بِیج بونے والے کی تمثیل:
1 وہ پھر جھیل کے کنارے تعلیم دینے لگا۔ جلد ہی ایک بڑا ہجُوم اُس کے گرد جمع ہو گیا اِس لیے وہ کشتی پر سوار ہو گیا اور ہجُوم جھیل کے کنارے پر ہی رہا۔ 2 اور وہ تمثیلوں کے ساتھ اُن کو تعلیم دینے لگا جیسے: 3 ”سُنو! ایک کسان بیج بونے گیا۔ 4 ”کھیت میں بیج بکھیرتے وقت کچھ راہ کے کنارے گرا اَ ورپرندوں نے آ کر اُسے چُگ لیا۔ 5 ”کچھ پتھریلی زمین پر گرا اور مٹی گہری نہ ہونے کے سبب جلد اُگ آیا۔ 6 ”اورجب سُورج نکلا تو دُھوپ کی گرمی سے جل گیا کیوں کہ جڑ گہری نہ تھی۔ 7 ”اور کچھ خاردارجھاڑیوں میں گرا۔ جھاڑیوں کی وجہ سے وہ پھل پھول نہ سکا۔ 8 ”اور کچھ اچھی زمین پر گرا۔ وہ اُگا اوربڑھا کوئی تیس گُنا کوئی ساٹھ گُنا اور کوئی سو گُنا پھل لایا۔“
9 پھر اُس نے کہا: ”جس کے کان ہوں سُن لے اور سمجھ لے۔“
10 جب یسُوعؔ اکیلا رہ گیا تو بارہ شاگردکچھ اور لوگوں کے ساتھ یسُوعؔ سے اِس تمثیل کا مطلب پوُچھنے لگے۔ 11 اُس نے اُ ن سے کہا: ”تُمہیں تو خُدا کی بادشاہی کا بھید دیا گیا ہے مگراَوروں کے لیے میں تمثیل میں بات کرتا ہوں۔ 12 ”تاکہ وہ کلام پُورا ہو کہ وہ دیکھیں گے جو کچھ میں کرتا ہوں مگر نہ سمجھیں گے اور سُنیں گے جو کچھ میں کہتا ہو مگر نہ سمجھیںگے۔“ 13 پھر یسُوعؔ نے اُن سے کہا: ”اگر تُم یہ تمثیل نہیں سمجھ سکے تو باقی سب تمثیلیں کیونکر سمجھو گے؟ 14 ”کسان کی طرح کلام کا بیج دُوسری زندگیوں میں بویاجاتا ہے۔ 15 ”جو بیج راہ کے کنارے گرا، اُن لوگوں کے لیے ہے جو کلام تو سُنتے ہیں مگرشیطان کو موقع دیتے ہیں کہ اُسے اُڑالے جائے۔ 16 ”جو بیج پتھریلی زمین پر گرا اُن لوگوں کے لیے ہے جو کلام کو خُوشی سے قبُول توکرتے ہیں۔ 17 ”مگر اُسے اپنے دل میں جڑ پکڑنے کا موقع نہیںدیتے، اِس لیے وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا اور جب بھی کوئی مصیبت یا آزمائش آتی ہے تو گر جاتے ہیں۔
18 ”جو بیج جھاڑیوں میں گرتا ہے اُن لوگوں کے لیے ہے جو کلام تو سُنتے ہیں۔ 19 ”مگر زندگی کی فکریں، دَولت کی کشش اور بُہت ساری چیزوں کی خواہش اُس کلام کو دبا دیتی ہیں اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے۔ 20 ”اور جو بیج اچھی زمین پر گرتا ہے اُن لوگوں کے لیے ہے جو کلام سُنتے اوراُسے قبوُل کر کے اپنی زندگیوں سے تیس گُنا، ساٹھ گنا اور سو گُنا پھل لاتے ہیں۔“
چراغ کی تمثیل:
21 پھر یسُوعؔ نے اُن سے پُوچھا: ”کیا کوئی چراغ جلا کرٹوکری کے یا پلنگ کے نیچے رکھتا ہے؟ ہر گز نہیں! بلکہ چراغ کو جلا کرچراغ دان پر رکھا جاتا ہے جہاں سے اِس کی روشنی ہر طرف پڑے۔ 22 ”تاکہ جو کچھ پوشیدہ ہے آخر کار سامنے لایاجائے اور کوئی بات پوشیدہ نہ رہے۔ 23 ”جس کسی کے کان ہوں وہ سُنے اور سمجھے۔“ 24 پھر یسُوع ؔنے کہا: ”جو سُنتاہے اُس پرغور بھی کرے۔ جس قدر تُم غور کرو گے اُسی قدر تُمہیں اِس کی سمجھ دی جائے گی بلکہ اُس سے بھی زیادہ۔ 25 ”جومیرے کلام کو سُنتا اور غور کرتااور سمجھتا ہے اُسے اور سمجھ دی جائے گی مگر جو غور نہیں کرتا اُس سے وہ تھوڑی سی سمجھ بھی جو وہ رکھتا ہے لے لی جائے گی۔“
خُدا کی با دشاہی اور بیج کی تمثیل:
26 یسوُعؔ نے کہا: ”خُدا کی بادشاہی ایک بیج کی ما نند ہے جسے کسان زمین میں بوتا ہے۔ 27 ”دن اور رات سوتا ہو یا جاگتا اُسے پتا نہیں چلتا کہ بیج کیسے اُگا اور بڑھا۔ 28 ”زمین خود سے اناج پیدا کرتی ہے۔ پہلے پتے نکلتے ہیں پھر بالیاں اور پھر بالیاں دانوں سے بھر جاتی ہیں۔ 29 ”جیسے ہی فصل پک جاتی ہے تو کسان درانتی نکال لیتا ہے کیونکہ کٹا ئی کا وقت آ گیا۔“
رائی کے دانے کی تمثیل:
30 پھر یسُوعؔ نے کہا: ”میںخُدا کی بادشاہی کو کس کی مانند ٹھہراؤں اور اُسے کس مثال سے بیان کروں۔ 31 ”یہ رائی کے دانے کی مانند ہے جو سب بیجوںسے چھو ٹا ہے۔ 32 ”مگراُگ کر باغ کے سب پودوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ پرندے اُس میں بسیرا کرتے ہیں۔“
33 یسُوعؔ ایسی بُہت سی تمثیلوں کے ساتھ اُن کی سمجھ کے مطابق تعلیم دیتا رہا۔ 34 درحقیقت بغیر تمثیل کے وہ اُن سے بات نہ کرتا لیکن اکیلے میں شاگردوں کو اُن کا مطلب سمجھادیتا تھا۔
طوفان کو تھمانا:
35 شام کے وقت یسُوع ؔ نے شاگردوں سے کہا: ”چلو جھیل کے اُس پار چلیں۔“ 36 چنانچہ وہ ہجوم کو رُخصت کر کے یسُوع ؔ کے ساتھ کشتی پر سوار ہوکر روانہ ہُوئے۔ 37 اچانک جھیل میں طوفان اُٹھا۔ لہریںاتنی بلند تھیں کہ کشتی پانی سے بھر نے لگی۔ 38 یسُوعؔ کشتی کے پچھلے حصّے میں ایک سرہانے پر سر رکھ کر سو رہاتھا۔ شاگردوں نے چِلّاتے ہوئے یسُوعؔ کو جگاکر کہا: ”اُستا د! ہم ڈوبنے لگے ہیں اور تُجھے کچھ فکر نہیں۔“
39 یسُوعؔ نے جاگ کر ہوا کو ڈانٹا اور لہروں کو ڈانٹا اور کہا: ”خاموش رہ! تھم جا۔“ طوفان اُسی دم تھم گیا اور ہر طرف سکون ہو گیا۔ 40 اُس نے شاگردوں سے پُوچھا: ”تُم کیوں خوف زدہ ہو۔ کیا اَب تک ایمان نہیں لائے؟“
41 لیکن وہ بُہت ڈر گئے اور ایک دُوسرے سے کہنے لگے کہ یہ کون ہے جس کا حکم ہَوا اور پانی بھی مانتے ہیں۔