روایات اور شریعت:
1 ایک دن یروشلیِمؔ سے کچھ فریسی اور شریعت کے عالم یسُوعؔ کے پاس جمع ہوئے۔ 2 اُنہوں نے دیکھا کہ اُس کے شاگرد یہُودی روایت کے برخلاف کھانے سے پہلے ہاتھ نہیں دھوتے۔
3 یہودی خاص طور پر فریسی روایت کی مطابق جب تک ہاتھ نہ دھولیں کھا نا نہیں کھاتے تھے۔ 4 جب بازار سے واپس آتے تو جب تک صفائی نہ کر لیتے کچھ نہ کھاتے۔ اِس طرح اوربُہت سی روایات جو اُنہیں ملی تھیں اُن پرعمل کرتے تھے جیسے پیالو ں، کیتلیوں اور تانبے کے برتنوں کو دھو نا۔ 5 لہٰذا فریسیوں اورشریعت کے عالموں نے یسُوعؔ سے پُوچھا کہ تیر ے شاگردبزرگوں کی روایت پر عمل کیوں نہیں کرتے اور بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھاتے ہیں۔ 6 یسُو عؔ نے جواب میںکہا: ”یسعیاہ ؔنبی نے تُم ریاکاروں کے لیے بالکل صحیح لکھا ہے کہ، ’یہ لوگ ہونٹوں سے تو میری تعظیم کرتے ہیں مگر اِن کے دل مُجھ سے دُور ہیں۔ 7 ”یہ بے فائدہ میری پر ستش کرتے ہیںکیونکہ یہ آدمیوں کی بنائی ہوئی روایات کو خُدا کے حکموں کی طرح سِکھاتے ہیں۔‘
8 ”تُم خُدا کے حکموں کو چھوڑ کر انسانی روایات کی پابندی کرتے ہو۔“ 9 پھر اُس نے کہا، ”تُم بڑی مہارت سے اپنی روایت کو قائم کرنے کے لیے بڑی آسانی سے خُدا کے حکموں کو نظرانداز کر دیتے ہو۔ 10 ”مُوسیٰؔ نے تو فرمایا ہے کہ، ’اپنے ماں باپ کی عزت کرو‘ اور، ’جو کوئی ماں باپ کو بُرا کہے وہ جان سے مارا جائے گا۔‘ 11 ”مگر تُم سکھاتے ہو کہ، ’یہ بات ٹھیک ہے اگر کوئی اپنے ماں باپ سے کہے کہ جو کچھ میں تُمہیں دے سکتا تھا وہ میں نے خُدا کو دے دینے کا عہد کیا ہے۔‘ 12 ”اور یوں تُم اُنہیں اپنے ماں باپ کی مدد کرنے سے روک دیتے ہو۔ 13 ”یوں تُم اپنی اِس روایت سے جو تُم نے قائم کی خُدا کے حُکم کو نظر انداز کر دیتے ہو۔ تُم اِس ِقِسم کے اوربھی کئی کام کرتے ہو۔“
14 پھر اُس نے ہجوم کو قریب بُلا کر کہا، ”تُم سب سُنو اور میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ 15 ”جو چیز باہر سے آدمی کے اندر جاتی ہے وہ اُسے ناپاک نہیں کرتی بلکہ جو کچھ دل سے باہر آتا ہے وہ اُسے ناپاک کرتا ہے۔ 16 ”اگر کسی کے پاس سُننے کے کان ہو تو سن لے!“
17 جب وہ ہجوم کو چھوڑ کر گھر گیا تو شاگردوں نے اِس تمثیل کے بارے میں پُوچھا۔ 18 یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”کیا تُم بھی اُن کی طرح ناسمجھ ہو؟ کیا تُم یہ بات نہیں سمجھتے کہ جو چیز باہرسے آدمی کے اندر جاتی ہے ناپاک نہیں کرتی؟ 19 ”اِس لیے کہ کھانا دل میں نہیںبلکہ پیٹ میں جاتا ہے اور مزبلہ میں نکل جاتا ہے۔ (یہ کہہ کر اُس نے سب کھانے والی چیزوں کو پاک ٹھہرایا)۔“ 20 پھر اُس نے کہا، ”جو کچھ انسان کے اندر سے نکلتا ہے وہی اُسے ناپاک کرتاہے۔ 21 ”یہ انسان کا اندر ہے یعنی اُس کا دل، جس سے یہ سب بُرائیاں نکلتی ہیںیعنی: شیطانی خیالات، حرامکاریاں، چوریاں، خُونریزیاں، 22 ”زنا کاریاں، لالچ، بدکاری، مکر وفریب، شہوت پرستی، بدنظری، بدگوئی، کُفر گوئی، نفرت، گھمنڈاور بے وقوفی۔ 23 ”یہ سب بُرائیاں انسان کے اندر سے نکل کر اُسے ناپاک کر دیتی ہیں۔“
غیر یہودی عورت کاایمان:
24 یسُوعؔ گلیلؔ سے صورؔ کے علاقے میں گیا۔ اور اِس لیے کہ لوگوں نہ جانیں کہ وہ یہاں آیا ہے، وہ ایک گھر میں داخل ہوامگر وہ اپنے آپ کو چھُپا نہ سکا۔ 25 ایک عورت یہ سُن کر کہ یسُوعؔ وہاں آیا ہے اُس کے پاس آ کرا ُس کے قدموں میں گر پڑی۔ اُس کی چھوٹی بیٹی میں بد رُوح تھی۔ 26 وہ عورت یونانی تھی اور سُورفینیکےؔ کی تھی۔ اُس نے یسُوع ؔ کی منت کی کہ اُس کی بیٹی سے بدرُوح کونکال دے۔ 27 یسُوعؔ نے اُس سے کہا، ”یہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی اُٹھا کر کُتوں کے آگے ڈال دی جائے ضروری ہے کہ پہلے لڑکے (یعنی یہودی قوم) سیر ہو جائیں۔“ 28 لیکن عورت نے جواب دیا، ”یہ سچ ہے خُداوند مگر کُتے بھی تو لڑکوں کے ٹُکڑے جو میز سے گرتے ہیں کھاتے ہیں۔“ 29 یسُوعؔ نے اُس سے کہا، ”تُو نے خُوب کہا! گھر چلی جا تیری بیٹی سے بدرُوح نکل گئی ہے۔“ 30 جب وہ گھر پہنچی تو اپنی بیٹی کو چارپائی پر لیٹے دیکھا اور بدرُوح اُس سے نکل چُکی تھی۔
بہرے اور ہکلے آدمی کی شفا:
31 پھر یسُوعؔ صؤرؔ سے نکلااور صیدؔا اور دیکاپلُس ؔ (دس شہروں کا مُلک) سے ہوتا ہوا گلیلؔ کی جھیل پر پہنچا۔ 32 کچھ لوگ بہرے آدمی کو جو مُشکل سے بولتا تھا اُس کے پاس لائے اور اُس کی منِّت کی کہ شفاکے لیے اپنا ہاتھ اُس پر رکھے۔ 33 یسُوعؔنے اُسے ہجوم سے الگ لے جا کراپنی اُنگلیاں اُس کے کانوں میں ڈالیں اور اپنی اُنگلی سے اپنا تھُوک اُس کی زبان پر لگایا۔ 34 اور آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھری اور کہا: ”اِفتح“ یعنی ”کھُل جا۔“
35 اُسی وقت اُس کے کان کھُل گئے اور اُس نے بولنا شُروع کر دیا۔
36 یسُوعؔ نے لوگوں کو تاکید کی کہ یہ بات کسی کو نہ بتانا۔ جتنا وہ اُن کو منع کرتا لوگ اُتنا ہی زیادہ اِس خبر کو پھیلاتے۔ 37 سُننے والے حیران ہوتے اور کہتے تھے کہ اُس کے کام حیران کُن ہیں وہ بہروں کو سُننے اور گُونگوں کو بولنے کی طاقت دیتا ہے۔