کتاب باب آیت

لُوقا 8

 8

 یسُوعؔ کی خدمت میں شامل عورتیں:

  1 اِس کے فوراً بعد یسُوعؔ اِرد گرد کے شہروں اور گائوں میں منادی کرنے اور خُدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنُانے کے لیے دَورے کرنے لگا اور اُس کے بارہ شاگرد بھی اُس کے ساتھ تھے۔  2 کچھ عورتیں بھی اُس کے ساتھ تھیںجنہوںنے بُری رُوحوں اور بیماریوں سے شِفاپائی تھی۔ یعنی مریمؔ مگدلینی جِس میں سے سات بدرُوحیں نکلی تھیں۔  3 اور یُوآنہؔ ہیرودیسؔ کے دیوان خوُزہؔ کی بیوی، اور سُوسنّاہؔ اور بُہت سی عورتیں جو اپنے مال سے یسُوعؔ اور اُس کے شاگردوں کی خدمت کرتی تھیں۔

 بیج بکھرنے والے کی تمثیل:

  4 ایک دن یسُوع ؔنے ایک بڑی بھیڑ کو تمثیل میں ایک کہانی سُناتے ہوئے کہا:~

  5  ”ایک کسان بیج بونے نکلا، بیج بکھیرتے ہوئے کُچھ راہ کے کنارے گرااورراہ چلتے لوگوں کے پائوں کے نیچے دَب گیا یا پرندوں نے چُگ لیا۔   6  ”کچھ چٹان پر گرا اور اُگ کرسُوکھ گیا کیونکہ وہاں نمی نہ تھی۔“

  7  ”کچھ جھاڑیوں میں گرا، جب اُگا تو جھاڑیوں نے اُن نرم پودوں کو دبا دیا۔   8  ”اور کچھ اچھی زمین پر گرااور اُگ کر سو گُنا پھل لایا۔“ جب وہ سُنا چُکاتو پُکار کر کہا:  ”جو سُن سکتا ہے سُن لے اور سمجھے۔“

  9 اُس کے شاگردوں نے اُس سے اِس تمثیل کا مطلب پُوچھا۔  10 اُس نے جواب دیا:  ”تمہیں خُدا کی بادشاہی کے بھید جاننے کی سمجھ دی گئی ہے مگر اَوروں کے لیے تمثیل میں بات کرتا ہوں تاکہ یہ کلام پُورا ہوکہ:

  ’دیکھتے ہوئے نہ دیکھیں، سُنتے ہوئے نہ سمجھیں۔‘ (یسعیاہؔ ۶: ۹)

  11  ”یہ تمثیل اِس طرح سے ہے: بیج خُدا کا کلام ہے۔  12  ”جو بیج راہ کے کنارے گِرااُن لوگوں کے لیے ہے جو کلام سُنتے ہیں مگر شیطان جلد اُس کلام کواُن کے دل سے اُڑا لے جاتا ہے تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور نجات نہ پائیں۔  13  ”جو بیج چٹان پر گِرااُن لوگوں کے لیے ہے جو خُوشی سے کلام قبول تو کرلیتے ہیں اور کچھ عرصہ کے لیے ایمان بھی رکھتے ہیں مگر جب آزمائش کا سامنا کرنا پڑے تو جڑ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ایمان سے گِر جاتے ہیں۔   14  ”جو بیج کانٹے دار جھاڑیوں میںگِرا، اُن لوگوں کے لیے ہے، جو کلام سُنتے ہیں مگر جلد ہی دُنیا کی فکریں، دولت اورعَیش و عشرت کی خواہش جھاڑیوں کی طرح اُس کلام کے پودے کو دبا دیتی ہیںاور وہ کبھی بھی بڑا ہو کر پھل نہیں لاتا۔

  15  ”اچھی اور زرخیز زمین سے مُراد وہ لوگ ہیں جو ایماندار، نیک دِل ہیں، جو کلام سُنتے اور اُسے تھامے رہتے، اور صبر کے ساتھ بُہت سا پھل پیدا کرتے ہیں۔

 چراغ کی تمثیل:

  16  ”چراغ جلا کر کوئی بھی اُسے برتن سے ڈھانپ نہیں دیتا اور نہ ہی اُسے میز کے نیچے رکھتا ہے بلکہ اُونچی جگہ پر رکھتا ہے تاکہ گھر میں داخل ہونے والوں کے لیے روشنی ہو۔   17  ”ہر ِطرح کا راز بالآ ِخر کُھول دیا جائے گااور ہر پوشیدہ بات سب کو معلوم ہو جائے گی۔   18  ”پس غور کرو کہ کیسے سُنتے ہو۔ جو میری باتیں غور سے سُنتے ہیں اُنہیں اِن باتوں کی اور بھی سمجھ دی جائے گی، اور جو میری باتیں غور سے نہیں سُنتے اُن سے وہ سمجھ بھی جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، لے لی جائے گی۔“

 یسُوع ؔکا حقیقی خاندان:

  19 یسُوع ؔ کی ماں اور اُس کے بھائی اُس سے ملنے آئے مگر بھیِڑکی وجہ سے اُس تک پُہنچ نہ سکے۔  20 کسی نے اندرجا کر خبر دی کہ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر تُجھ سے ملنے آئے ہیں۔

  21 یسُوعؔ نے جواب میں کہا:  ”میری ماں اور میرے بھائی وہ ہیں جو خُدا کا کلام سُنتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔“

 یسُوعؔ کا ہوا اور پانی کو ڈانٹنا:

  22 ایک دن یسُوع ؔنے شاگردوں سے کہا، ”آئو جھیل کے پار چلیں۔“ چنانچہ وہ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔  23 جب وہ جا رہے تھے تو یسُوعؔ آرام کی خاطر کشتی میں سو گیا۔ اچانک جھیل میں ایک بڑا طوفان اُٹھااور کشتی پانی سے بھر نے لگی اور خطرہ تھا کہ ڈُوب جائے گی۔  24 شاگردوں نے یسُوع ؔ کو جگایا اور چلِاّنے لگے:

  ”خداوند! خداوند! ہم ڈوبنے لگے ہیں۔“ یسُوع ؔنے اُٹھ کر ہوااور پانی کی لہروں کو ڈانٹا، ہواتھم گئی اورسکون ہو گیا۔  25 اُس نے اُن سے کہا:  ”تُمہارا اِیمان کہاں گیا؟“ شاگرد سخت حیران اور خوف زدہ ہو کر آپس میں کہنے لگے، ”آخر یہ کون ہے؟ کہ ہَوا اور پانی بھی اِس کا حُکم مانتے ہیں!“

 بدرُوحوں کے لشکر کا سئوروں کے غُول میں جانا:

  26 وہ سفر کرتے ہوئے گلیل ؔ کی جھیل کے پار گراسینیوںؔکے علاقے میں پہنچ گئے۔  27 جب وہ کشتی سے اُترا تو ایک آدمی جس میں بدروحیں تھیںیسُوع ؔکے سامنے آیا۔ وہ لمبے عرصے سے اپنے گھر سے باہر بغیر کپڑوں کے قبروں میں رہا کرتا تھا۔  28 وہ یسُوعؔ کو دیکھتے ہی اُس کے قدموں میں گر کر اوربڑی آوازمیںچِلّاکر کہاـ:

 ”یسُوع ؔ! خُداتعالیٰ کے بیٹے! تیرا مُجھ سے کیا کام؟ میں تیری مِنّت کرتا ہوں مُجھے وقت سے پہلے عذاب میں نہ ڈال۔“  29 کیونکہ یسُوعؔ نے اُس بدرُوح کو اُس آدمی میں سے نکل جانے کا حُکم دیا تھا۔ کیونکہ بدرُوح جب اُس پر قبضہ کرتی، تو وہ آدمی اُن زنجیروںاور بیڑیوں کوآسانی سے توڑدیتا، جن سے لوگ اُسے قابو میں رکھنے کے لیے جکڑتے تھے اوربد رُوح اُسے ویرانوں میں لیے پھرتی تھی۔  30 یسُوع ؔنے اُس سے پُوچھا:  ”تیرا نام کیا ہے؟“ اُس نے کہا، ”لشکر“ کیونکہ اُس میں بُہت سی بدرُوحیں تھیں۔  31 بدرُوحیں یسُوعؔ کی مِنّت کرنے لگیں کہ اُنہیں اَتھاہ گڑھے میں نہ بھیجے۔

  32 قریب ہی پہاڑ کے ساتھ سئوروں کا ایک بڑا غول چررہا تھا، بدرُوحوں نے یسُوعؔ سے التجا کی کہ اُنہیں سئوروں میں جانے دے۔ یسُوعؔ نے اُنہیں اجازت دے دی۔  33 بدرُوحیں آدمی سے نکل کر سئوروں میں گُھس گئیں اور سارا غول پہاڑ کے کنارے سے جھیل میں جا گِرااور ڈُوب کر مر گیا۔  34 یہ دیکھ کر سئوروں کے چرانے والوں نے قریب کے گائوں اورشہر میں یہ خبر پھیلادی۔

  35 لوگ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوا ہے جلدی سے وہاں پہنچے اور اُس آدمی کو یسُوعؔ کے قدموں میںاپنے ہوش وحواس کے ساتھ کپڑے پہنے دیکھ کر ڈر گئے۔  36 جنہوں نے یہ سب کُچھ دیکھا تھا دُوسروں کو بتانے لگے کہ کیسے اِس آدمی نے بدرُوحوں سے نجات پائی۔

  37 گراسینیوںؔکے علاقے کے سب لوگوں نے یسُوع ؔسے درخواست کی کہ اُن کے پاس سے چلاجائے، کیونکہ اُن پر خُوف چھا گیا تھا۔ لہٰذا یسُوعؔ کشتی پر سوار ہو کر واپس چلاگیا۔  38 جس آدمی سے بدرُوحیں نکلیں تھیں اُس نے یسُوعؔ سے منت کی کہ اُسے بھی اپنے ساتھ لے چلے، مگر یسُوعؔ نے اُسے واپس بھیجتے ہوئے کہا۔  39 ”اپنے گھر واپس جا اور سب لوگوں کو بتا کہ خُدا نے تیرے لیے کیسے بڑے کام کئے ہیں۔“ وہ آدمی واپس جاکر سارے شہر میںبتانے لگا کہ یسُوعؔ نے اُس کے لیے کیسے بڑے کام کِئے ہیں۔

 یایئر ؔکی بیٹی کو زندہ کرنااور بارہ برس کی بیمار عورت کو شفا:

  40 جب یسُوعؔ واپس پہنچا تو بُہت سے لوگ اُس کا انتظار کر رہے تھے اور بڑی خوشی سے اُس کے ساتھ ملے۔  41 ایک شخص یائیِرؔ نام جو عبادت خانے کا سردارتھا، یسُوعؔ کے پاس آیااور اُس کے قدموں میں گر کر التجا کی کہ اُس کی ساتھ اُس کے گھر چلے۔  42 کیونکہ اُس کی اکلوتی بیٹی جو بارہ سال کی تھی مرنے کی قریب تھی، یسُوعؔ جب اُس کے ساتھ جا رہا تھاتو لوگوں کی ایک بھیِڑ اُس کے ساتھ تھی۔

  43 اُس بھیڑ میں ایک عورت تھی جسے بارہ برس سے خون جاری تھا۔ اُس نے اپنی عمر بھرکی کمائی حکیموں پر لگا دی مگرکسی سے بھی اُس کو شفانہ ملی۔  44 اُس نے بھیِڑ میں سے راستہ بنا کر یسُوعؔ کو پیچھے سے چُھوااور اُسی وقت اُسے شِفا ہوئی اور خُون بہنا بند ہو گیا۔  45 یسُوعؔ نے پوچھا:  ”کس نے مُجھے چُھواہے؟“ جب سب انکار کر رہے تھے تو پطرسؔنے کہا، ”اُستاد بھیِڑ میں اتنے لوگ تُجھ پر گرتے پڑتے ہیں۔“  46 مگر یسُوعؔ نے کہا:  ”کسی نے مُجھے خود سے چھُوا ہے کیونکہ مُجھے اپنے اندر سے شِفا کی قوت نکلتی محسوس ہوئی ہے۔“

  47 جب اُس عورت نے دیکھا کہ چِھپ نہیں سکتی تو کانپتی ہوئی اُس کے قدموں میں جُھک کر سب لوگوں کو بتایا کہ اُس نے یسُوعؔ کو کیوں چُھوا ہے اور کیسے فوراً شِفا پائی۔  48 یسُوعؔ نے اُس سے کہا:  ”بیٹی! تیرے اِیمان نے تُجھے اچھا کیا ہے، سلامتی سے چلی جا۔“

  49 وہ اُس عورت سے بات کر ہی رہا تھا کہ یائیرؔکے گھر سے کوئی یہ پیغام لایا کہ اُستاد کو تکلیف نہ دے۔ لڑکی مر گئی ہے۔

  50 یسُوعؔ نے یہ سُن کر یائیرؔ سے کہا:  ”خوف نہ کر، بس ایما ن رکھ، وہ بچ جائے گی۔“

  51 گھر پہنچ کر یسُوعؔ نے کسی کو اپنے ساتھ اندر لڑکی کے پاس جانے کی اجازت نہ دی اور صرف پطرسؔ، یُوحنّاؔ ؔاور یعقوُبؔ اور لڑکی کے ماں باپ کو لے کر اندر گیا۔  52 گھر میں موجود سب لوگ لڑکی کے لیے ماتم کر رہے تھے یسُوعؔ نے اُن سے کہا:  ”ماتم نہ کرو، لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے۔“   53 لوگ اُس کا مذاق اُڑانے لگے کیونکہ جانتے تھے کہ لڑکی مر گئی ہے۔

  54 یسُوعؔ نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کراُونچی آوازمیں کہا:  ”اُٹھ جا! میری بیٹی۔“   55 اُسی لمحے اُس کی رُوح اُس میں لوٹ آئی اور لڑکی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر یسُوعؔ نے لڑکی کو کچھ کھانے کے لیے دینے کو کہا۔  56 اُس کے ماں باپ خُوشی سے حیرت زدہ ہوگئے مگر یسُوعؔ نے اُن کو تاکید کی کہ کسی کو اِس کے بارے میں نہ بتائیں۔