کتاب باب آیت

لُوقا 22

 22

 یہوداہؔ اسکریوتی کا یسُوعؔکو پکڑوانا:

  1 بے خمیری روٹی کی عید جس کوعیدِفسح کہتے ہیں نزدیک تھی۔  2 سردار کاہن اور شریعت کے اُستاداِس موقع کی تلاش میں تھے کہ یسُوع ؔ کو پکڑ کر مارڈالیں مگر لوگوں سے ڈرتے تھے۔

  3 شیطان یہوداہ اسکریوتی میں جو بارہ شاگرد وںمیں سے ایک تھاسما گیا۔  4 وہ جا کر سردا کاہنوں اور ہیکل کے محافظوںسے مشورہ کرنے لگا کہ کس طرح دھوکے کے ساتھ یسُوعؔ کو اُن کے حوالے کرے۔  5 اُنہوں نے اُس کی اِس بات سے خوش ہو کر اُسے روپے دینے کا وعدہ کیا۔  6 یہوداہؔ نے اُن کی پیشکش کو قبول کر کے یسُوعؔ کو بغیر کس ہنگامے کے پکڑوانے کا موقع ڈھونڈنے لگا۔

 آخری فسح:

  7 بے خمیری روٹی کی عیدکا دن آیا جس میں فسح کا برّہ قربان کیا جاتا ہے۔  8 یسُوعؔنے پطرسؔ اور یُوحنّاؔ کو یہ کہہ کر بھیجا:  ”جاؤ اور ہمارے لیے فسح کا کھانا تیار کرو تاکہ ہم مل کر کھانا کھائیں۔“   9 اُنہوںنے پوُچھا کہ کہاںتیار کریں؟  10 اُس نے کہا:  ”جیسے ہی تُم شہر میں داخل ہو گے تُمہیں ایک آدمی پانی کا گھڑا اُٹھائے ہُوئے ملے گااُس کے پیچھے جس گھر میں جائے چلے جانا۔   11  ”اور اُس گھر کے مالک سے کہنا اُستاد نے یہ جاننے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ مہمان خانہ کہاں ہے جہاںمیں شاگردوں کے ساتھ فسح کا کھانا کھاؤں؟   12  ”وہ تُمہیں اُوپر والے کمرے میں جو پہلے سے تیار کیا ہو گا لے جائے گاوہیں کھانا تیار کرنا“ ۔   13 جب وہ شہرمیں گئے توویسا ہی پایا جیسے یسُوعؔ نے کہا تھااور اُنہوں نے وہاں کھانا تیار کیا۔

 عشاء ربانی:

  14 کھانے کے وقت جب یسُوعؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا۔  15 اُس نے اُن سے کہا،  ”میری یہ بڑی آرزو تھی کہ دُکھ اُٹھانے سے پہلے فسح کا کھانا تُمہارے ساتھ کھاؤں۔

  16  ”میں تُم سے کہتا ہوں کہ اِس کو پھر اُس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک اِس کا مقصد آسمان پر پُورا نہ ہوجائے۔“   17 پھر اُس نے انگُور کے شِیرے کا پیالہ لیا اور شُکر کر کے کہا،  ”اِسے آپس میں بانٹ لو۔

  18  ”میں تُم سے کہتا ہوں ا نگُورکا شیرہ پھر نہ پیؤں گاجب تک خُدا کی بادشاہی نہ آ جائے۔“

  19 اُس نے روٹی لی اور خُدا کا شُکر کر کے توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا،  ”یہ میرا بدن ہے جو تُمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔ میری یاد گاری کے لیے ایسا ہی کیا کرو۔“   20 اور کھانے کے بعد ا اُس نے پیالہ لیااور کہا:  ”یہ پیالہ خُدا اور اُس کے لوگوں کے درمیان نیا عہد ہے۔ جومیرے خون سے باندھا گیا جو صلیب پر تُمہارے واسطے بہایا گیا۔   21  ”لیکن مُجھے دھوکے سے پکڑوانے والا بھی اِس میز پرکھانے میں میرے ساتھ شریک ہے۔   22  ”اِبنِ آدم کے لیے توجیسا مقرر ہے ویساہی ہوگا کہ وہ مارا جائے مگر اُس پر افسوس جس کے وسیلے سے وہ پکڑوایاجائے گا۔“   23 شاگرد آپس میں ایک دُوسرے سے پُو چھنے لگے کہ ہم میں سے کون یہ کام کرے گا؟

 آسمان کی بادشاہی میں کون بڑا ہے؟

  24 پھرشاگردوں کے درمیان یہ تکرار ہونے لگی کہ اُن میں سے آسمان کی بادشاہی میںسب سے بڑا کون ہے؟  25 یسُوعؔ نے اُن سے کہا:  ”اِس دُنیا کے بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے اور جتاتے ہیں کہ لوگوں کے خیرخواہ ہیں۔   26  ”مگر تُمہارے درمیان اِیسا نہ ہو۔ جو تُم میں بڑا ہے اپنے آپ کو سب سے چھوٹا جانے اور جو راہنما ہے اپنے آپ کو دُوسروں کا خادم جانے۔   27  ”بڑا کون ہے؟ وہ جو کھانا کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہو؟ یقیناوہ جو کھانا کھانے بیٹھا۔ لیکن میں آپ کے درمیان خدمت کرنے والے کی مانندہوں۔   28  ”مگر تم تومیری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے ہو۔   29  ”جیسے میرے باپ نے مُجھے بادشاہی کرنے کا حق بخشا ہے، میںبھی تُمہیں یہ حق بخشتا ہوں۔   30  ”تاکہ تُم میرے ساتھ میرے بادشاہی میں میری میز پر کھاؤ پِیو اور تختوں پر بیٹھ کر اسرائیلؔ کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو۔“

 پطرس ؔکے انکار کی پیشن گوئی:

  31  ”شمعوُنؔ! شمعُونؔ! شیطان نے تُم میں سے ہر ایک کومانگ لیا ہے کہ گیہوں کی طرح پھٹکے۔   32  ”لیکن شمعوُنؔ! میںنے تیرے لیے دُعا میںدرخواست کی ہے کہ تیرا ایمان جاتا نہ رہے۔ جب تُو توبہ کر کے واپس آئے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرے۔“

  33 پطرسؔ نے کہا، خداوند میں تیرے ساتھ قید ہونے بلکہ مرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔  34 یسُوعؔ نے کہا:  ”پطرسؔ تُو آج صُبح ہی مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تین بار میرا انکار کرے گا کہ مُجھے نہیں جانتا۔“

  35 پھر یسُوعؔ نے کہا:  ”جب میں نے تُمہیں خُوشخبری کی منادی کے لیے بغیر پیسوں اور سفری بیگ اور فالتو جوتوں کے بھیجا۔ کیا تُمہیںکسی چیز کی کمی آئی؟“ اُنہوں نے جواب دیاکہ نہیں!  36 یسُوعؔ نے کہا:  ”مگر اب میں تُمہیں کہتا ہوں۔ اپنے ساتھ پیسے لے لو۔ سفری بیگ بھی لو اور اگر کسی کے پاس تلوار نہیں تو اپنے کپڑے بیچ کر تلوار بھی خریدلو۔   37  ”کیونکہ وقت آگیا ہے کہ وہ نبوت جو میرے لیے کی گئی کہ وہ بدکاروں میں گنا جائے گاپُوری ہو۔ بلکہ باقی سب نبوتیں بھی جو میرے متعلق ہیں پُوری ہوں گی۔“ (یسعیاہؔ۵۳: ۱۲)

  38 شاگردوں نے کہا، خُداوند! ہمارے پاس دو تلواریں ہیں۔ یسو عؔ نے کہا:  ”بہت ہیں۔“

 زیتون کے پہاڑ پر یسُوعؔ کا دُعا کرنا:

  39 یسُوعؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ معمول کے مطابق زیتون کے پہاڑ پر گیا۔  40 وہاں اُس نے شاگردوں سے کہا،  ”دُعا کرتے رہو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو“ ۔  41 وہ اُن سے کچھ ہی دُور گھٹنے ٹیک کریہ دُعا کرنے لگا۔  42  ”اے باپ اگر تُو چاہے تو یہ پیالہ مُجھ سے ٹل سکتا ہے تو بھی میری نہیں بلکہ تیری مرضی پُوری ہو۔“

  43 تب ایک فرشتہ آسمان سے نمودار ہوا جو اُس کو تقویت بخشتا تھا۔  44 وہ نہایت اذیت میںاور بھی زیادہ دل کے بوجھ سے دُعا کرنے لگا۔ اور پسینہ خُون کی بُوندوں کی مانند ٹپکنے لگا۔

  45 دُعا سے اُٹھ کر جب وہ واپس شاگردوں کے پاس آیا تو وہ سب غم کے باعث تھکاوٹ سے سو رہے تھے۔  46 اُس نے اُن سے کہا:  ”تُم کیوں سورہے ہو؟ اُٹھ کر دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔“

 یسُوعؔ کا گرفتار ہونا:

  47 ابھی یسُوعؔ یہ باتیں کرہی رہا تھا کہ ایک بھیِڑوہاں آپہنچی۔ یہوداہؔ جو اُن بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا اُس بھیڑ کے آگے آگے تھا۔ وہ یسُوعؔ کے پاس آیا اور بوسہ دے کر سلام کیا۔  48 یسُوع نے اُس سے کہا:  ”اے یہوداؔہ! کیا تُوبوسہ دے کر ابنِ آدم کو پکڑواتاہے؟“   49 جب دُوسرے شاگردوں کو پتا چل گیا کہ کیا ہونے والاہے تو اُنہوں نے کہا، ’خداوند! کیا ہم اِن سے لڑیں؟ ہمارے پاس دو تلواریں ہیں۔  50 اور اُن میں سے ایک نے سردار کاہن کے نوکر پر تلوار سے وار کر کے اُس کا دہناکان اُڑا دیا۔

  51 یسُوعؔ نے شاگردوں کو روک کر کہا:  ”بس! اِس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا۔“ اور نوکر کے کان کو چُھوا اور وہ اُسی وقت اچھا ہو گیا۔

  52 پھر یسُوعؔ نے سردار کاہنوں اورہیکل کے محافظوں اور بزرگوں سے جو اُس بھیِڑ کے ساتھ تھے پُوچھا،  ”کیا میں کوئی ڈاکو ہوں جسے پکڑنے کے لیے تُم تلواروں اور لاٹھیوں کے ساتھ آئے ہو؟   53  ”تُم نے مُجھے اُس وقت کیوں نہیں پکڑا جب میں ہر روز ہیکل میں موجود ہوتاتھا؟ لیکن یہ تُمہارا وقت ہے جس میںتاریکی کی قوتوں کا راج ہے۔“

 پطرسؔ کا یسُوعؔسے انکار:

  54 اُنہوں نے یسُوعؔ کو پکڑا اورسردار کاہن کے گھر لے گئے۔ پطرسؔ نے کچھ فاصلے سے اُن کا پیچھا کیا۔

  55 جب محافظ صحن کے بیچ آگ جلا کر اُس کے گرد بیٹھے توپطرس ؔبھی اُن کے ساتھ بیٹھ گیا۔  56 ایک نوکرانی نے اُسے بیچ میں بیٹھا دیکھ کر غور سے دیکھنے لگی پھر بولی کہ یہ بھی اُس کے ساتھیوں میں سے ہے۔

  57 مگر پطرسؔ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ تو اُسے جانتا بھی نہیں۔

  58 کچھ ہی دیر بعد کسی اور نے اُسے دیکھ کر کہا، ’تُواُن ہی میں سے ایک ہے۔ پطرسؔ نے جواب میں کہا، ’بھئی! میں اُن میں سے نہیں۔‘  59 تقریباًایک گھنٹے کے بعد کسی اور شخص نے اُسے دیکھ کر اصرار کیا یہ یقینااُن میں سے ایک ہے کیونکہ یہ گلیلیؔ ہے۔

  60 پطرس ؔنے پھر جواب میںکہا، ’بھئی! میںنہیں جانتا تُو کیا کہتا ہے۔ فوراً اُ سی وقت مُرغ نے بانگ دی۔  61 اُس لمحے یسُوعؔ نے مُڑ کر پطرسؔ کی طرف دیکھا۔ اُسے خُداوند کی یہ بات یاد آئی جو اُس نے کہی تھی کہ تُو آج مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تین بار میرا انکار کرے گا۔  62 پطرسؔ باہر جا کر پھُوٹ پُھوٹ کر رویا۔  63 وہ محافظ جو یسُوعؔ کو پکڑے ہوئے تھے اُس کا مذاق اُ ڑانے اور اُسے مارنے لگے۔

  64 اور اُس کی آنکھیں بند کر کے اُسے تھپڑ مارتے اور پُوچھتے نبّوت سے بتا اِس بار تُجھے کس نے مارا؟

  65 اور بھی بہت سے دیگر توہین آمیز طعنوں سے اُس کی توہین کرنے لگے۔

 یسُوعؔ یہودی عدالت میں:

  66 صُبح ہوتے ہی سب بزرگ سردار کاہن اور شریعت کے اُستاد اکٹھے ہوئے اور یسُوعؔ کو اپنی عدالت میں لے جا کرپُوچھنے لگے:  67 ہمیں صاف صاف بتا۔ کیا تُومسیح ہے؟ اُس نے جواب میں کہا:  ”اگر میں تُمہیں بتاؤں کہ میں مسیح ہوںتُم میرا یقین نہ کرو گے۔   68  ”اور اگر میں تُم سے کوئی سوال پُوچھو ں تو تُم جواب نہیں دو گے۔   69  ”مگر اب سے اِبنِ آدم اختیار کے ساتھ قادرِمطلق خُدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا رہے گا۔“   70 یہ سُن کر اُن سب نے چِلّاکر کہا، ’توکیا تُواپنے آپ کو خُدا کابیٹا کہتا ہے؟ ۔ یسُوعؔ نے جواب دیا،  ”تُم خود ہی کہتے ہوکیوں کہ میں ہوں۔“   71 اُنہوں نے کہا کہ اب ہمیں کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں۔ ہم نے خُود اُس کے مُنہ سے سُن لیا ہے۔