یسُوعؔؔ کے اختیار پر سوال:
1 ایک دن جب یسُوعؔ ہیکل میں تعلیم دے رہا تھا اورخوشخبری کی منادی کر رہا تھا تو سردار کاہن اور شریعت کے اُستاد اور بزرگ اُس کے پاس آئے۔ 2 اور پُوچھنے لگے کہ ہمیں بتا۔ تُو یہ سب کام کس اختیار سے کرتا ہے اور تُجھے یہ حق کس نے دیا ہے۔ 3 یسُوعؔ نے جواب میں اُن سے پُوچھا: ”پہلے میں تُم سے ایک بات پُوچھتا ہوں۔ 4 ”مُجھے بتاؤ۔ کیا یو حناؔ کو بپتسمہ دینے کا اختیار آسمان سے ملا تھا یا انسان کی طرف سے تھا۔“ 5 اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم کہیں کہ آسمان کی طرف سے ہے تو وہ کہے گا پھر تُم نے اُس کا یقین کیوںنہیں کیا؟ 6 اور اگرکہیں کہ انسان کی طرف سے تو لوگ ہمیں سنگسار کریں گے کیونکہ اُنہیں یقین ہے کہ یُوحنّاؔنبی تھا۔ 7 پس اُنہوں نے جواب دیا۔ ہم نہیں جانتے۔ 8 یسُوعؔ نے کہا: ”پھر میں بھی نہیں بتاتا کہ یہ کام کس اختیار سے کرتا ہوں۔“
باغ کے شریر مزدور:
9 پھر یسُوعؔ نے لوگوں کو ایک کہانی سُنائی: ”کسی شخص نے انگوروں کا باغ لگایااور اُسے ٹھیکے پر دے کر ایک لمبے عرصے کے لیے پردیس چلاگیا۔ 10 ”جب پھل توڑنے کا وقت آیا تو اپنے ایک نوکرکو باغبانوں کے پاس اپنا حصّہ لینے کے لیے بھیجا۔ لیکن باغبانوں نے اُسے مار پیٹ کر واپس بھیج دیا۔ 11 ”تب اُس نے ایک اورنوکر کو بھیجا۔ اُنہوں نے اُسے بھی پیٹ کر اور بے عزت کر کے خالی ہاتھ لَوٹا دیا۔ 12 ”پھر تیسرے کو بھیجا اُنہوں نے اُس کو بھی زخمی کر کے بھگا دیا۔ 13 ”باغ کے مالک نے سوچا میں کیا کرُوں؟ اُس نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے پیارے بیٹے کو بھیجوں گا۔ شاید اُس کا لحاظ کریں۔ 14 ”جب ٹھکیداروں نے مالک کے بیٹے کو دیکھا تو آپس میںصلاح کی کہ یہ باغ کا وارث ہے۔ آؤ اِسے قتل کر دیںکہ باغ ہمارا ہو جائے۔ 15 ”لہٰذا اُنہوں نے اُسے باغ سے باہر لے جا کر قتل کر دیا۔ اب تُم کیا سمجھتے ہو؟ ما لک اُن کے ساتھ کیا کرے گا؟ 16 ”میں بتاتا ہوں۔ وہ آ کر اُ نہیں قتل کرے گا اور باغ کسی اور کو ٹھیکے پر دے دے گا۔“ سُننے والوں نے کہاخُدا نہ کرے۔ 17 اُس نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا: ”تو پھر کلام میں یہ جو لکھا ہے اِس کا کیا مطلب ہے؟
19 شریعت کے اُستادوں اور سردار کاہن نے چاہا کہ ُاسے پکڑیں کیونکہ وہ سمجھ گئے کہ یسُوعؔ نے شریر باغبانوں کی تمثیل اُن پر کہی ہے۔ مگر لوگوں سے ڈرتے تھے۔
ٹیکس کے بارے میں سوال:
20 قوموں کے سرداروں نے ایک منصوبے کے ساتھ کچھ لوگوں کو بھیجا جو خود کو راستبازظاہر کر کے یسُوعؔ کو اپنی با توں میں اُلجھا کر اُس سے رُومی حکومت کیخلاف کوئی بات کہلوا ئیں اور اُسے پکڑکر حکومت کے حوالہ کریں۔ 21 اُن آدمیوں نے یسُوعؔ کہا، ”اَے اُستاد ہم جانتے ہیں کہ تیری باتیں اورتیری تعلیم سچی ہے اور کو ئی بھی چیز تُجھے خُدا کی سچی راہوں کی تعلیم دینے سے نہیں روک سکتی۔
22 ہمیں یہ بتا! قیصر کو ٹیکس دیناجائز ہے یا نہیں؟“ 23 اُس نے اُن کی مکاری کو جان کرکہا ، ”تُم کیوں میری آزمائش کرتے ہو“ ۔ 24 ”مُجھے رُومی سِکّہ دِکھاؤ۔“ پھراُس نے پُوچھا، ”اِس پرکس کی تصویر اور نام ہے؟“ اُنہوں نے کہا قیصرؔ کا۔ 25 اُس نے جواب دیا۔ ”پس جو قیصرؔ کا ہی قیصرؔ کو دو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو دو۔ 26 وہ اُس کا جواب سُن کر حیرانگی سے خاموش ہو گئے اور اُسے پھنسا نہ سکے۔
مُردوں کی قیامت کے بارے میں سوال:
27 صدُوقی جو مُردوںکے جی اُٹھنے پریقین نہیںرکھتے تھے یسُوعؔ کے پاس آئے اور اُس سے سوال کیا۔ 28 اے اُستاد! موسیٰ ؔکی شریعت کے مطابق اگر کسی کا بھائی بے اَولادمر جائے تو اُس کا بھائی اُس کی بیوی سے بیاہ کر لے اوراَولاد پیدا کرکے اپنے بھائی کی نسل کو قائم رکھے۔ 29 کسی خاندان میں سات بھائی تھے۔ سب سے بڑے نے شادی کی اور بے اَولادمر گیا۔ 30 دُوسرے نمبر پر بھائی نے اُسی کی بیوی سے بیاہ کیاوہ بھی بے اَولادمر گیا۔ 31 پھر تیسرے بھائی نے اُس عورت سے شادی کی۔ اِس طرح ساتوں بھائیوں نے اُس عورت سے شادی کی اور بے اَولادمر گئے۔ 32 بعد میں وہ عورت بھی مر گئی۔ 33 اَب سوال یہ ہے کہ قیامت میںوہ کس کی بیوی ہو گی کیونکہ اُس نے ساتوں بھائیوں سے شادی کی تھی۔ 34 یسُوعؔ نے جواب میں کہا: ”اِس جہاں کے فرزندوں میں شادی اور بیاہ ہوتے ہیں۔ 35 ”مگر اُن میں جو آسمان کی بادشاہی میں شامل ہونے کے لائق ٹھہرتے ہیں جی اُٹھنے کے بعد شادی بیاہ نہیں ہوتے۔ 36 ”نہ ہی وہ پھر مرتے ہیں۔ بلکہ وہ فرشتوں کی مانند ہونگے۔ اور خُدا کے اور قیامت کے فرزند ہوں گے۔ 37 ”رہی یہ بات کہ مُردے جی اُٹھیںگے۔ موسیٰ ؔاِس بات کی تائید کرتا ہے جب وہ خُدا کو ابرہامؔ کا خُدا اضحاقؔ کا خُدا اور یعقوبؔ کا خُدا کہتا ہے۔ 38 ”کیونکہ وہ زندوں کاخُدا ہے نہ کہ مُردوں کا اور یہ سب خُدا کے نزدیک زندہ ہیں۔“
39 وہاں موجود شریعت کے اُستادوں نے کہا، ’اے اُستاد تو نے ٹھیک جواب دیا۔ 40 اُس کی بعد کسی کو یسُوعؔ سے سوال کرنے کی جُرات نہیں ہوئی۔
مسیحِ مَوعود کس کابیٹا ہے؟
41 یسُوعؔ نے لوگوں سے پُوچھا، ”مسیح کوکس طرح داؤدؔ کا بیٹا کہتے ہیں؟ ۔ 42 ”داؤدؔ تو زبور میں آپ کہتا ہے:
45 سب لوگوں کے سُنتے ہوئے یسُوعؔ نے شاگردوں سے کہا: 46 ”شریعت کے اُستادوں سے خبردار رہنا۔ اُنہیںلمبے لمبے چوغے پہن کر پھرنے کا بڑا شوق ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بازاروں میں لوگ اُنہیں جھُک کر سلام کریںاور عبادتوں میں اور دعوتوںپر آگے کی نمایاں کُرسیاں بیٹھنے کو ملیں۔ 47 ”جب کہ وہ بیواؤںکے گھروں کوناانصافی سے لے لیتے ہیں اور دکھاوے کی لمبی لمبی دُعائیں کرتے ہیں۔ اِن کی سزا زیادہ ہو گی۔“