طلاق کے بارے میں تعلیم:
1 تب یسُوعؔ کفرنحومؔ سے دریائیِ یردنؔ کے پاریہوُدیہؔ کے علاقہ میں آیا۔ پھر ایک بڑی بھیڑ اُس کے پاس جمع ہو گئی اوروہ معمول کے مطابق اُن کو تعلیم دینے لگا۔
2 کچھ فریسی اُس کے پاس آئے اور اُسے آزمانے کے لیے یہ سوال کیا، کیا آدمی کا اپنی بیوی کو چھوڑ دینا جائز ہے؟ 3 یسُوعؔ نے جواب میں اُن سے پُوچھا، ”مُوسیٰؔ نے شریعت میں طلاق کے بارے میں کیا حُکم دیا ہے؟“ 4 اُنہوں نے جواب دیا کہ مُوسیٰ ؔنے توشریعت میں طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔ 5 یسُوعؔ نے کہا، ”اُس نے تو یہ حُکم تُمہاری سخت دِلی کی وجہ سے دیاتھا۔ 6 ”لیکن خُدا نے جب دُنیا کو بنایا تو اُس نے اُسی وقت سے انسان کو مرداور عورت بنایا۔ 7 ”اِس لیے مرد اپنے ماں کو چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ ملارہے گا۔ 8 ”اور وہ دونوں ایک بدن ہوں گے اِس لیے اب وہ دو نہیں ایک بدن ہیں۔ 9 ”پس جسے خُدا نے جوڑا ہے اُسے کوئی انسان جُدا نہ کرے۔“ 10 جب و ہ گھر آئے تو شاگردوں نے پھر یسُوعؔ سے اِس کے بارے میں پُوچھا۔ 11 یسُوعؔ نے اُنہیں بتایا، ”اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو چھوڑ کر کسی دُوسری عورت سے شادی کر لے وہ اپنی پہلی بیوی کے خلاف گُناہ کرتا ہے۔ 12 ”اِسی طرح اگر کوئی عورت اپنے خاوند کو چھوڑ کر کسی دُوسرے آدمی سے شادی کر لے تو وہ بھی زناکرتی ہے۔“
بچوں کوبرکت دینا:
13 پھر لوگ اپنے بچوں کو یسُوعؔ کے پاس لائے تاکہ وہ اُنہیں چھُو کر برکت دے مگر شاگردوں نے اُنہیں ڈانٹا کہ اُستاد کو تنگ نہ کریں۔ 14 جب یسُوعؔ نے دیکھا کہ شاگرداُنہیں پاس آنے سے روک رہے ہیں تو ناراض ہو کر کہا، ”چھوٹے بچوں کو میرے پاس آنے دو انہیں منع نہ کروکیونکہ خُدا کی بادشاہی اُن لوگوں کی ہے جو اِن بچوں کی مانند ہیں۔ 15 ”میں تُم سے سچ کہتاہوںجب تک کوئی خُدا کی بادشاہی کو اِن بچوں کی طرح قبول نہ کرے وہ اِس میںہر گز داخل نہیں ہوسکتا۔“
16 پھر اُس نے بچوں کو اپنی بانہوںمیںلے کر اُنہیں برکت دی۔
ایک مالدار آدمی:
17 جب یسُوعؔ یروشیِلمؔ جا رہاتھا تو راستے میں ایک شخص دوڑتاہوا اُس کے پاس آیا اورگھٹنے ٹیک کر اُس سے پُوچھنے لگا اے اُستاد! میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ 18 یسُوعؔ نے اُس سے پُوچھا، ”تُو مُجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ صرف خُدا نیک ہے۔ 19 ”تُو حُکموں کو تو جانتا ہے۔: ’خُون نہ کر، زنانہ کر، چوری نہ کر، جُھوٹی گواہی نہ دے، کسی کو دھوکا نہ دے، اپنے ماں باپ کی عزت کر۔“ ‘ 20 اُس نے جواب دیا، اے اُستاد! میں لڑکپن سے اِن باتوں پر عمل کرتاآیا ہوں۔ 21 یسُوعؔ نے اُس کی طرف دیکھا۔ اُسے اُس پر پیار آیااور اُس سے کہا، ”ابھی بھی تُجھ میں ایک بات کی کمی ہے۔ جا جو کچھ تیرے پاس ہے اُسے بیچ کر میرے پیچھے ہو لے۔“ 22 یہ سُن کر اُس کر چہرہ اُداس ہو گیا اور غمگین ہو کر چلا گیا کیونکہ وہ بڑادَولت مند تھا۔
23 پھر یسُوعؔ نے چاروں طرف دیکھا کر شاگردوں سے کہا، ”دولت مند کا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہو نا کتنا مُشکل ہے!“
24 شاگرد اِن باتوں سے بُہت حیران ہوئے۔ پھر یسُوعؔ نے کہا، ”بچو! خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونا کتنا مُشکل ہے! 25 ”حقیقت میںایک اُونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزر جانا دولت مند کا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے سے زیادہ آسان ہے۔“ 26 اِس پر شاگرد اور بھی حیران ہو کر کہنے لگے پھر کون اِس دُنیا میں نجات پا سکتا ہے۔ 27 یسُوعؔ نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا، ”یہ انسان سے تو نہیں ہو سکتا مگر خُدا سے ہو سکتا ہے۔ خُداسے سب کچھ ہو سکتا ہے۔“ 28 پطرس نے اسے کہنا شروع کیا، ”دیکھو، ہم سب کو چھوڑ کر آپ کے پیچھے چلے گئے ہیں۔“ 29 یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”میں یقین دلاتا ہوں اُن میں سے کوئی بھی نہیں جس نے میری خاِطر اور خُوشخبری کی خاطر اپنا گھریا بھائیوںیا بہنوںیا ماں باپ یا بچوں یا کھیتوں کو چھوڑا ہو۔ 30 ”اور اِس جہاں میں اُسے سو گُنا نہ ملے۔ ایسوں کو گھر، بھائی، بہنیں، مائیں، بچے اور کھیت بھی ملیں گے مگر مصیبتوں کے ساتھ اور آنے والے جہاں میں ہمیشہ کی زندگی۔ 31 ”لیکن بُہت سے جو بڑے اہم اور اوّل سمجھے جاتے ہیں آخر ہو جائیں گے اور جو زیادہ اہم نہیں سمجھے جاتے اور سب سے آخر سمجھے جاتے ہیں اوّل ہو جائیں گے۔“
32 جب وہ یروشلیِم ؔ کی طرف جا رہے تھے یسُوع ؔ اُن کے آگے آگے چل رہاتھا۔ سب شاگرد بہُت حیران جبکہ باقی لوگ جو پیچھے پیچھے جا رہے تھے خوف زدہ تھے۔ اُس نے پھر بارہ شاگردوں کوعلیٰحدہ لے جا کر ہونے والی باتیں بتانے لگا۔ 33 اُس نے کہا، ”دیکھو ہم یروشلیِم جا رہے ہیں جہاں ابنِ آدم سردار کاہنوں اور شریعت کے اُستادوں کے حوالے کیا جائے گااور وہ اُس کو قتل کرنے کا فیصلہ کر کے اُسے غیرقوم کے حوالے کریں گے۔ 34 ”وہ اُس کا مذاق اُڑائیں گے، اُس پر تھُوکیں گے، اُسے پیٹا جائے گا اُسے کوڑوں سے مارا جائے گا اور اُسے قتل کیا جائے گا۔ اور وہ تیسرے دن جی اُٹھے گا۔“
یعقوب اوریُوحنا کی درخواست:
35 تب زبدیؔ کے بیٹے یعقوبؔ اور یُوحنّا ؔیسُوعؔ کے پاس آ کر کہنے لگے۔ اے اُستاد! جو کچھ ہم تُجھ سے درخواست کریں تُو اُسے قبول کر۔ 36 یسُوعؔ نے اُن سے پُوچھا، ”تُم مُجھ سے کیا چاہتے ہو؟“ 37 اُنہوں نے کہا کہ ہم تیرے جلال میں تیری دہنی اور بائیں طرف بیٹھیں۔ 38 یسُوع ؔنے اُن سے کہا، ”تُم نہیں جانتے کہ کیا مانگ رہے ہو۔ کیا تُم اُس پیالے میں سے پی سکتے ہو جو مُجھے پینا ضرور ہے؟ کیا تُم اُس جیسا بپتسمہ لے سکتے ہو جو میں لینے کو ہوں؟“ 39 اُنہوں نے جواب دیا، ہاں! ہم کر سکتے ہیں۔ یسُوعؔ نے اُن سے کہا: ”بالکُل! تُم یقینا اِ س تلخ پیالے میں سے پیو گے اور دُکھو ں کا بپتسمہ لو گے۔ 40 ”لیکن اپنے دہنے اور بائیں بٹھانا میرے اِختیار میں نہیں مگر جن کے لیے تیار کیا گیا ہے اُن ہی کے لیے ہے۔“ 41 جب باقی دس شاگردوں کو پتا چلا تو یعقوب ؔاور یُوحنّاؔسے خفا ہونے لگے۔ 42 یسُوعؔنے اُنہیں پاس بُلا کر اُن سے کہا، ”وہ غیر قو موںکے سردار ہوتے ہیں جو اپنے لوگوں پر حُکومت کرنا پسند کرتے ہیں اور اُن کے اُمرااُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ 43 ”مگر تُمہارے درمیان ایسا نہیں ہو گا۔ تُم میں سے جو بڑا بننا چاہے تُمہارا خادم بنے۔ 44 اور تم میں سے جواّول ہونا چاہے سب کا غلام بنے۔ 45 ”ابنِ آدم بھی خدمت لینے نہیں بلکہ خدمت کرنے آیا ہے اور اِ س لیے کہ اپنی جان بہتیروں کے لیے فدیہ میں دے۔“
اَندھا برتِمائیؔ:
46 پھر وہ یریحُوؔمیںآئے جب وہ اپنے شاگردوں اور ایک بڑی بھیڑ کے ساتھ یریحُوؔ سے نکل رہاتھا توتمائی ؔ کا بیٹا برتِمائی ؔ ایک اَندھا فقیر راہ کے کنارے بیٹھا تھا۔ 47 جب اُس کو پتا چلا کہ یسُوعؔ ناصری گُزر رہا ہے توچِلّاچِلّاکر کہنے لگا اے ابنِ داؤدؔ! اَے یسُوعؔ! مُجھ پر رحم کر۔ 48 لوگوں نے اُسے ڈانٹ کر چُپ رہنے کو کہامگر وہ اور بھی زیادہ چِلّانے لگا، اَے ابنِ داؤد ؔ مجھ رحم کر! 49 یسُوعؔ نے کھڑے ہو کر کہا اُسے بُلاؤ۔ لوگوں نے اُسے تسلی دے کر کہا، ’اُٹھ وہ تُجھے بُلاتا ہے۔‘ 50 برتِمائیؔ نے اپنی چادر زمین پر پھینکی اور جلدی سے اُٹھ کر یسُوعؔ کے پاس آیا۔ 51 یسُوعؔ نے اُس سے پُوچھا، ”تُو کیا چاہتا ہے کہ میںتیرے لیے کروں؟“ ۔ اُس اَندھے نے جواب دیا، ربّونی! میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ 52 یسُوعؔ نے اُس سے کہا، ”جا! تیرے ایمان نے تُجھے چنگاکیا۔“ اور وہ فوراًبینا ہو گیااور اُس کے پیچھے چل دیا۔