کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

مرقس 12

 12

 باغ کے ٹھیکیداروں کی تمثیل:

  1 پھر یسُوعؔ نے تمثیلوں سے اُن کو تعلیِم دینا شُروع کی،  ”ایک شخص نے تاکستان لگایا۔ اور اُس کے اِرد گرد دیواربنائی اور اُس میں انگوروںکا رَس نکالنے کے لیے ایک حوض کھودا اورایک بُرج بنایا۔ پھر باغ بانوں کو ٹھیکے پر دے کر خود پردیس چلاگیا۔   2  ”جب انگور کاٹنے کا وقت آیاتو اُس نے اپنے ایک نوکر کو اپنا حصّہ لینے کے لیے باغ کے ٹھیکیداروں کے پاس بھیجا۔   3  ”باغبانوں نے اُس کے نو کر کو پکڑ کر پیٹا اور خالی ہاتھ واپس لوٹا دیا۔   4  ”اُس نے اپنے ایک اور نوکر کو بھیجا مگر اُنہیں نے اُس کا سر پھاڑ دیا اور بے عزت کیا۔   5  ”پھر اُس نے اپنے ایک اور نوکر کو بھیجا۔ اُنہوں نے اُسے بھی قتل کیا۔ اِس کے بعد اور نوکروں کو بھی بھیجا اُنہوں نے بعض کوپیٹا اور بعض کو ہلاک کیا۔   6  ”اُس شخص کے پاس اَب ایک ہی بچاتھا جسے وہ بھیجتا۔ وہ اُس کا اپنا بیٹا تھاجسے وہ بُہت پیار کرتا تھا۔ آخر میں مالک نے اُسے بھیجا یہ سوچ کر کہ باغبان اُس کے بیٹے کا تو لحاظ کریںگے۔   7  ”اُسے آتا دیکھ کرباغبانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہی تاکستان کا وارث ہے۔ آؤ اِسے قتل کر دیں پھر ہم اس تاکستان کے مالک بن جائیں گے۔   8  ”پس اُنہوں نے اُس کو پکڑ کر قتل کیا اور اُسے تاکستان سے باہر پھینک دیا۔

  9  ”تُمہارے خیال میں اب تاکستان کا مالک کیاکرے گا؟ وہ جاکر اُن کسانوںکو قتل کرے گا اور تاکستان کسی اور کے حوالے کر دے گا۔   10  ”کیا تُم نے صحیفوں میں یہ نہیں پڑھا: ’جو پتھر معماروں نے رَدّکردیا وہی کونے کے سرے کا پتھر بنا۔   11  ”اور یہ خُداند کی طرف سے ہوا اور ہمارے لیے حیران کُن ہے۔“

  12 یہ تمثیل سُن کریہودی سردارسمجھ گئے کہ یسُوعؔ اُن کی بات کر رہا ہے۔ پس وہ اُسے چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔

 ٹیکس کے بارے میں سوال:

  13 پھر اُنہوں نے فریسیوںاور ہیرودیس ؔکے کچھ اورساتھیوں کو یسُوعؔ کے پاس بھیجا تاکہ اُسے باتوں میں پھنسانے کی کوشش کریں۔  14 وہ یسُوعؔ کے پاس گئے اور کہا اے اُستاد! ہم جانتے ہیں کہ تُوسچا اور ایماندار ہے اور کسی کی طرفداری اور بے جا حمایت نہیں کرتا۔ اور بڑی سچائی سے خُداکی تعلیم دیتا ہے۔ اَب تُوہمیںیہ بتا کہ

 قیصر کوٹیکس دینا جائز ہے کہ نہیں؟  15 ہمیں دینا چاہیے یا نہیں؟ یسُوعؔ نے اُن کی مکاری کو سمجھ کر کہا،  ”تُم مُجھے کیوں آزماتے ہو؟ مُجھے ایک رُومی سِکّہ دکھاؤ۔“   16 اُنہوں نے ایک سِکّہ اُسے دیا۔ یسُوعؔ نے اُسے دیکھ کر کہا،  ”اِس پر کس کی تصویر اور نام لکھا ہوا ہے؟“ ۔ اُنہوں نے جواب دیاکہ قیصرؔ کا۔  17 یسُوعؔ نے کہا،  ”جو قیصرؔ ؔکا ہے قیصرؔ کو دو اورجو خُدا کاہے وہ خُدا کو دو۔“ وہ اُس کے اِس جواب کو سُن کر بُہت حیران ہوئے۔

 مُردوں کی قیامت کے بارے سوال:

  18 پھر کچھ صدوُقی جو مُردوں کے جی اُٹھنے کو نہیں مانتے تھے یسُوعؔ کے پاس آئے۔ اُنہوں نے بھی آزمانے کے لیے یہ سوال کیا۔  19 اے اُستاد! موسیٰؔ نے ہمیں حُکم دیا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اُس کی بیوی کے کوئی بچہ نہ ہو تو اُس کا بھائی اُس بیوہ سے بیاہ کرے تاکہ اپنے بھائی کی نسل کو جاری رکھ سکے۔  20 ”اَب سات بھائی تھے، پہلے نے شادی کی اور بے اَولادمرگیا۔  21 ”لہٰذا دُوسرے نے اُس کی بیوہ سے شادی کی وہ بھی بغیر اَولاد کے مر گیاپھر تیسرے نے اُس عورت سے شادی کی۔  22 ”اِس طرح ساتوں بھائیوں نے اُس سے شادی کی مگر کسی کے اَولاد پیدا نہ ہوئی آخر میں وہ عورت بھی مر گئی۔  23 ”بس جب مُردے زندہ ہوں گے تو یہ عورت کس کی بیوی ہو گی۔“

  24 یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ’ ’تُم کتنے گُمراہ ہو نہ تو کلام کو جانتے ہونہ ہی خُدا کی قدرت کو۔   25  ”کیونکہ اُس وقت شادی بیاہ نہیں ہوگابلکہ سب آسمان کے فرشتوں کی طرح ہو ں گے۔   26  ”رہی بات مُردوں کے جی اُٹھنے کی تو کیا تُم نے موسیٰؔ کی کتاب میں نہیں پڑا، خُدا جب جلتی ہوئی جھاڑی میں موسیٰ ؔسے ہم کلام ہوا تو کیا کہا؟ یہ کہ ’میں ابرہامؔ کا خُدا، اضحاق ؔکا خُدااور یعقوبؔ کا خُدا ہوںاُس وقت اُن کو مرے ایک عرصہ ہو گیاتھا۔   27  ”وہ زندوں کا خُدا ہے مُردوں کا تو نہیں۔ تُم سخت گُمراہ ہو۔“

 سب سے بڑا حُکم:

  28 شریعت کے ایک عالم نے سُن کرکہ یسُوعؔ نے اُنہیں اچھا جواب دیا ہے اُس سے پُوچھا کہ، ”سب حُکموں میں سے بڑا حُکم کون سا ہے؟“  29 یسُوعؔ نے جواب دیا،  ”سب سے بڑا حُکم یہ ہے، اے اسرائیل سُن! خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُدا ہے۔   30  ”پس تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔   31  ”اور دُوسرا حُکم جو اِس کے برابر ہے، یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔ اور کوئی دُوسرا حکم اِ ن سے بڑا نہیں۔“   32 شریعت کے عالم نے کہا، ”اُستاد! تُو نے سچ کہاکہ خُدا ایک ہے اوراُس کے سوا اور کوئی نہیں۔  33 ”اور یہ کہ اُسے اپنے سارے دل اور اپنی ساری عقل اور ساری طاقت سے محبت کرنااور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کرنا تمام سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے بڑھ کر ہے۔“  34 یہ دیکھ کر کہ اُس نے دانائی سے جواب دیا ہے، یسُوعؔ نے اُس سے کہا،  ”تُو خُدا کی باشاہی سے دُور نہیں۔“ اُس کے بعد کسی نے اُس سے سوال کرنے کی جُرأت نہ کی۔

 کیامسیح داؤد ؔکا بیٹا ہے یا خُداوندکا:

  35 یسُوعؔ ہیکل میں تعلیم دے رہا تھاتو اُس نے پُوچھا،  ”شریعت کے اُستاد کیوںمسیح کو داؤدؔ کا بیٹا کہتے ہیں؟“   36  داؤدؔ خُود رُوح القدس کی ہدایت سے کہتا ہے کہ:

  ”خُداوند نے میرے خُداوند سے کہا،
  ’میرے دائیں طرف بیٹھ
  جب تک میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاؤںکے نیچے نہ کر دُوں۔

  37  ”داؤدؔ جب خُود مسیِح کو خُداوند کہتا ہے تو پھر وہ کیسے اُس کا بیٹا ہو سکتا ہے؟“ اور لوگ خُوشی سے اُس کی باتیں سُنتے تھے۔

 شریعت کے عُلما پر تنقید:

  38 یسُوعؔ نے تعلیم دیتے ہوئے یہ بھی کہا،  ”شریعت کے عالموں سے خبردار رہو۔ کیونکہ وہ لمبے لمبے چوغے پہن کا بازاروں میںپھرنا پسند کرتے ہیں اور اِس بات سے خُوش ہوتے ہیں جب لوگ جُھک کر اُنہیں سلام کریں۔   39  ”یہ عبادتوں اور ضیافتوں میںسب سے آگے اور اہم جگہ پر بیٹھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔   40  ”یہ بے شرمی سے بیواؤں کے گھر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ دکھاوے کی لمبی لمبی دُعائیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سخت سزا ملے گی۔“

 بیوہ کا ہدیہ:

  41 پھر وہ ہیکل میں ہدیے کے ڈَبّے کے نزدیک بیٹھ گیا اور لوگوں کو اُس میں ہدیہ ڈالتے دیکھنے لگا۔ امیر ڈَبّے میں بڑی بڑی رقمیں ڈال رہے تھے۔  42 پھر ایک غریب بیوہ آئی اور اُس نے صرف دو چھوٹے سِکّے چندے میں ڈالے۔  43 یسُوعؔ نے شاگردوں کو بُلا کر کہا،  ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں اِس غریب بیوہ نے سب سے زیادہ ہدیہ دیا ہے۔   44  ”کیونکہ باقی سب نے اپنے مال کا کچھ حصّہ ڈالا مگر اِس بیوہ نے اپنی غریبی میں اپنا سب کچھ جواُس کے پاس گُزر بسرکرنے کو تھا دے دیا۔“