پِیلاطُسؔ کے سامنے پیشی:
1 پھر اُن کی ساری جماعت اُٹھ کر یسُوعؔ کو رومی گو رنرپیلاطُسؔ کے سامنے لے گئی۔ 2 وہاں یسُوعؔ پر الزام لگایا کہ یہ شخص ہماری قوم کو گمراہ کرتا اور رومؔ کے شہنشاہ کو ٹیکس دینے سے منع کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسیِح بادشاہ ہے۔ 3 پیلاطُسؔ نے اُس سے پُوچھا، ’کیاتُو یہُودیوں کا بادشاہ ہے؟‘ یسُوعؔ نے جواب دیا: ”تُو نے خُود ہی کہہ دیا کہ میں ہوں۔“ 4 پِیلاطُسؔ نے سردارکاہنوں اوراُس ہجوم کو جو اُن کے ساتھ تھا کہا، ”میں اِس شخص میں کوئی قصورنہیںپاتا۔“ 5 مگر وہ برابر الزام لگاتے رہے اور کہا کہ یہ شخص تمام یہوُدیہؔ میں بلکہ گلیلؔ سے یہاں تک لوگوں کواپنی تعلیم سے گمراہ کرتا ہے۔ 6 یہ سُن کر پِیلاطُسؔ نے پُوچھا، ’کیا یہ گلیلیؔ ہے؟‘ 7 اُس نے یسُوعؔ کو ہیرودیس انتِیپاسؔ کے پاس بھیج دیا۔ کیونکہ وہ گلیلؔ پر حاکم تھااور اُن دنوں یروشلیم ؔ میں آیاہوا تھا۔
ہیرودیسؔ کے سامنے پیشی:
8 ہیرودیسؔ یسُوعؔ سے مل کر بُہت خُوش ہواکیونکہ بڑی مُدت سے وہ اُس سے ملنے کا خواہش مند تھا۔ اُس نے یسُوعؔ کے بارے میں سُن رکھا تھااور چاہتا تھا کہ اُ سے کوئی مُعجزہ کر کے دکھائے۔
9 وہ یسُوعؔ سے بُہت سی باتیں پُوچھتا رہا مگر اُس نے اُسے کچھ جواب نہ دیا۔ 10 اِس دوران سردار کاہن اور شریعت کے اُستاد زورشو رسے اُس پر الزام لگاتے رہے۔ 11 پھر ہیرودیسؔ اور اُس کے سپاہی اُس کی بے عزتی کرنے لگے اور اُس کو ٹھٹھّوں میں اُڑاتے ہوئے ایک شاہی لباس پہنایااور پیلاطُسؔ کے پاس واپس بھیج دیا۔ 12 پِیلاطُس اور ہیرودیسؔ جو پہلے ایک دُوسرے کے دُشمن تھے اُس دن دوست بن گئے۔
13 پیلاطُسؔ نے سردارکاہنوں اور پیشواؤںاور عام لوگوں کو جمع کیا۔ 14 اُس نے اپنا یہ فیصلہ سُنایا، ’تُم اِس شخص پر یہ الزام لگا کر میرے پاس لائے کہ یہ لوگوں کو بہکاتا ہے میں نے تمہارے سامنے اِس کی تحقیق کی مگر مُجھے اِس پر لگائے گئے اِلزامات کی کوئی بنیاد نظر نہیں آئی۔ 15 ہیرودیسؔ بھی اِسی نتیجے پر پہنچااِس لئے اُس نے اِسے واپس میرے پاس بھیج دیا۔ اِس شخص نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ اِسے قتل کیا جائے۔ 16 لہٰذا میں اِسے کوڑے لگوا کے چھوڑدیتا ہوں‘ ۔ 17 اُسے ہر عید پر کسی قیدی کو اُن کے لیے رہا کرنا ضرورتھا۔ 18 سب لوگ بڑی آواز میں ایک ساتھ چِلّا ئے، ’اِسے قتل کر اور براباّؔ کو ہماری خاطر چھوڑ دے‘ ۔ 19 برابّاؔ حکومت کے خلاف بغاوت اور خون کے الزام میں قید تھا۔ 20 مگر پیلاطُسؔ نے یسُوعؔ کو چھوڑنے کے ارادہ سے پھر اُن سے بات کرنے کی کوشش کی۔ 21 مگر وہ چِلّا چِلّا کر کہنے لگے، ’اِسے مصلوب کر اِسے مصلوب کر!‘ ۔ 22 اُس نے تیسری بار اُن سے پُوچھا، ’مگر کیوں؟ اِس نے کیا جُرم کیا ہے؟ میںنے اِس میں قتل کے لائق کوئی وجہ نہیں پائی۔ پس میں اِسے پٹوا کی چھوڑ دیتا ہوں‘ ۔ 23 مگر ہجوم اور زور زور سے چلّانے لگااور یسُوعؔ کو مصلوب کرنے کا مطالبہ کرنے لگایہاں تک کہ پِیلاطُسؔ کو اُن کی بات سُننا پڑی۔ 24 لہٰذا پِیلاطُسؔ نے اُن کے مطالبہ کے مطابق یسُوعؔ کو موت کی سزا دی۔ 25 اور برابّاؔ کو جو بغاوت اور خون کے الزام میں قید تھا اُنکے مانگنے پر رہاکردیااور یسُوعؔکو اُن کی مرضی کے مطابق سپاہیوں کے حوالہ کر دیا۔
26 جب سپاہی یسُوعؔ کو لے جا رہے تھے تو راستے میں اُنہوں نے ایک شخص شمعونؔکو پکڑاجواپنے گاؤں کرینےؔسے آرہا تھا اور صلیب اُسکے کندھوں پر رکھ کر یسُوعؔ کے پیچھے چلنے کو کہا۔
27 ایک بڑی بھیڑ اُس کے پیچھے ہولی اُن میں وہ عورتیں بھی تھیں جو غم سے اُس کے لیے رو پیٹ رہیں تھیں۔ 28 یسُوعؔ نے اُن سے کہا: ”اے یروشلیِمؔ کی بیٹیو! میرے لیے مت رو۔ بلکہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے رو۔ 29 ”کیونکہ وہ دن آئیں گے جب کہا جائے گا کہ مبارک ہیں وہ عورتیںجو بانجھ ہیں اور جن کی گود ہری نہیں ہوئی اور جنہوں نے بچوں کو دُودھ نہیں پلایا۔ 30 ”پھر لوگ پہاڑوں سے کہیں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چُھپا لو۔ (ہوسِیعؔ۱۰: ۸) 31 ”اگر ہرے درخت کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو سوکھے درخت کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا جائے گا؟“
32 وہ دو اور مُجرموںکو بھی اُس کے ساتھ قتل کرنے کے لیے لے جارہے تھے۔
33 جب وہ اُس جگہ جسے کھوپڑی ؔکہتے ہیں پہنچے تو یسُوعؔ کو کیلوں کے ساتھ صلیب پر لٹکادیا۔ اور دونوں مجرموں کو بھی ایک کو دہنی اور دُسرے کو بائیں طرف صلیب پر لٹکا دیا۔
34 یسُوعؔ نے کہا: ”اے باپ! اِن کو معاف کرکیونکہ نہیں جانتے کہ کیا کر تے ہیں۔“ اور سپاہیوں نے اُس کے کپڑوں کے حصّے کیے اور اُس پر قُرعہ ڈالا۔ (زبور ۲۲: ۱۶) 35 وہاںلوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے اور سردار ٹھٹھّے مارتے اورکہتے تھے اِس نے اَوروں کو بچایا، اگر یہ مسیِح اور خُدا کا برگزیدہ ہے تو اپنے آپ کو بچائے۔ 36 سپاہی نے بھی اُس کا مذاق اُڑاتے ہوئے پینے کوسرکہ پیش کیا۔ 37 اور اُس سے کہا اگر تُویہودیوں کا بادشاہ ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ 38 اور یسُوعؔ کے سر پر ایک تختی تین زبانوں، یونانی، عبرانی اور لاطینی میں، یہ لکھ کر لگائی ”یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے۔“
39 دو مُجرم جو یسُوعؔ کے ساتھ مصلوب تھے اُن میں سے ایک نے طعنہ دیا۔ کیا تُو مسیِح نہیں؟ اگر تُو مسیح ہے تو اپنے آپ کو اور ہم کوبھی بچا۔ 40 مگر دُوسرے نے اُسے جھڑک کر کہاکہ تُو خُدا سے بھی نہیں ڈرتا جبکہ خود بھی موت کی سزا پا رہا ہے۔ 41 ہم تو اپنے بُرے کاموں کی سزا پا رہے ہیں مگر اِس نے تو کوئی بُرا کام نہیں کیا۔ 42 پھر اُس نے یسُوعؔ سے کہا، ’اے یسُوعؔ! جب تُواپنی بادشاہی میں آئے تو مُجھے یاد کرنا۔ 43 یسُوعؔ نے اُس سے کہا: ”میں تُجھے یقین دلاتا ہوں کہ تُو آج ہی میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔“
یسُوعؔ کی موت:
44 دُوپہرکے قریب اچانک سارے ملک میں اندھیرا چھا گیا اور تیسرے پہر تک چھایا رہا۔
45 اور سورج میں روشنی نہیں رہی۔ اور مَقدِس کا پردہ بیچ سے پھٹ کر دو حصے ہوگیا۔ 46 پھر یسُوعؔ نے بڑی آواز میں چِلّاکر کہا: ”اے باپ! ”میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتاہوں۔“ (زبور۳۱: ۵) اور یہ کہہ کر دَم دے دیا۔ 47 وہاں موجود رومی صُوبہ دار نے یہ سب ہوتے دیکھا تو خُدا کی تمجید کی اور کہا، ’بیشک یہ شخص راستباز تھا۔ 48 اور سب لوگ جو مصلوبیت کو دیکھنے آئے تھے یہ سب کچھ دیکھ کر چھاتی پیٹتے اپنے گھروں کو لوٹے۔ 49 یسُوعؔ کے جاننے والے جن میں وہ عورتیں بھی تھیں جو گلیلؔ سے اُس کی ساتھ تھیں دُورکھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔
یسُوعؔ کی تدفین:
50 ایک شخص جس کا نام یوسف ؔ تھا وہ نیک اور راستباز اور یہودی اعلیٰ عدالت کا رُکن تھا۔
51 مگر وہ دُوسرے پیشوائوںکی اِس صلاح اور کام میں رضامند نہیں تھا۔ وہ ارِمتیہؔ کا باشندہ تھا اور خُدا کی بادشاہی کا منتظر تھا۔ 52 اُس نے پیِلاطُس کی پاس جاکر یسُوعؔ کی لاش مانگی۔ 53 پھر جا کر اُسے صلیب پر سے اُتارا اور ایک باریک سفید کپڑے میں لپیٹا۔ اور چٹان میں کھُدی ایک نئی قبر میں رکھاجس میں پہلے کسی کو رکھانہ گیا تھا۔ 54 وہ سبت کی تیاری کا دن تھا کیونکہ سبت کا دن شروع ہونے والا تھا۔ 55 اُن عورتوں نے جو گلیلؔ سے اُس کے ساتھ آئیں تھیں پیچھے جا کر اُس قبر کو دیکھا جہاں یسُوعؔ کی لاش کورکھا گیا تھا۔ 56 اور گھر واپس آکر لاش کو لگانے کے لیے خُوشبودارچیزیں اور عطر تیار کرنے لگیں۔ مگر سبت کے دن شریعت کے مطابق اُنہوں نے آرام کیا۔