کتاب باب آیت

لُوقا 9

 9

 بارہ شاگردوں کو بھیجنا:

  1 ایک دن یسُوعؔ نے اپنے بارہ شاگردوں کو بُلا کراُنہیں بدرُوحوںکو نکالنے کا اختیاراور بیماروں کو شِفا دینے کی قوت بخشی۔

  2 اور اُنہیں خُدا کی بادشاہی کی منادی کرنے اور بیماروں کو شِفا دینے کے لیے بھیجا۔  3 اور اُن کو ہدایت کی کہ،  ”اپنے ساتھ کچھ نہ لے کر جانا، نہ لاٹھی، نہ جھولی، نہ روٹی، نہ روپیہ، نہ زیادہ کپڑے۔   4  جس گھر میں جائو اُسی میں رہو جب تک وہاں سے روانہ نہ ہو۔   5  ”اور جس شہر کے لوگ تُمہیں قبول نہ کریں تو اُس شہر سے نکلتے وقت اپنے پائوں کی گرد جھاڑ دینا، یہ ظاہرکرنے کے لیے کہ اُن کو اُنکے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔“

  6 لہٰذا وہ روانہ ہوئے اور گائوں گائوں خُوشخبری کی منادی کرنے اور بیماروں کوشِفا دینے لگے۔

 ہیرودیسؔ کا گھبرا جانا:

  7 جب گلیلؔ کے حاکم ہیرودیس انتپاس ؔ کو اِ ن سب باتوں کی خبر ہوئی جو یسُوعؔ کر تا تھا، تو وہ گھبرا گیا، کیونکہ کُچھ لوگ کہتے تھے کہ یُوحنّا ؔبپتسمہ دینے والا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔  8 کُچھ کہتے تھے کہ ایلیاہؔ یا کوئی قدیم زمانے کا نبی مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔  9 لیکن ہیرودیسؔ نے کہا کہ یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والے کا سر تو میں نے کٹوا دیا تھا، پھر یہ کون ہے جس کے بارے میں ایسی باتیں سُن رہا ہوں؟ پس وہ یسُوعؔ سے ملنے کی کوشش کرتا رہا۔

 پانچ ہزار کو کھانا کھلانا:

  10 جب شاگرد منادی کر کے واپس آئے تویسُوع ؔ کوسب کُچھ بتایا جو اُنہوں نے کیا تھا۔ تب وہ اُن کو اپنے ساتھ لے کر چُپکے سے شہر بیتِ صیداؔ چلا گیا۔  11 لیکن جب لوگوں کو پتا چلا کہ وہ کہیں جا رہے ہیں تو اُن کا پیچھا کیا، یسُوعؔ خُوشی کے ساتھ اُن سے ملااور خُدا کی بادشاہی کی تعلیم دی اور جو بیمار تھے اُن کوشِفا دی۔

  12 جب شام ہوئی تو شاگردوں نے یسُوعؔ سے کہا کہ لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ اِرد گرد کے گائوں اور قصبوں میں جا کر اپنے رہنے اور کھانے کا بندوبست کرسکیں، کیونکہ اِس ویران جگہ پر اُنہیں کُچھ نہیں ملے گا۔

  13 لیکن یسُوعؔ نے اُن سے کہا:  ”تُم خود ہی اِنہیں کھانے کو دو۔“ رسولوں نے جواب دیاکہ ہمارے پاس صرف پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیںیا پھرتو چاہتا ہے کہ ہم اِن کے لیے کھانا خرید کر لائیں۔  14 [کیونکہ وہاں پانچ ہزار مرد تھے۔] یسُوعؔ نے اُن سے کہا:  ”سب کو پچاس، پچاس کی ٹولیوں میں ترتیب سے بٹھائو۔“

  15 شاگردوں نے جیسا یسُوعؔ نے کہا تھا سب کو بٹھا دیا۔  16 یسُوعؔ نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاںلیں اور آسمان کی طرف اُٹھا کربرکت کی دُعا کی۔ اور روٹی توڑ توڑ کر شاگردوں کو دی کہ لوگوں میں بانٹتے جائیں۔  17 اور سب نے پیٹ بھر کرکھایا۔ بعد میں شاگردوں نے بارہ ٹوکرے روٹی کے ٹُکرے اُٹھائے۔

 یسُوعؔ کے بارے پطرسؔ کا مکاشفہ:

  18 ایک دن یسُوعؔ بھیِڑسے علیٰحدہ ہو کر دُعا کر رہا تھا، صرف اُس کے شاگرد اُس کے ساتھ تھے، اُس نے شاگردوں سے پُوچھا:  ”لوگوں کے خیال میں مَیں کون ہوں؟“   19 شاگردوں نے جواب دیا، ”کُچھ لوگ تُجھے یُوحنّا ؔبپتسمہ دینے والا کہتے ہیں، کُچھ تُجھے ایلیاہؔ اور کُچھ سمجھتے ہیں کہ کوئی قدیم نبیوں میں سے جی اُٹھا ہے۔  20 پھر اُس نے پُوچھا:  ”تُم کیا سمجھتے ہو کہ میں کون ہوں؟“ پطرسؔ نے جواب دیا، ”تُو خُدا کا مسیِح ہے۔“

 یسُوعؔ کا اپنی موت کے بارے ذکر:

  21 یسُوعؔ نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں۔  22 اور کہا:  ”ابنِ آدم کو بُہت سے دُکھ اُٹھانا ضروری ہے، اورقوم کے بزرگ، سردار کاہن اور شریعت کے اُستاداُسے رَدّکردیں گے اور اُسے قتل کر دیا جائے گا، مگر وہ تیسرے دن پھر جی اُٹھے گا۔“   23 پھر اُس نے سب سے کہا:  ”اگر تُم میں سے کوئی میرے پیچھے چلنا چاہے تو اپنی خُودی کو چھوڑ ے اور ہر روز اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے چلے۔   24  ”جو کوئی اپنی جان بچانے کی کوشش کرے، وہی اُسے کھوئے گااور جو کوئی میری خاطر اُسے دے دے، وہی اُسے بچائے گا۔   25  ”اگر کوئی اپنی ساری زندگی صرف دُنیا حاصل کرنے میں گزار دے، اور اپنی جان کی فکر نہ کر ے اور اُسے کھو دے تو اُسے کیا حاصل؟   26  ”جو کوئی مُجھے اور میری باتوں کو قبول کرنے میں شرمندگی محسوس کرے گاتو ابنِ آدم بھی جب اپنے اور اپنے باپ کے اورپاک فرشتوں کے جلال میںآئے گا تواُسے قبول نہ کرے گا۔   27  ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں تُم میں سے کُچھ لوگ جو یہاں کھڑے ہیں موت کا مزہ چکھنے سے پہلے خُدا کی بادشاہی کو دیکھیں گے۔“

 یسُوعؔ کی صورت بدل جانا:

  28 تقریباً آٹھ دنوں کے بعدوہ پطرسؔ، یُوحنّا ؔاوریعقوبؔ کو ساتھ لے کر پہاڑ پر دُعا کرنے کے لیے گیا۔

  29 جب وہ دُعا کر رہا تھا تو اُس کا چہرہ بدل گیا۔ اور اُس کا لباس سفید چمکدار ہو گیا۔  30 اور دو مرد، مُوسیٰ ؔاور ایلیاؔ ہ اُس کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔  31 وہ دیکھنے میں بڑے جلالی تھے۔ وہ اُس کی موت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے جو یروشلیمؔ میں واقع ہونے کوتھی۔  32 مگر پطرسؔ اور دوسرے شاگرد سو رہے تھے، جب وہ جاگ اُٹھے تو یسُوعؔ کے جلال کو اوردو مردوں کو اُس کے ساتھ کھڑے دیکھا۔

  33 جیسے ہی مُوسیٰؔ اور ایلیاؔہ اُس سے رُخصت ہونے لگے تو پطرس ؔجلدی سے بغیر سوچے سمجھے بول پڑا، اَے اُستادکتنی اچھی بات ہے کہ ہم یہاں ہیں، پس ہم یہاں پر یادگار کے طور پر تین خیمے کھڑے کرتے ہیں، ایک تیرے لئے، ایک مُوسیٰؔ کے لئے اورایک ایلیاہ ؔ کے لئے۔  34 ابھی وہ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ ایک بادل اُن پر چھا گیااور وہ نہایت ڈرگئے۔

  35 اور بادل سے ایک آواز آئی، ”یہ میرا بیٹا ہے جسے میں نے چُنا ہے، اِس کی سُنو!“

  36 آواز کے ختم ہوتے ہی یسُوعؔ اکیلاکھڑا دکھائی دیا۔ شاگرد وں نے اُس وقت اِس واقعہ کے بارے میں کسی سے بات نہیں کی۔

 بدرُوح گرفتہ لڑکے کی شفا:

  37 اگلے دن جب وہ پہاڑ سے نیچے آئے تو ایک بڑی بھیِڑ یسُوعؔ سے ملی۔  38 اور بھیِڑمیں ایک آدمی نے پُکار کر اُس سے کہا، ”اُستاد! میں تیری منِّت کرتا ہوں میرے بیٹے کے لئے کچھ کر کیونکہ یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔  39 ایک بدرُوح اُسے باربار پکڑ لیتی ہے اور لڑکا چِلّا اُٹھتا ہے پھر وہ اُسے اِیسا جھنجھوڑتی ہے کہ اُس کے مُنہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے اور اُسے بُری طرح کُچلتی اور بڑی مُشکل سے چھوڑتی ہے۔  40 میں نے تیرے شاگردوں کی مِنّت کی کہ بدرُوح کو نکال دیں مگر وہ نہ نکال سکے۔  41 یسُوعؔ نے کہا:  ”اے ایمان سے خالی اور بگڑی ہوئی قوم! میں کب تک تُمہارے ساتھ رہوں گا اور تُمہاری برداشت کروں گا؟“ پھر اُس آدمی سے کہا:  ”لڑکے کو اِدھر لاؤ۔“   42 جیسے ہی وہ اُسے سامنے لائے بدرُوح نے اُسے زمین پر پٹکااور بُری طرح مروڑنے لگی۔ یسُوعؔ نے اُس بُری رُوح کو ڈانٹا تو لڑکا اچھا ہوگیا۔ پھر لڑکے کو اُس کے باپ کے حوالے کر دیا۔  43 خُدا کی عظیم قدرت کو دیکھ کر سب لوگ حیران ہو رہے تھے۔  44 یسُوعؔ نے شاگردوں سے کہا:  ”تُمہیں میری باتیں یاد رہیںکہ ابنِ آدم کودھوکے سے دشمنوں کے حوالہ کردیا جائے گا۔“   45 مگر اُنہیں پتا نہیں چلا کہ اِس بات کا کیا مطلب ہے کیونکہ اِس کی حقیقت کواُن سے چھپایا گیا تھا۔ لہٰذا وہ نہ سمجھ سکے اور یسُوعؔ سے اِس کے بارے میں پوچھتے ہوے بھی ڈرتے تھے۔

 آسمان کی بادشاہی میں کون بڑا ہے:

  46 پھرشا گردوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ ہم میں سے بڑا کون ہے؟  47 یسُوعؔ نے یہ جان کر کہ کیا سوچتے ہیں، ایک بچے کو لے کر اپنے ساتھ کھڑا کیا اور اُن سے کہا:  48  ”جو کوئی اِس بچے کو میرے نام سے قبول کرتا ہے وہ مُجھے قبُول کر تا ہے، جو مُجھے قبول کرتا ہے وہ میرے باپ کو جس نے مُجھے بھیجا ہے قبول کرتا ہے۔ چنانچہ جو تُم میں سب سے چھُوٹاہے وہی بڑا ہے۔“

  49 یُوحنّاؔنے یسُوعؔ کو بتایا، ”اے اُستاد! ہمیں ایک شخص ملا جو تیرے نام سے بدرُوحیں نکالتا ہے۔ ہم نے اِسے روک دیا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ تیری پیرَوی نہیں کرتا۔“  50 مگر یسُوعؔ نے کہا:  ”اُسے مت روکنا، کیونکہ جو تُمہارے خلاف نہیںوہ تُمہاری طرف ہے۔“

 سامری گائوں کا یسُوعؔ کو قبول نہ کرنا:

  51 جب اُس کے آسمان پر اُٹھائے جانے کا وقت قریب آیا تویسُوعؔ نے یروشلیم ؔ جانے کی تیاری کی۔

  52 اُس نے اپنے آگے کُچھ شاگردوں کو سامریہ کے ایک گائوں میںبھیجا کہ اُس کے آنے کی تیاری کریں۔  53 چونکہ اُنہوں نے یروشلیمؔ جانا تھااِسلئے سامریوں نے اُنہیں جگہ نہ دی۔

  54 سامریوں کے انکار کرنے پر یعقوبؔ اور یُوحنّاؔنے یسُوعؔ سے کہا، ”خُداوند اگر تُوکہے تو اِنہیں بھسم کرنے کے لیے آسمان سے آگ مانگیں؟ جیسے ایلیاؔ ہ نے کیا؟  55 مگر اُس نے پھِر کر اُنہیں جھِڑکااور کہا:

  56  ”ابن ِآدم ہلاک کر نے نہیں بلکہ نجات دینے آیا ہے۔“ پھر وہ کسی دُوسرے گائوں میں چلے گئے۔

 ایک آدمی کی یسُوعؔ کے پیچھے چلنے کی خواہش:

  57 راہ میں چلتے ہوئے کسی نے یسُوعؔ سے کہا، ”اَے خُداوند! تُوجہاںجائے گا میں تیرے پیچھے چلوں گا۔  58 یسُوعؔ نے جواب دیا:  ”لومڑیوںکے رہنے کے لیے بھٹ اور پرندوںکے گھونسلے مگر ابنِ آدم کے پاس تو سر رکھنے کی بھی جگہ نہیں۔“   59 پھر کسی اور سے کہا:  ”میرے پیچھے چل۔“ وہ یسُوعؔ کے پیچھے جانے کو تیار ہو گیا مگراجازت چاہی کہ اپنے باپ کو دفن کرآئے۔  60 لیکن یسُوعؔ نے اُس سے کہا:  ”[رُوحانی] مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دے مگر تُو جا کر خُدا کی بادشاہی کی منادی کر۔“   61 کسی اور نے کہا، ”خُداوند میں تیرے پیچھے چلوں گا، پہلے میں اپنے گھر والوں کو خُدا حافظ کہہ آئوں۔“  62 یسُوعؔ نے جواب میں کہا:  ”جو کوئی کھیت میں کام کرنے کے لیے ہل پر ہاتھ رکھ کر پیچھے دیکھے، وہ خُدا کی بادشاہی میں کام کرنے کے قابل نہیں۔“