رومی صُوبہ دار کا ایمان:
1 جب یسُوعؔ اِن سب باتوں کی تعلیم دے چُکا تو واپس کفرِنحومؔ آیا۔ 2 ایک رومی صُوبہ دار کا نہایت عزیز نوکر بیمار تھااور مرنے کے قریب تھا۔ 3 اُس نے جب یسُوعؔ کے بارے میں سُناتو چند یہودی بزرگوں کو یسُوعؔ کے پاس اِس درخواست کے ساتھ بھیجاکہ آکر اُس کے نوکر کو اچھا کرے۔
4 وہ یسُوعؔ کے پاس گئے اور بڑی مِنّت کر کے کہنے لگے، ”صوبہ دار اِس لائق ہے کہ تُو اُس کی درخواست سُنے۔ 5 ”وہ یہودی قوم سے محبت رکھتا ہے اور اُس نے ہمارے عبادت خانے بھی بنوائے۔“ 6 یسُوعؔ اُن کے ساتھ چل پڑا، ابھی وہ گھر سے کچھ ہی دُور تھے کہ صُوبہ دار نے اپنے کچھ دوستوں کو یسُوع ؔ کے پاس یہ کہلا بھیجا، اَے خداوند! تکلیف نہ کر میں اِس قابل نہیں کہ تُو میری چھت کی نیچے آئے۔ 7 میں تو اِس قابل بھی نہیں کہ تُجھ سے ہاتھ ملا سکوں، لہٰذا تُوجہاں ہے، وہیں سے کہہ دے تومیرا خادم شفا پائے گا۔ 8 میں تیرے اختیار کو سمجھتا ہوںکیونکہ میں اُوپر والوں کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے اختیار میںہیں، جِس سے کہتا ہوں جا تو وہ جاتا ہے، اور جس سے کہتا ہوں آ تو وہ آتا ہے ا ور اپنے نوکر سے جو کام کہتا ہوںکہ کر تو وہ کرتا ہے۔ 9 یسُوعؔ یہ سُن کر حیران ہوااور مُڑ کراُن لوگوں سے جو اُس کے پیچھے آ رہے تھے کہا: ”میں تُم سے کہتا ہوں، اِیسا ایمان میں نے اسرائیل میں بھی نہیں پایا۔“ 10 جب صوبے دار کے دوست گھر واپس آئے تو اُس نوکر کو تندرُست پایا۔
نائینؔ کی بیوہ:
11 کُچھ ہی دنوں کے بعد یسُوعؔ اور اُس کے شاگرد، نائینؔ نام کے ایک شہر میں گئے اور بُہت سے لوگ اُن کے ساتھ تھے۔ 12 جب وہ شہر کے قریب پہنچے تو لوگ ایک جنازے کو شہر کے پھاٹک سے باہر لا رہے تھے، ایک نوجوان جو اپنی بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹاتھا مر گیا تھا، اور شہر کے بُہت سے لوگ اُس کے ساتھ تھے۔ 13 بیوہ کو دیکھ کر یسُوعؔ کا دِل ترس سے بھر گیا اور بیوہ سے کہا: ”مت رو۔“ 14 پھر اُس نے جنازے کے پاس جا کر اُسے چھُوا، جنازہ اُٹھانے والے رُک گئے۔ یسُوعؔ نے مُردے کو آواز دی، ”اَے جوان! میں تُجھ سے کہتا ہوں اُٹھ کھڑا ہو۔“ 15 مُردہ اُٹھ کھڑا ہوا اور بول پڑا۔ یسُوعؔ نے اُسے اُس کی ماں کے حوالے کر دیا۔ 16 سب لوگ خوفزدہ ہوگئے اور خُدا کی تمجید کرتے ہوئے کہنے لگے، ”کوئی زبردست نبی ہمارے درمیان آیا ہے اورخُدا نے اپنے لوگوں کی خبرلی ہے۔“
17 اور یسُوعؔ کے بارے میں خبر سارے یہودیہؔ اور اردگرد کے علاقے میں پھیل گئی۔
یُوحنّا ؔ بپتسمہ دینے والے کا یسُوعؔ کو پیغام:
18 یُوحناؔبپتسمہ دینے والے کے شاگردوں نے یسُوعؔ کے بارے میں سب باتیںاُسے بتائیںاِس پر اُس نے دو شاگردوںکو بُلایا۔ 19 اور اُنہیں یسُوعؔ کے پاس یہ پُو چھنے کو بھیجا، کیا تُوہی مسیح ہے جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں، یا کسی اور کا انتظار کریں؟ 20 یُوحنّاؔکے وہ دونوں شاگرد یسُوع ؔکے پاس آئے اور اُس سے کہا: ”یُوحنّا ؔنے ہمیں اِس لیے بھیجا ہے کہ تُجھ سے پُوچھیں کہ کیا تُوہی وہ مسیح ہے جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں، یا کسی اور کا انتظار کریں؟ 21 اُس وقت یسُوع ؔؔنے بُہت سے بیماروں کو شفا دی، بہتوں کو بُری رُوحوں سے رہائی بخشی اور اَندھوںکو دیکھنے کی طاقت دی۔ 22 اُس نے اُن کو جواب میں کہا: ”جو کچھ تُم نے سُنا اور دیکھا ہے جاکر یُوحنّاؔ کو بتائوکہ اَندھے دیکھتے ہیں، لنگڑے چلتے ہیں، کوڑھی اپنے کوڑھ سے شفا پاتے ہیں، بہرے سُنتے ہیں، مُردہ زندہ کئے جاتے ہیںاور غریبوں کو خُوش خبری سُنائی جاتی ہے۔ 23 ”مبارک ہیں وہ لوگ جو میرے نام کے باعث شرمندہ نہ ہواور بھٹک نہ جائے۔“ 24 جب یُوحنا کے شاگرد چلے گئے تو یسُوع ؔنے یُوحنّاؔکے بارے میں لوگوں سے یہ کہا: ”تُم کیسے آدمی کو دیکھنے بیابان میں گئے تھے، ایک کمزورشخص کو جو سرکنڈے کی طرح ہے کہ جب ہوا چلے تو ہلنے لگے؟ 25 ”تو پھر کس کو دیکھنے گئے تھے؟ ایسے آدمی کو جو قیمتی کپڑے پہنے ہو؟ دیکھو جو قیمتی کپڑے پہنتے اور عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں وہ محِلوں میں رہتے ہیں۔ 26 ”کیا ایک نبی کو؟ ہاں! بلکہ نبی سے بھی بڑے کو۔ 27 ”یہ وہی ہے جس کے لیے کلام میں لکھا ہے،:
28 ”میں تُم سے کہتا ہوں جتنے عورت سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یُوحنّاؔسے بڑا کوئی نہیں، لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ یُوحنّاؔسے بڑا ہے۔“ 29 جب سب لوگوں اور ٹیکس لینے والوں نے بھی سُنا، تو اُنہوں نے خُدا کو راستباز مان کریُوحنّاؔ کا بپتسمہ لیا۔ 30 مگر فریسیوں اور شرع کے اُستادوں نے بپتسمہ نہ لے کر، اپنے لیے خُدا کے ارادہ کو جُھوٹاکر دیا۔ 31 پھر یسُوعؔ نے کہا: ”اِس زمانہ کے لوگوں کو کیا کہوں کہ وہ کس کی طرح ہیں؟ 32 ”اُن لڑکو ں کی طرح جو بازار میںکھیلتے اور اپنے دوستوں سے پکار کر شکایت کرتے ہیں،
33 ”کیونکہ یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والا نہ تو روٹی کھاتا ہوا آیا نہ ہی مَے پیتا ہوا آیا، اور تُم کہتے ہو اُس میں بدرُوح ہے۔ 34 ”جبکہ ابنِ آدم کھاتا اور پیتا ہوا آیااور تُم اُسے کھائو، شرابی اور ٹیکس لینے والوں، اور گنہگاروں کا دوست کہتے ہو۔ 35 ”لیکن حکمت اپنے سب عمل کرنے والوں کے باعث راست ثابت ٹھہری۔“
گنہگار عورت کا یسُوعؔ کو مسح کرنا:
36 ایک فریسی کی دعوت پر یسُوعؔاُس کے ساتھ اُس کے گھرکھانے کے لیے بیٹھا۔ 37 اُس شہر کی ایک بدکار عورت یہ جان کر کہ یسُوعؔ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا ہے، سنگ مر مر کے ِعطر دان میںقیمتی عطرلائی۔ 38 وہ یسُوعؔ کے پائوں کے پاس گھٹنوںکے بل روتے ہوئے اُس کے پائوں اپنے آنسوئوں سے بھگونے لگی اور اپنے بالوں سے پونچھ کر اُنہیں چُومنے اور اُن پر عطر ڈالنے لگی۔ 39 وہ فریسی جِس نے دعوت کی تھی یہ دیکھ کر اپنے جی میں سوچنے لگا کہ اگریہ شخص نبی ہوتا تو جان جاتا کہ جو عورت اُسے چھُوتی ہے کیسی عورت ہے؟ کیونکہ گنہگار ہے۔
40 یسُوع ؔنے اُس کے خیال جان کر کہا: ”شمعونؔ! ؔمیں تُجھے ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔“ اُس نے کہا اے اُستاد! بتا۔ 41 تب یسُوعؔ نے اُسے یہ کہانی سُنائی، ”ایک شخص نے دو آدمیوں کو قرضہ دیا ایک کو پانچ سو دینار اور دُوسرے کو پچاس دینار۔ 42 ”مگروہ دونوں قرض واپس نہ کر سکے، اُس شخص نے دونوں پر مہربانی کی اور قرض معاف کر دیا۔ اُن دونوں میں سے کون اُس سے زیادہ محبت کرے گا؟“
43 شمعونؔ نے جواب میں کہا، ”وہ جِس کا زیادہ قرض معاف ہوا۔“ یسُوعؔ نے کہا: ”تُونے ٹھیک کہا۔“ 44 اُس نے عورت کی طرف دیکھ کرشمعون ؔ سے کہا: ”میں تیرے گھر میں آیاتُونے میرے پائوںدھونے کے لیے پانی نہ دیا، مگر اِس عورت کو دیکھ اُس نے آنسوئوںسے میرے پائوں دھوئے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔ 45 ”تُونے سلام کرتے ہوئے مُجھے بوسہ نہ دیامگر اِس نے، جب سے میں آیا ہوں میرے پائوں چُومنا نہ چھوڑا۔ 46 ”تُو نے میرے سر میں تیل نہیں ڈالامگر اِس نے میرے پائوں پر عطر ڈالاہے۔ 47 ”اِس لئے میں کہتا ہوں، اِس کے گناہ بُہت تھے جومعاف ہوئے، اِس نے بُہت محبت کی۔ جِس کے تھوڑے گناہ معاف ہوئے وہ تھوڑی محبت کرتا ہے۔“
48 یسُوعؔ نے اُس عورت سے کہا: ”تیرے گناہ معاف ہوئے۔“ 49 وہ لوگ جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے آپس میں کہنے لگے، ”یہ کون ہے جو گناہ معاف کرتا پھرتا ہے۔“
50 یسُوع ؔنے عورت سے کہا: ”تیرے ایمان نے تُجھے بچا لیا، سلامت چلی جا۔“