یسُوعؔ کے قتل کا منصوبہ:
1 دو دن کے بعد عیدِفسح اور بے خمیری روٹی کی عیدتھی۔ سردار کاہن ا ور شریعت کے عالم کوئی ترکیب سوچ رہے تھے کہ کس طرح یسُوعؔ کوپکڑ کر قتل کیا جائے کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کیونکہ عید کے دن تھے۔ 2 اور کہتے تھے کہ عید کے دنوں میں ہم یسُوعؔ کو پکڑ نہیں سکتے ایسانہ ہو کہ ہنگامہ ہو جائے۔
ایک عورت کایسُوعؔ پر عطر ڈالنا:
3 یسُوعؔ بیت عنیاہ ؔ میں شعمونؔ کوڑھی کے گھر میں کھانا کھا رہا تھا۔ اِس دَوران ایک عورت نے اندر آ کر سنگِ مرمر کا عطر دان جس میں جٹا ماسی کا بیش قیمت عطر تھا کھول کر اُس کے سر پر ڈالا۔ 4 مگر کچھ شاگردوں نے اِس بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ عطر کیوں ضائع کیا گیا؟ 5 کیونکہ یہ عطر تین سودینار کا بِک جاتااور وہ پیسے غریبوں کو دیے جا سکتے تھے اور اُس عورت پر غصّہ کرنے لگے۔
6 لیکن یسُوعؔ نے کہا، ”اُسے چھوڑ دو۔ کیوں اُسے تنگ کرتے ہو؟ اُس نے مُجھ سے بھلائی کی ہے۔ 7 ”غریب تو ہمیشہ تُمہارے ساتھ رہیں گے اور جب چاہوتُم اُن کی مدد کر سکتے ہو۔ مگر میں کچھ دیر کے لیے تُمہارے ساتھ ہوں۔ 8 ”یہ جو کچھ میرے ساتھ کر سکتی تھی اُس نے کیا۔ اُس نے میرے مرنے سے پہلے ہی میرے کفن دفن کی تیاری یہ عطر ڈال کر کی ہے۔ 9 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ دُنیا میں جہاں کہیں بھی خُوش خبری کی منادی کی جائے گی۔ اِس کام کا بھی جو اِس عورت نے میرے ساتھ کیا ہے ذکر ہو گا۔“
یہوداہؔ اسکریوتی کا یسُوعؔ کو پکڑوانے کا منصوبہ:
10 تب یہوداہؔ اسکریوتی نے جو بارہ شاگردو میں سے ایک تھا۔ سردار کاہنوں کے پاس جاکر یسُوعؔ کو اُن کے حوالے کرنے کی بات کی۔ 11 وہ اِس بات سے بہت خُوش ہوئے اور اُسے پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ پس وہ موقع کی تلاش میں رہا کہ کب یسُوعؔ کو اُن کے حوالے کرے۔
فسح کا کھانا:
12 عید فطیر کے پہلے دن جب فسح کے برّے کو قُربان کیا جاتا ہے۔ یسُوعؔ کے شاگرد اُس کے پاس آئے اور پُوچھا کہ تو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے لیے عیدِفسح کا کھانا تیار کریں۔ 13 اِس پر یسُوعؔ نے شاگردوں میں سے دو کویہ کہہ کر بھیجا، ”شہر میں جاؤ تُمہیں ایک شخص پانی کا گھڑا اُٹھائے ملے گا۔ اُس کے پیچھے چلے جانا۔ 14 ”وہ جس گھر میں جائے اُس کے مالک سے پُوچھو۔ اُستاد کہتا ہے وہ جگہ کہاں ہے جہاں میں اپنے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھاؤں۔ 15 ”وہ تُمہیں ایک بڑا کمرہ اُوپر والی منزل میںتیا ر کیا ہوا دکھائے گا، وہیں ہمارے لیے کھاناتیار کرو۔“ 16 لہٰذا شاگرد گئے اور جیسا یسُوعؔ نے کہا تھا ویسا ہی پایا اور وہاں اُنہوں نے فسح کے کھانے کو تیار کیا۔
17 شام کو یسُوعؔ وہاں اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ گیا۔ 18 جب وہ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے تو یسُوعؔ نے کہا ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں تُم میں سے ایک جو میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے مُجھے پکڑوائے گا۔“ 19 یہ سُن کر سب شاگرد بُہت رنجیدہ ہوئے اور ہر ایک اُس سے پُوچھنے لگا، ”کیا میں ہوں؟“ 20 یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”وہ بارہ میں سے ایک ہے جو میرے ساتھ تھالی میں کھاتا ہے۔ 21 ”اِبنِ آدم تو جیسا کلام میں لکھا ہے مارا جائے گا مگر اُس پر افسوس جس کے سبب سے وہ پکڑوایا جائے۔ اُس شخص کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ پیدا ہی نہ ہوتا۔“
عشائے ربانی:
22 جب وہ کھانا کھا رہے تھے تو یسُوع ؔنے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا: ”اِسے لو اور کھاؤ یہ میرا بدن ہے۔“ 23 پھر پیالہ لے کر خُدا کا شُکر کیا اور اُنہیں دیا اور اُنہوں نے اُس پیالے میں سے پیا۔ 24 اوراُس نے کہا، ”یہ مے وہ خُون ہے جوبہتوں کے لیے بہا یا جائے گا۔“ [تاکہ خُدا اور ا نسان میں صلّح کا نیا عہد قائم کرے] 25 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں میں اُس دن تک پھر مے نہیں پیوں گا جب تک خُدا کی بادشاہی میں نئی مے نہ پیوں۔“ 26 اِس کے بعد وہ حمد کرتے ہوئے زیتون کے پہاڑ پر گئے۔
پطرسؔ کے انکار کی پیشن گوئی:
27 تب یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم سب آج رات مُجھے چھوڑ دو گے کیونکہ کلام میں یوں لکھا ہے:
’میں چرواہے کو ماروں گا اور بھیڑیں بھاگ جائیں گی۔‘ 28 ”مگر میں اپنے جی اُٹھنے کے بعد تُم سے پہلے گلیلؔ جا ؤں گا اور تُم سے ملوں گا۔“ 29 پطرس ؔ نے اُس سے کہا، ”چاہے سب تُجھے چھوڑ جائیں مگر میں تُجھے ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔“ 30 یسُوع ؔنے جواب دیا، ”میں تُجھ سے سچ کہتا ہوں کہ تُو آج ہی رات مُرغ کے دوبار بانگ دینے سے پہلے تین بار میرا انکار کرے گا۔“ 31 مگر پطرسؔ نے زور دے کر دوبارہ اِعلان کیا کہ نہیں! میں ہر گز تیرا انکار نہ کروں گابلکہ تیرے ساتھ مرنے کو بھی تیار ہوں۔ باقی سب شاگردوں نے بھی اُسے نہ چھوڑنے کاوعدہ کیا۔
یسُوع ؔ گتسمنی باغ میں:
32 پھر یسُوعؔ اور شاگرد اُس جگہ گئے جس کا نام گتسمنیؔ تھا۔ یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم یہاں بیٹھو میں دُعا کرنے جاتا ہوں۔“
33 لیکن اپنے ساتھ پطرسؔ، یعقوبؔ اوریُوحنّاؔ کو لیا۔ وہ بُہت گھبرانے اور پریشان ہونے لگا۔ 34 اوراُن سے کہا، ”میری جان غم کے مارے نڈھال ہے ایسی کہ مرنے کو ہوں۔ تُم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔“ 35 اور تھوڑا آگے جا کے زمین پر گر کر دُعاکرنے لگاکہ اگر ہو سکے تو اُسے اِس دُکھ کی گھڑی سے گزرنا نہ پڑے۔ 36 اور پُکار کر کہا، ”ابّا! اے باپ! تیرے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں اگر ہو سکے تو اِس پیالہ کو میرے سامنے سے ہٹا لے۔ تو بھی میری نہیں بلکہ تیری مرضی پُوری ہو۔“ 37 تب وہ واپس آیا توشاگردسو رہےتھے۔ اُس نے پطرسؔ سے کہا: ”شمعونؔ تُوسوتا ہے؟ کیا تُو میرے ساتھ ایک گھنٹہ بھی نہ گُزار سکا؟“
38 ”جاگتے رہو۔ دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔ رُوح تو تیار ہے مگر بدن کمزور ہے۔“ 39 یسُوعؔ دوبارہ جا کر وہی دُعا کرنے لگا۔ 40 جب وہ واپس آیا تو پھر شاگردوںکو سوتا ہوا پایا۔ اُن کی آنکھیں نیند سے بھری ہوئی تھیںاِس لیے وہ اُسے کچھ جواب نہ دے سکے۔ 41 پھر تیسری بار اُن سے آکر کہا: ”تُم اب تک سوتے اور آرام کر رہے ہو مگر وقت آگیا ہے کہ ا بنِ آدم گنہگاروں کے حوالے کیا جائے۔ 42 ”اُٹھو! یہاں سے چلیں کیونکہ وہ شخص آتا ہے جو مُجھے اُن کے حوالے کرے گا۔“
یسُوع ؔکا پکڑوایا جانا:
43 یسُوعؔ ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ یہُوداہؔ جو اُن بارہ میں سے ایک تھا وہاں آیا۔ اُس کے ساتھ لوگوں کی ایک بھیڑ لاٹھیاں اور تلواریں لیے سردار کاہنوں، شریعت کے عالموں اور قوم کے بزرگوں کی طرف سے آئی۔ 44 اُس نے اُنہیں پہلے سے بتا رکھا تھا کہ میں جسے چُوموں وہی یسُوع ؔ ہے تُم اُسے گرفتار کرکے لیے جانا۔ 45 یہُوداؔہ یسُوعؔ کے پاس گیا اور اُس سے کہا۔ ”ربّی“ اور اُسے چُوما۔ 46 اُنہوں نے یسُوعؔ کو پکڑ کر گرفتار کیا۔ 47 پاس کھڑے ایک شاگرد نے اپنی تلوار کھینچ کر سردار کاہن کے نوکر کا کان کاٹ دیا۔
48 تب یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم کیوں مُجھے پکڑنے کے لیے لاٹھیاں اورتلواریں لے کر آئے ہو؟ کیا میں کوئی مُجرم ہوں۔ 49 میں تو ہر روز ہیکل میں تمہارے ساتھ رہ کر تعلیم دیتا رہاتُم نے مُجھے اُس وقت کیوں نہیں پکڑا۔ یہ اِس لیے ہے تاکہ کلام میں جو لکھاہے وہ پُورا ہو۔“
50 اُس وقت یسُوعؔ کے سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔
51 یسُوع ؔکے شاگردوں میں سے ایک جس نے صرف ایک باریک چادر اُوڑھ رکھی تھی کچھ فاصلے پر یسُوعؔ کا پیچھا کرنے لگا۔ لوگوں نے اُسے پکڑنے کی کوشش کی۔ 52 تو وہ اپنی چادر چھوڑ کرننگا بھاگ گیا۔
یسُوعؔ عدالت عالیہ کے سامنے:
53 وہ یسُوعؔ کو لے کر سردار کاہن کے گھر گئے جہاں سب سردار کاہن، شریعت کے اُستاداور بزرگ جمع تھے۔ 54 اتنے میں پطرس ؔ جو ایک فاصلے سے اُس کا پیچھا کر رہاتھا، سردار کاہن کے صحن کے اندر تک چلاگیااور اُس کے ملازموں کے ساتھ بیٹھ کر آگ تاپنے لگا۔ 55 گھرکے اندر سب سردار کاہن اور یہودی کونسل مل کر یسُوعؔ کے خلاف اُسے قتل کرنے کا ثبوت ڈھونڈنے لگے مگر کوئی ثبوت نہیں ملا۔ 56 بُہت سی گواہیاں اُس کے خلاف دی گئیں مگر سب جھوٹی تھیں کیونکہ وہ ایک دُوسرے سے ملتی نہیں تھیں۔ 57 پھر اُن میں سے کچھ نے اُٹھ کر یہ گواہی دی۔ 58 کہ ہم نے اِسے یہ کہتے سُنا ہے کہ میں اِس ہیکل کو جو انسانوں کے ہاتھ سے بنی ہے، گرا دُوںگا اور تین دن کے بعد دوبارہ ہیکل بناؤں گا جو انسانوں کے ہاتھ کی نہیں ہو گی۔ 59 مگر اِس پر بھی سب کی گواہی ایک نہیں ہو سکی۔
60 تب سردار کاہن نے سب کے بیچ میںکھڑے ہو کریسُوعؔ سے کہا کہ تُو کیوں جواب نہیں دیتا، یہ سب تُجھ پرکیا الزام لگا رہے ہیں؟
61 مگر یسُوعؔ خاموش رہااور کچھ جواب نہ دیا۔ سردار کاہن نے پھر اُس سے پُوچھا، ”کیا تُو مسیِح ہے؟ مُقدس خُداکا بیٹا؟“
62 یسُوعؔ نے جواب میں کہا، ”ہا ں میں ہوں اور تُم ابنِ آدم کو قادرِمطلق کے د ہنی طرف بیٹھااور آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھو گے۔“
63 یہ سُن کر سردار کاہن نے غصّے سے اپنے کپڑے پھاڑے اور کہا اَب ہمیں گواہوں کی کیا ضرورت ہے؟ 64 تُم سب نے خُود اِس کُفر کو سُنا ہے۔ تُمہارا کیا فیصلہ ہے؟ ۔ سب نے بلند آواز میں کہا یہ قتل کے لائق ہے۔ 65 بعض نے اُس پر تھُوکا اور اُس کی آنکھوں پر کپڑا باندھ کر مُکے مارے اور کہا کہ نبوت سے بتا کہ تُجھے کس نے مارا۔ محا فظوں نے تھپڑ مارتے ہوئے اُسے اپنے قبضے میں کیا۔
پطرس ؔ کا انکار:
66 اِس دَوران پطرسؔ صحن میں تھا تو سردار کاہن کے ایک نوکر انی وہاں آئی۔ 67 اُس نے پطرسؔ کو غور سے دیکھاجو آگ کے پاس بیٹھا تھا۔ اور اُس سے کہا، تُوبھی اُس ناصری یسُوعؔ کے ساتھ تھا۔ 68 پطرسؔ نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا، ”مُجھے نہیں پتا تُوکیا کہہ رہی ہے۔“ اور یہ کہہ کر وہ صحن کے دروازے کی طرف گیا اور مُرغ نے بانگ دی۔
69 پھر جب اُس نوکرانی نے اُسے دروازے کے پاس کھڑے دیکھا تو پاس کھڑے لوگوں سے کہا کہ یہ بھی اُن کا ساتھی ہے۔ 70 پطرسؔ نے پھر اُس کا انکار کیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس کے ساتھ کھڑے لوگوں نے بھی اُس سے کہا، ’تُو یقینا اُن میں سے ایک ہے کیونکہ تُو گلیلی ؔہے۔ 71 پطرسؔ نے قسم کھاتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ مُجھ پر لعنت اگر میں جھُوٹ بولوں میں اُس شخص کو نہیں جانتاجس کی تُم بات کر رہے ہو۔
72 اُس وقت مُرغ نے دُوسری بار بانگ دی۔ پطرسؔ کو یسُوعؔ کی یہ بات یاد آئی کہ، ”تُو مُرغ کے دو بار بانگ دینے سے پہلے میرا تین بار انکارکرے گا۔“ یہ یاد آتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔