھی نہیں مرتا۔   47  ”اور اگر تیری آنکھ کی وجہ سے تُوگنہگار ٹھہرتا ہے تو اپنی آنکھ نکال کر پھینک دے یہ اِس سے بہتر ہو گا کہ تُو دو آنکھوںکے ساتھ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے۔   48  ”جہاں کی آگ بُجھتی نہیں اور اُس کا کیڑا بھی نہیں مرتا۔   49  ”ہر شخص آگ سے گُزر کرنمکین کیاجائے گا۔ جیسے ہر ایک قربانی نمک سے نمکین کی جاتی ہے۔   50  ”نمک کھانے کو نمکین کرنے کے لیے اچھا ہے۔ اگر اُس کی نمکینی باقی نہ رہے تو اُسے کس چیز سے نمکین کیا جائے؟ تُم نمک کی طرح نمکین ہو اور آپس میں میل ملاپ رکھو۔“