کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

مرقس 8

 8

 چار ہزار آدمیوں کو کھلانا:

  1 اُن ہی دنوں ایک دفعہ پھر بڑی تعداد میں لوگ یسُوعؔ کے گرد جمع ہو گئے۔ اُن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ اُس نے شاگردوں کو بُلاکر اُن سے کہا:  2  ”مُجھے اِن پر ترس آتا ہے۔ یہ پچھلے تین دِن سے میرے ساتھ ہیں اور اِن کے پاس کھانے کو کچھ نہیںرہا۔   3  ”اگر میں اِنہیں بغیر کھانے کے بھیج دوں تو کہیں یہ راستے میں رہ نہ جائیں کیونکہ کچھ لوگ بُہت دُور سے آئے ہیں۔“   4 اُس کے شاگردوں نے جواب دیا کہ اِس ویرانے میں اتنے سارے لوگوں کو کھلانے کے لیے ہم کہاں سے کھانا لائیں گے؟  5 یسُوعؔ نے اُن سے پُوچھا،  ”تُمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟“ اُنہوں نے جواب دیا، ’سات روٹیاں۔‘  6 یسُوع ؔنے لوگوں کو زمین پر بیٹھنے کے لیے کہااور سات روٹیاں لے کر خُدا کا شُکر ادا کیااور اُن کے ٹُکڑے کر کے شاگردوں کودیے اور شاگرد اُنہیں لوگوں کے سامنے رکھنے لگے۔  7 اُن کے پاس چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی تھیں اُس نے اُن پر بھی برکت مانگی اور شاگردوں کو دیںکہ اُن کے سامنے رکھیں۔  8 جب سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو بچے ہوئے ٹُکڑوں کے سات ٹوکرے بھرکر اُٹھائے۔  9 اور کھانے والوں میں چارہزار مردتھے۔ اِس کے بعد یسُوعؔ نے اُنہیں رُخصت کیا۔  10 اور شاگردوں کے ساتھ کشتی پر سوا رہو کر فوراً جھیل کے پار دِلمنُوتہ ؔ کے علاقہ میں گیا۔

 فریسیوں کا آسمانی نشان طلب کرنا:

  11 کچھ فریسیوں نے سُنا کہ یسُوعؔ آیا ہے تو اُس کے پاس آکربحث کرنے لگے او رآزمانے کے غرض سے اُس سے آسمانی نشان دِکھانے کا مطالبہ کیا کہ وہ یہ کام کس اختیار سے کرتا ہے۔  12 یسُوعؔ نے ایک گہری آہ بھر کر کہا،  ”یہ لوگ کیوں کوئی نشان دیکھنا چاہتے ہیں؟ میں سچ سچ کہتا ہوں اِن لوگوں کو کوئی نشان نہیں دِکھایا جائے گا۔“   13 لہٰذا وہ اُنہیں چھوڑ کر کشتی میں جا بیٹھا اور جھیل کے پار چلاگیا۔

 فریسیوں کا خمیر:

  14 شاگرد اپنے ساتھ روٹی لانا بھول گئے اور اُن کے پاس کشتی میںصرف ایک روٹی تھی۔  15 وہ اپنے شاگردوں کو تاکید کر کے کہہ رہا تھا،  ”سُنو! فریسیوں اور ہیرودیس ؔکے خمیر سے خبردار رہنا۔“   16 یہ سُن کر وہ آپس میں کھُسرپُھسرکرنے لگے کیونکہ اُن کے پاس روٹی نہیںتھی۔  17 یسُوعؔ کو پتا تھا کہ وہ کیابات کر رہے ہیں۔ اُس نے کہا:  ”تُم کیوں فکرکرتے ہو کہ تُمہارے پاس روٹی نہیں کیا تُم ابھی تک نہیں جانتے اور سمجھتے؟ کیا تمہارے دل اتنے سخت ہو گئے ہیں کہ قبول نہیں کر سکتے؟   18  ”آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کیا تُم دیکھ نہیں سکتے؟ اور کان رکھتے ہوئے سُن نہیں سکتے؟ کیا تُمہیں یاد نہیں؟   19  ”جب پانچ ہزار آدمی صرف پانچ روٹیوں سے سیر ہوئے توبچے ہُوئے ٹُکڑوں کے کتنے ٹوکرے اُٹھائے؟“ اُنہوں نے جواب دیا بارہ۔  20  ”جب چار ہزارآدمیوں کو سات ر وٹیوں سے سیر کیا تو کتنی بچی ہوئیں ٹوکریاں اُٹھائیں؟“ اُنہو ں نے جواب دیا، ’سات۔‘  21 تب یسُوعؔ نے کہا،  ”کیا ابھی تک تُمہیں کچھ سمجھ نہیں آئی؟“

 بیت صیدا ؔمیں اَندھے کی شفا:

  22 یسُوعؔ اور اُس کے شاگرد بیت صیدا ؔ آئے۔ لوگ ایک اَندھے کواُس کے پاس لائے اورمنِّت کی کہ اُسے چُھوئے۔

  23 یسُوعؔ نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور گاؤں سے باہر لے جا کراُس کی آنکھوں پر تھوکاپھر اُس پر ہا تھ رکھ کے پُوچھاکہ کیا تُجھے کچھ نظر آتا ہے؟  24 اُس نے اُوپر دیکھ کرکہا ہاں! میں لوگوں کو دیکھ رہا ہوںمگر وہ مُجھے ایسے نظر آ رہے ہیں جیسے درخت اِرد گرد چل رہے ہوں۔  25 یسُوعؔ نے اپنے ہاتھ دوبارہ اُس کی آنکھوںپررکھے اور جب اُس نے دوبارہ آنکھیں اُٹھاکر دیکھا تو اُسے سب صاف نظر آنے لگا۔  26 یسُوعؔ نے اِس تاکید کے ساتھ اُسے روانہ کیا،  ”کہ کسی کو یہ بات نہ بتائے بلکہ سیدھا اپنے گھر جا۔“

 پطرس ؔ کا اقرار:

  27 گلیلؔ سے نکل کر یسُوعؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ قصریہ ؔ فلپّی کے ایک دیہات کو گیا۔ جب ابھی وہ راستے ہی میں تھے اُس نے اپنے شاگردوں سے پُوچھا،  ”لوگ میرے بارے میں کیاکہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟“   28 اُنہوں نے جواب دیا کہ بعض لوگ تُجھے یُوحناؔ بپتسمہ دینے والا اور بعض ایلیاہ ؔکہتے ہیں اور بعض کہتے ہیںپُرا نے نبیوں میں سے کوئی ایک نبی ہے۔  29 اُس نے پھر پُوچھا،  ”مگر تُم مُجھے کیا کہتے ہو؟“ پطرسؔ نے جواب دیا: ”تُو مسیِح ہے۔“  30 لیکن یسُوعؔ نے اُنہیں تاکید اً کہا کہ یہ بات کسی سے نہ کہنا۔

 یسُوعؔ کی اپنے دُکھوں اور موت کی پیشنگوئی:

  31 پھر یسُوعؔ نے اپنے شاگردوں کو تعلیم دینے لگا کہ ضرور ہے کہ ابن آدم بُہت دُکھ اُٹھائے اور یہ بھی کہ بزُرگ، سردارکاہن اور شریعت کے اُستاد اُسے رَدّکریں، پھر اُسے مار ڈالا جائے اور وہ تیسرے دن پھرجی اُٹھے۔  32 اُس نے یہ باتیں شاگردوں کے سامنے صاف طور پر کیں تو پطرسؔ نے اُسے الگ لے جا کر غصّہ کرنے لگا۔  33 یسُوع ؔنے مُڑ کر شاگردوں کی طرف دیکھااور پطرسؔ کو جھڑک کر کہا،  ”اے شیطان! میری نظر سے دُور ہوکیونکہ تو اِن باتوںکو انسانی سوچ کے مطابق سمجھتا ہے نہ کہ خُدا کی سُوچ کے مطابق۔“

  34 پھر یسُوعؔ نے سب لوگوں کو جو وہاں تھے شاگردوں کے ساتھ پاس بُلایا اور کہا،  ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے وہ اپنا انکار کرے، اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔   35  ”جو کوئی اپنی زندگی کو بچانے کی کوشش میں رہتا ہے وہ اِسے کھوئے گااور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان قربان کر دیتا ہے وہ اُسے بچا لے گا۔   36  ”اور اگر آدمی ساری دُنیا کو حاصل کرے اور اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا حاصل ہوا۔   37  ”اور اپنی جان کے بدلے آدمی کیا دے سکتا ہے؟   38  ”اِس زناکار اور خطاکار قوم میں سے اگر کوئی میری باتوں سے شرمائے گا تو ابنِ آدم بھی جب اپنے باپ کے جلال میں فرشتوں کے ساتھ آئے گا تو اُس سے شرمائے گا۔“