یسُوعؔ اپنے وطن میں:
1 پھریسُوعؔوہاں سے اپنے وطن ناصرت ؔمیں آیا اور اُس کے شاگرد بھی اُس کے ساتھ ہولے۔ 2 سبت کے دن وہ عبادت خانے گیا اور تعلیم دینے لگا۔ اُس کی تعلیم سُن کر بُہت سے لوگ حیران ہوئے کہ اُس نے یہ سب باتیں کہاں سے سیکھیں؟ ۔ یہ حکمت اُس نے کہاں سے حاصل کی اور معجزات جو اُس سے ہوتے ہیں، یہ کیا ہے؟ 3 پھر اُنہوں نے کہا، کیا یہ وہی بڑھئی نہیں جو مریم ؔکا بیٹا اور یعقوبؔ، یوسیسؔ، یہوداؔ ہ اور شعونؔ کا بھائی ہے؟ اورکیا اُس کی بہنیں ہمارے ہاں نہیں۔ اِن باتوں سے اُنہوں نے ٹھوکر کھائی اور ایمان نہ لائے۔
4 یسُوعؔ نے کہا: ”نبی سوائے اپنے گھر، رشتہ داروں اورشہرکے علاوہ کہیں بے عزت نہیں ہوتا۔“ 5 اُن کے ایمان نہ رکھنے کے باعث یسُوعؔ وہاں سوائے چند بیماروںکوشفا دینے کے کوئی بڑا معجزہ نہ کر سکا۔ 6 یسُوعؔ اُن کے ایمان کی کمی پر حیران ہوا۔ اِس کے بعد وہ ایک گاؤں سے دُوسرے گاؤں تعلیم دیتا پھرا۔
بارہ شاگردوں کو خدمت کے لیے بھیجنا:
7 یسُوعؔ نے اپنے بارہ شاگردوںکو بُلایا اور اُنہیں بدرُوحوں کو نکالنے کا اختیار دیا اور دو دو کر کے بھیجا۔ 8 اور یہ حکم دیا کہ سوائے لاٹھی کے اپنے ساتھ کچھ نہ لے کر جانا، نہ روٹی، نہ بٹوا، نہ ہی تھیلا۔ 9 چپلیاں پہنو مگر دُوسرا کُرتا مت لینا۔ 10 اور اُس نے اُن سے یہ بھی کہا: ”جس گھر میں تُم جاؤ اُسی میں رہو جب تک تُم اُس علاقے سے روانہ نہ ہو جاؤ۔ 11 ”اگر کسی جگہ کے لوگ تُمہیں قبُول نہ کریں اور تُمہاری بات نہ سُنیں تو اُس جگہ سے جاتے وقت اپنے جوتے اُن کے سامنے جھاڑ دینا تاکہ اُن کے خلاف گواہی ہو۔“
12 تب شاگرد روانہ ہو ئے اور جگہ جگہ توبہ کی منادی کرنے لگے۔ 13 اور بُہت سی بدرُوحوں کو نکالا اور بُہت سے بیماروں کو تیل مل کر شفا دی۔
یُوحنّا ؔ بپتسمہ دینے والے کی موت:
14 بادشاہ ہیرودیس انتیپاس ؔکو بھی یسُوعؔ کے بارے میں علم ہوا کیونکہ سب لوگ اُس کے بارے میں بات کرتے تھے کہ یُوحنّا ؔبپتسمہ دینے والا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے، اِس لیے وہ ایسے مُعجزے دکھاتا ہے۔ 15 کچھ کہتے تھے کہ یہ ایلیاہ ؔ ہے اور بعض یہ کہتے تھے کہ نبیوں میں سے ایک نبی کی مانند ہے۔ 16 یہ سُن کر ہیرودیسؔ نے کہا، یہ و ہی یُوحنّاؔ ہے جس کا سر میں نے کٹوایا تھااور وہ مُردوں میں سے زندہ ہوگیا ہے۔ 17 کیونکہ ہیرودیسؔ نے ہیرودیاس ؔکو خُوش کرنے کے لیے، جو اُس کی بھائی فِلپَس ؔ کی بیوی تھی مگر اب اُس کے ساتھ رہتی تھی، یُوحنّا ؔ کو پکڑ کر جیل میں ڈالنے کے لیے سپاہیوں کو بھیجا تھا۔ 18 کیونکہ یوحنّا ؔ نے کئی بار ہیرودیسؔ کو خبردار کیا تھا کہ اُسے اپنے بھائی کی بیوی کو اپنے پاس رکھنا مناسب نہیں۔ 19 اِس لیے ہیرودیاس ؔ کو یُوحنّا ؔ ؔسے نفرت ہو گئی اور چاہتی تھی کہ اُسے قتل کر ڈالے مگر اُسے ابھی تک موقع نہ ملا تھا۔ 20 مگر ہیرودیسؔ اُس کی عزت کرتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ یُوحنّا ؔراستباز اور مُقدس آدمی ہے اِس لیے اُسے بچا لیتا۔ وہ اُس کی باتوں سے پریشان تو ہو جاتا مگر شوق سے سُنتاتھا۔
21 ایک دن ہیرودیاسؔ کو موقع مل گیا۔ ہیرودیسؔ کی سالگرہ تھی اور اُس نے حکومت کے اعلیٰ احکام، فوجی افسروں، اور گلیل میں رہنے والے رئیسوں کو دعوت پر بُلایا۔ 22 تب اُس کی بیٹی، جس کا نام بھی ہیرودیاسؔ تھا اُس نے ناچ کر ہیرودیسؔ اور سب مہمانوں کو بُہت خُوش کیا۔ ہیرودیسؔ نے لڑکی سے کہا کہ مانگ! جو کچھ تُومانگے گی میں تُجھے دُوں گا۔ 23 بلکہ اُس نے لڑکی کو مانگنے پراپنی آدھی سلطنت تک دے دینے کی قسم کھائی۔ 24 لڑکی نے باہر جا کر اپنی ماں سے پُوچھا کہ کیا مانگے؟ اُس کی ماں نے اُس سے کہا کہ یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والے کا سرمانگ لے۔
25 وہ فوراً واپس بادشاہ کے پاس گئی اور کہا کہ یُوحنّا ؔبپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میںمُجھے لا دے۔ 26 بادشاہ یہ سُن کر بُہت غمگین ہوا مگر اُس نے سب کے سامنے قسم کھائی تھی اِس لیے وہ انکار نہیں کرسکتا تھا۔ 27 اُسی وقت اُس نے ایک جلاد کو جیل بھیجا کہ یُوحنّا ؔکاسر کاٹ لائے۔ 28 وہ یُوحنّا ؔکا سر کاٹ کراور تھال میں رکھ کر لے آیااور لڑکی کو دیا اور لڑکی نے اُسے اپنی ماں کو دیا۔ 29 یُوحنّا ؔکے شاگردوں نے جب سُنا کہ کیا ہوا ہے تو وہ آئے اوریُوحنّا ؔکی لاش لے جا کر اُسے دفن کیا۔
30 بارہ رسُول جنہیں خدمت کے لیے بھیجا گیا تھاواپس یسُوع ؔکے پاس آکر جو کچھ اُنہوں نے کیا اور سکھایا تھا بتایا۔ 31 تب یسُوع ؔنے شاگردوں سے کہا: ”آؤ کہیں الگ ویران جگہ جا کر کچھ آرام کریں“ ۔ کیونکہ لوگوں کا اِ تنا آنا جانا تھا کہ اُن کو کھانا کھانے کی بھی موقع نہ ملتا۔ 32 پس وہ کشتی پر بیٹھ کر کسی ویران جگہ چلے گئے۔
33 مگر لوگوں نے اُنہیں جاتا دیکھ کر پہچان لیااور سارے شہروں سے جمع ہو کر اُ س جگہ جہاں وہ جا رہے تھے بھاگ کر اُن سے پہلے پہنچ گئے۔ 34 جیسے ہی یسُوع ؔکشتی سے اُترا اُس نے ایک بڑے ہجوم کو دیکھا۔ اُسے اُن پر بڑا ترس آیا کیونکہ وہ اِیسی بھیڑوں کی مانند تھے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو۔ اور وہ اُن کو تعلیم دینے لگا۔
35 شام کے وقت شاگرد یسُوعؔ کے پاس آئے اور اُس سے کہا بُہت دیر ہو گئی ہے۔ رات ہونے کوہے اور یہ جگہ سُنسان ہے۔ 36 اِنہیں رُخصت کر تاکہ قریبی بستیوں اور گاؤں میں جا کر اپنے لیے کچھ کھانے کو خرید خریدلیں۔ 37 یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم ہی اُنہیں کھانے کو دو۔“ شاگردوں نے جواب میں کہا کہ اِن کے لیے کھانا خریدنے کے لیے ہمیں دوسودینار کی ضرورت ہے جو ہماری کئی مہینوں کی مزدُوری کے برابر ہے۔ 38 یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”جاؤ دیکھو تُمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں۔“ اُنہوں نے معلوم کر کے بتایا کہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں۔
39 تب اُس نے اُنہیں حکم دیا کہ سب کو گھاس پر ٹولیوں میں تقسیم کر کے بٹھا دو۔ 40 وہ سو سو اور پچاس پچاس کی ٹولیوں میں بیٹھ گئے۔ 41 تب یسُوعؔ نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لے کر آسمان کی طرف دیکھا اور برکت چاہی اور روٹی توڑ کر شاگردوں کودی کہ لوگوں کے سامنے رکھیںاور اِسی طرح مچھلی بھی توڑ کر بانٹی۔ 42 اور سب نے خُوب پیٹ بھر کر کھایا۔ 43 بعد میں شاگردوں نے روٹی اور مچھلی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کے بارہ ٹوکرے اُٹھائے۔ 44 اور کھانے والوں میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ پانچ ہزار مرد تھے۔
یسُوعؔ کا پانی پر چلنا:
45 اِس کے فوراً بعد یسُوعؔ نے شاگردوں کو کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے پار بیت صیدا ؔجانے کو کہا اور خُود لوگوں کو وہاں سے رُخصت کرنے لگا۔ 46 سب کو رُخصت کر کے وہ دُعا کرنے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ 47 کافی رات گئے شاگرد کشتی میں جھیل کے بیچ تھے اور یسُوعؔ اکیلا پہاڑ پرتھا۔ 48 رات کے چوتھے پہر کے قریب تقریباً صُبح تین بجے یسُوعؔ نے دیکھا کہ شاگرد مُشکل میں ہیں۔ کشتی چلاتے ہوئے ہَوااُن کے مخالف تھی۔ یسُوعؔ پانی پر چلتا ہوا اُن کی طرف بڑھااور یوں لگا جیسے وہ اُن کے پاس سے گُزر جائے گا۔ 49 جب شاگردوں نے اُسے پانی پر چلتا دیکھا تو سمجھے کہ بُھوت ہے اور خوف سے چِلّانے لگے۔ 50 شاگرد اِس سارے منظر سے بُہت حُوف زدہ تھے۔ یسُوعؔ نے اُن سے کہا: ”ڈرو مت یہ میں ہوں حوصلہ رکھو۔“
51 پھر وہ کشتی پر سوار ہو گیا اور ہوا تھم گئی شاگرد یہ دیکھ کر بُہت حیران ہوئے۔ 52 کیونکہ وہ ابھی تک روٹیوںوالے مُعجزے کو نہیں سمجھ پائے تھے اوراُن کے دل بڑی اُلجھن میں پڑے ہوئے تھے۔
یسُوع ؔگنیسرت میں:
53 جھیل پا رکر کے وہ گنیسرتؔ کے علاقے میں پہنچے اور کشتی کو کنارے پر لگایا۔ 54 جیسے ہی وہ کشتی سے اُترے لوگوں نے اُنہیں پہچان لیا۔ 55 یہ دیکھتے ہی وہ سارے علاقے میں بھاگ بھاگ کربیماروں کو چارپائیوں میں ڈال کر جہاں کہیں اُنہوں نے سُناکہ یسُوعؔہے اُس کے پاس لائے۔ 56 وہ جہاں کہیں گاؤں، شہر یا بستی میں گیالوگ بیماروں کو بازاروںاور چوکوں پر لا کر رکھ دیتے اور اُس کی منِّت کرتے کہ اُس کے لباس کے دامن کو چھو لینے دے اور جتنوں نے اُسے چُھوا وہ شفا پا گئے۔