کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

مرقس 2

 2

 مفلوج کی شفا:

  1 کچھ دنوں کے بعد یسُوعؔ کفرنحوم ؔواپس آیا۔ شہر میںاُس کے آنے کی خبر پھیل گئی۔  2 جلد ہی وہ گھر جس میں یسُوعؔٹھہرا ہوا تھا، لوگوں سے بھر گیا یہاں تک کہ دروازے تک کوئی جگہ نہ رہی اور وہ اُن کو کلام سُنا رہا تھا۔  3 چار آدمی ایک مفلوج کو چارپائی پر ڈال کر لائے۔  4 جب ہجوم کی وجہ سے وہ اندر داخل نہ ہو سکے تو اُنہوں نے چھت کو اُوپر سے کھول کر چارپائی کو جس پر مفلوج تھا لٹکا کر یسُوعؔ کے سامنے رکھ دیا۔  5 اُن کے ایمان کو دیکھ کر اُس نے مفلوج سے کہا:  ”بیٹا اُٹھ تیرے گناہ معاف ہوئے۔“   6 وہاں موجود شریعت کے عالم اپنے دلوں میں سوچنے لگے کہ۔  7 یہ آدمی ایسا کیوں کہہ رہا ہے؟ یہ خُدا کے خلاف کُفر ہے۔ سوائے خُدا کے اور کون گناہ معاف کر سکتا ہے؟  8 یسُوع ؔنے فوراً یہ جان کر کہ اپنے دلوں میں کیا سوچ رہے ہیںاُن سے کہا  ”تُم کیوں اپنے دلوں میں یہ باتیں سوچتے ہو؟   9  ”کیاکسی مفلوج سے یہ کہنا آسان ہے کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا اور چل پھر؟   10  ”مگر تُمہیں بتانے کے لیے کہ ابنِ آدم کو زمین پرگناہ معاف کرنے کا اختیار ہے“ اُس نے مُڑ کرمفلوج سے کہا۔  11  ”میں تُجھ سے کہتا ہوں اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا اور اپنے گھر جا۔“   12 اور وہ آدمی نے فوراً اُٹھا اوراپنی چارپائی اُٹھا کر سب کے سامنے باہر چلاگیا۔ جس پر سب حیران ہو گئے اور خُداوند کی تمجید کرتے ہوے کہنے لگے ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔

 متّی ؔ کا بُلایا جانا:

  13 یسُوعؔ پھر جھیل کے کنارے گیا اور اُس بھیڑ کو جو اُس کے پاس آئی تعلیم دینے لگا۔  14 راستے میں چلتے ہوئے اُس نے حلفیؔ کے بیٹے لاویؔ (اُس کا نام متّی ؔبھی تھا) کوجوٹیکس وصُول کرنے والی چوکی پربیٹھا تھا، دیکھ کر اُس سے کہا:  ”میرے پیچھے آ۔“ وہ اُٹھ کریسُوع ؔکے پیچھے چل پڑا۔  15 بعد میں یسُوعؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ اُس کے گھر کھانا کھانے گیا اُن کے ساتھ اور بُہت سے ٹیکس لینے والے اور گنہگار کھانا کھانے بیٹھے تھے۔  16 جب فریسیوں نے جو شریعت کے عالم ہیںیہ دیکھا کہ یسُوعؔ ٹیکس وصُول کرنے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے تو یسُوع ؔکے شاگردوں سے پُوچھاکہ وہ ٹیکس وصول کرنے والوںاور گنہگاروں کے ساتھ کھانا کیوں کھاتا ہے؟  17 یسُوعؔ نے یہ سُن کر اُن سے کہا کہ،  ”صحت مند لوگوں کو ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بیماروں کو۔ میں اُن کو بُلانے نہیں آیا جو اپنے آپ کو راستباز سمجھتے ہیں بلکہ گنہگاروں کو۔“

 روزہ کے بارے میں سوال:

  18 یُوحنّا ؔکے شاگرد اور فریسی روزہ رکھتے تھے۔ کچھ لوگوں نے آکر یسُوع ؔسے پُوچھا کہ یُوحنّاؔ کے شاگرد اور فریسیوںکے شاگرد تو روزہ رکھتے ہیں مگر تیرے شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے؟  19 یسُوع ؔنے جواب میں کہا:  ”شادی میں شامل مہمان کس طرح روزہ رکھ سکتے ہیں جبکہ وہ دُلہے کے ساتھ خُوشی منا رہے ہوں؟ جب تک دُلہا اُن کے ساتھ ہے وہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔   20  ”لیکن ایک دن آئے گا جب دُلہااُن سے جُدا کیا جائے گاتب وہ روزہ رکھیں گے۔   21  ”پُرانے لباس پر نئے کپڑے کا ٹکڑا نہیں لگایا جاتا۔ نئے ٹکڑے کے سکڑنے پر پرانا اوربھی پھٹ جائے گا۔   22  ”اِسی طرح نئی مے کو کوئی بھی پرانی مشکوں میں نہیں بھرتا ورنہ مشکیں پھٹ جائیں گی اور مَے اور مشکیں دونوں بربادہو جائیں گی بلکہ نئی مَے کو نئی مشکوں میں بھرتے ہیں۔‘ ‘

  23 ایک سبت کے دِن جب یسُوع ؔکھیت میںسے گُزر رہا تھاتو اُس کے شاگردکھانے کے لیے بالیاں توڑنے لگے۔  24 فریسیوں نے یسُوعؔ سے کہا، ’دیکھ تیرے شاگرد سبت کے دن بالیاں توڑ کر شریعت کی مخالفت کرتے ہیں۔‘  25 اُس نے جواب میں کہا:  ”کیا تُم نے کلام میںکبھی نہیں پڑھا جب داؤدؔ اور اُس کے ساتھیوں کو بھُوک لگی تو اُس نے کیا کیا؟   26  ”سردار کاہن ابیاترؔ کے دِنوں میں وہ خُدا کے گھر گیا اور نذر کی روٹیاں کھائیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی دیں جنہیں صرف کاہن ہی کھا سکتے تھے۔“   27 پھر یسُوعؔ نے کہا:  ”سبت آدمیوں کی مدد کے لیے بنا ہے نہ کہ آدمیوں پر حکم چلانے کے لیے۔   28  ”لہٰذ ا اِبن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔“