کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16

مرقس 11

 11

 یروشلیِم ؔ میں ایک بادشاہ کی مانند داخل ہونا:

  1 جب یسُوعؔ اور اُس کے شاگرد یروشلیِمؔ کے نزدیک بیت فگے ؔاور بیت عنیاہؔ جو زیتون کے پہاڑ پر ہیں پہنچے تو یسُوع ؔنے دو شاگردوں کو آگے بھیجا۔  2 اور اُن سے کہا،  ”سامنے والے گاؤں میں جاؤ اور جیسے ہی تم گاؤں میں داخل ہو گے تُمہیں ایک گدھی کا بچہ بندھا ہوا ملے گا۔ جس پر کسی نے سواری نہیں کی۔ اُسے کھول کر یہاں لے آؤ۔   3  ”اگر کوئی پُوچھے کہ کیا کرتے ہو تو کہنا کہ خُداوند کو اِس کی ضرورت ہے، وہ جلد اُسے یہاں بھیج دے گا۔“

  4 پس شاگردگئے تو باہر گلی میں ایک دروازے کے سامنے گدھی کے بچے کو بندھا دیکھا۔  5 لیکن وہاں کھڑے کچھ لوگوں نے پُوچھا تُم اِس گدھے کو کیوں کھول رہے ہو؟

  6 شاگردوں نے اُن کو ویسا ہی جواب دیا جیسا یسُوعؔ نے اُن سے کہا تھا۔ اور اُنہوں نے اُن کو جانے دیا۔  7 وہ گدھے کو یسُوع ؔکے پاس لائے اور اپنے کپڑے اُس پر ڈال کر یسُوعؔ کو اُس پر سوار کیا۔  8 اور لوگوں نے اپنے کپڑے راستے میں اُس کے سامنے بچھائے اورکچھ لوگوں نے کھجوروں کی ڈالیاں کاٹ کر اُس کے راستے میں ڈالیں۔  9 ہجوُم ایک جلُوس کی شکل میں اُس کے آگے اور پیچھے یہ نعرے لگا رہے تھے، ”ہوشعنا! مبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام سے آتاہے۔  10 مبارک ہے ہمارے بزرگ داؤدؔ کی بادشاہی جو آ رہی ہے۔ آسمانوں پر ہمارے خُدا کی تمجید ہو!“

  11 یوں یسُوعؔ یروشلیِم ؔ میں آیا اور ہیکل میں داخل ہو ااور سب کچھ بڑے غور سے دیکھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا کیونکہ شام بُہت ہو گئی تھی اور بیت عنیاہ ؔ میں واپس آئے۔

 اَنجیر کے درخت پر لعنت:

  12 اگلے دن جب بیت عنیاہ ؔسے نکلے تو اُسے بھُوک لگی۔  13 اُس نے اَنجیر کا ایک درخت دیکھا جو پتّوںسے بھرا ہوا تھا وہ اُس کے پاس گیا کہ شاید اُسے کھانے کو کوئی اَنجیر ملے مگر اُسے کچھ نہ ملا، کیونکہ ابھی اَنجیر کا موسم نہ تھا۔  14 وہ درخت سے مخاطب ہو ااور کہا،  ”تُجھ سے کوئی پھل نہ کھانے پائے۔“ اور شاگردسُن رہے تھے۔

  15 پھر وہ یروشلیِم میںآیااورہیکل کے ا حاطے میں داخل ہوکرخریدوفروخت کرنے والوںکوہیکل سے باہر نکالنے لگا۔ اور صرّافوںکے تختے اور کبوتر فروشوں کی چوکیاں اُلٹ دیں۔  16 او ر کسی کو کاروبار کے لیے ہیکل استعمال نہ کرنے دی۔  17 اور تعلیم دیتے اُن سے پُوچھا،  ”کیا کلام میں یہ نہیں لکھاکہ میرا گھر سب قوموں کے لیے دُعا کا گھرکہلائے گا؟ مگرتُم نے اُسے ڈاکوؤں کا اڈّا بنا دیا۔“   18 جب سردارکاہن او ر شریعت کے اُستادوں نے سُنا کہ یسُوعؔ نے کیا کیا ہے تو اُس کے قتل کا موقع ڈھونڈنے لگے کیونکہ وہ اُس سے ڈرتے تھے کہ اُس کی تعلیم سے لوگ بُہت حیران ہوتے اور بُہت متاثر تھے۔

  19 ہرشام یسُوعؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ شہر سے باہر جایا کرتا تھا۔

  20 اگلی صُبح جب وہ اُس انجیر کے درخت کے پاس سے گُزرے تو وہ جڑ تک سُوکھا ہوا تھا۔  21 پطرسؔ کو یاد آیا کہ اِس درخت پر یسُوع ؔ نے لعنت کی تھی اور بڑی حیرانگی سے کہا، ”اے ربّی! دیکھ اَنجیر کا یہ درخت سُوکھ گیا ہے۔“  22 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”خُدا پر ایمان رکھو۔   23  ”میں تم سے سچ کہتاہوں، اگر تُم اِس پہاڑ سے کہو کہ اُکھڑ کر سمندر میں جا گراور اپنے دل میں شک نہ کروبلکہ یقین رکھو کہ جو کُچھ تُم نے کہا ہے ہو جائے گاتو وہ تُمہارے لیے ہو جائے گا۔   24  ”میں تُم سے کہتا ہوں جو کچھ تُم دُعا میں مانگتے ہو اور ایمان رکھو کہ تُمہیں مل گیا ہے وہ تُمہیں مل جائے گا۔   25  ”لیکن جب کبھی تُمہیں دُعا کرتے وقت یاد آئے کہ تُمہیں اپنے بھائی سے کچھ شکایت ہے تو اُسے معاف کرو تاکہ تُمہارا آسمانی باپ بھی جوآسمان پر ہے تُمہارے قصُور مُعاف کرے۔   26  ”اگر تُم معاف نہیں کرو گے تو تُمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تُمہارے قصُور معاف نہیں کرے گا۔“

 یسُوع ؔ کے اختیار پرا عتراض:

  27 وہ پھر یروشلیِم ؔ میں آئے۔ اور جب یسُوعؔ ہیکل میں پھِر رہا تھا تو سردارکاہن شریعت کے اُستاد اور قوم کے بزُر گ اُس کے پاس آئے۔  28 اور اُس سے پُوچھا، ”تُو کس اِختیارسے یہ کام کرتاہے؟ اورکس نے تُجھے یہ اختیار بخشا ہے؟“  29 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”تُم بھی میرے ایک سوال کا جواب دو تب میںبھی تُمہیں جواب دو ںگا۔   30  ”مُجھے یہ بتاؤ کہ یُوحنّاؔکا بپتسمہ انسان کی طرف سے تھا یاخُدا کی طرف سے؟“   31 وہ آپس میں بات کرنے لگے کہ کیا جواب دیں۔ اگر ہم کہیں کہ آ سمان سے ہے تو وہ پُوچھے گا پھر تُم نے اُس کا یقین کیوں نہ کیا؟  32 اور کیا ہم یہ کہنے کی جُرأت کر سکتے ہیں کہ وہ تو محض انسان کی طرف سے تھا؟ مگر لوگوں سے ڈرتے تھے کیونکہ ہر کوئی اُسے نبی مانتا تھا۔  33 لہٰذا اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں جانتے! اِس پر یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”تو پھر میں بھی تُمہیں نہیں بتاؤں گا کہ یہ کام کرنے کا اِختیار مُجھے کس نے دیا ہے۔“