زکائیؔٹیکس لینے والا:~
1 یسُوعؔ یریحًوؔ میں سے گزر کر جا رہا تھا۔ 2 ایک ٹیکس لینے والوں کا سردارجس کا نام زکائیؔ تھا اور بُہت امیر تھا۔ 3 وہ یسُوعؔ کو دیکھنے کی بڑی کوشش کر رہا تھامگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے بھیڑ میں اُسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔
4 وہ راستے میں آگے بھاگ کر ایک جنگلی انجیر کے درخت پر چڑھ گیاجہاں سے یسُوعؔ نے گزرنا تھا۔
5 جب یسُوعؔ درخت کے پاس پہنچا تو اُوپر دیکھ کر اُس کو اُس کے نام سے پُکار کر کہا: ”زکائیؔ! جلدی سے نیچے اُتر آ۔ میں آج تیرے گھر ٹھہروں گا۔“ 6 زکائی ؔ جلدی سے نیچے اُتر کر یسُوعؔ کو خُوشی خُوشی اپنے گھر لے گیا۔
7 لوگ یہ دیکھ کر خفا ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ تو ایک بدنام اور گنہگارکا مہمان بن گیا۔ 8 مگر اُس نے یسُوعؔ کی سامنے کھڑے ہو کر کہا، ’خداوند میں اپنی آدھی دولت غریبوں میں بانٹتا ہوں اور اگر کسی سے ناجائزپیسے لیے ہیں اُس کو چار گُنا زیادہ واپس کرتا ہوں۔ 9 یسُوعؔ نے کہا: ”آج اِس گھرانے میں نجات آئی ہے۔ اِس نے اپنے فیصلوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ ابرہامؔ کاحقیقی بیٹا ہے۔ 10 ”کیونکہ اِبنِ آدم اُنہیں جو گُناہوں سے بھری دُنیا میں کھو گئے ہیں ڈُھونڈنے اور نجات دینے آیاہے۔“
دس اشرفیوں کی تمثیل:
11 یسُوعؔ کی باتیں سُن کراُس وقت وہاں موجود لوگوں کا یہ خیال تھا کہ خُدا کی بادشاہی ابھی شُروع ہو جائے گی کیونکہ وہ یروشلیِم ؔ کے نزدیک تھا۔ اُس نے اِس خیال کو درُست کرنے کے لیے یہ تمثیل کہی:
12 ”ایک نواب دُور کے مُلک گیاکہ وہاں اپنی بادشاہی کی تاج پوشی کے بعد واپس آئے۔ 13 ”جانے سے پہلے اُس نے اپنے دس نوکروں کو بُلایااور ہر ایک کو ایک ایک اشرفی دی اور کہا کہ میرے واپس آنے تک اِس سے میرے لیے کاروبار کرو۔ 14 ”اُس کے شہر کے کچھ لوگ اُس سے نفرت کرتے تھے۔ اُنہوں نے اُس کے پیچھے یہ پیغام بھیجا کہ ہم نہیں چاہتے کہ تو ہم پر حکومت کرے۔
15 ”جب وہ نواب اپنی تاج پُوشی کے بعد واپس آیا تو اُن نوکروں کوجنہیں اشرفیاں دیں تھیں بُلایا تاکہ معلوم کرے کہ اُنہوں نے کاروبار کر کے کیا کمایا ہے۔ 16 ”پہلے نے بتایا، اے مالک! میںنے تیری ایک اشرفی سے دس اشرفیاں اور کمائی ہیں۔ 17 ”مالک نے کہا، ’شاباش اچھے نوکر! چونکہ تُو تھوڑے میں میرے بھروسے کے مطابق دیانتدارنکلاہے میں تُجھے دس شہروں کا حاکم بناتا ہوں۔ 18 ”دُوسرے نے آکر بتایا، ’اے مالک! میں نے تیری اشرفیوں سے پانچ اشرفیاں اور کمائی ہیں۔ 19 ”مالک نے اُس سے کہا، ’شاباش! میں تُجھے پانچ شہروں کا حاکم بناتا ہوں۔ 20 ”لیکن تیسرے نے اشرفی لا کر جو رومال میں بندھی تھی واپس مالک کو دی اور کہا، ’مالک! یہ دیکھ میں نے تیری اشرفی کو سنبھال کر رکھا ہے۔ 21 ”میں نے تُجھ سے ڈرتے ہوئے اِسے کاروبار میں نہیں لگایااِس لیے کہ جانتا تھاکہ تو ایک سخت گیر آدمی ہے۔ جو تیرا نہیں وہ بھی لے لیتا ہے اور جہاں تُو نے نہیں بُویا وہاں سے بھی کاٹ لیتا ہے۔ 22 ”اُس نے غُصًے سے کہا، ’اے شریر نوکر تو اپنی ہی باتوں سے مُجرم ٹھہراجبکہ تُجھے پتا تھا کہ میں سخت گیر ہوں۔ جو میرا نہیں وہ بھی لے لیتا ہوںاور جہاںمیں نے نہیںبُویا وہاں سے کاٹ لیتا ہوں۔ 23 ”تُو نے میرے پیسے بنک میںکیوں نہیں جمع کیے؟ تاکہ میں واپس آکر نفع سمیت اُسے وصوُل کرتا۔ 24 ”تب اُس نے اُن کو جو پاس کھڑے تھے حکم دیا کہ اِس سے یہ اشرفی لے کر اُس نوکر کو دو جس نے دس اشرفیاں کمائیںہیں۔ 25 ”اُنہوں نے کہا، مالک! اُس کے پاس تو پہلے ہی دس اشرفیاں ہیں۔ 26 ”مالک نے کہا جس کے پاس ہے اور اُس نے اُسے اچھے طریقے سے استعمال کیااُسے اور بھی دیا جائے گااور جس نے ایسا نہیں کیااُس سے جو اُس کے پاس تھوڑا ہے وہ بھی لے لیا جائے گا۔
27 ”او ر میرے اُن دُشمنوں کو جنہوں نے مُجھے پیغام بھیجا تھا کہ ہمیں تیری بادشاہی قبوُل نہیں پکڑ کرلاؤ اور میرے سامنے قتل کرو۔“
یروشلیِم میں یسُوعؔ کا شاہانہ داخلہ:
28 اِن باتوں کے بعد یسُوعؔ شاگردوں کے آگے آگے چلتا ہوا یروشلیِم ؔ کی طرف بڑھا۔
29 جب وہ زیتوُن کے پہار پر بیت فگے ؔ اور بیت عنیاہ ؔکے گاؤں کے پاس پہنچا تو اپنے دو شاگردوں کو اپنے آگے بھیجا۔ 30 اور کہا: ”سامنے کے گاؤں میں جاؤ جیسے ہی تُم داخل ہو گے تُم ایک جوان گدھے کو بندھا دیکھو گے جس پر ابھی تک کسی نے سواری نہیں کی۔ اُسے کھول کر میرے پاس لے آؤ۔ 31 ”اگر کوئی تُم سے پُوچھے کہ اِسے کیوں کھولتے ہو؟ توکہنا کہ ُخداوند کو اِس کی ضرورت ہے۔“ 32 جب وہ گئے تو جیسا یسُوعؔ نے کہا تھا ایک جواں گدھے کو وہاں بندھا پایا۔ 33 وہ جب گدھے کوکھول رہے تھے تو اُس کے مالک نے پُوچھا کہ اِسے کیوں کھول رہے ہو؟ 34 اُنہوں نے جواب میں کہا خُداوند کو اِس کی ضرورت ہے۔ 35 وہ گدھے کو کھول کر یسُوعؔ کے پاس لائے اور اُس پر اپنے کپڑے ڈال کر یسُوعؔ کو اُس پر سوار کیا۔ 36 جب وہ راستے میں جارہا تھا تو لوگ اُس کے آگے راستے میں اپنے کپڑے بچھانے لگے۔ 37 جب وہ اُس جگہ پہنچاجہاں راستہ پہاڑ سے نیچے اُترنا شُروع ہوتا ہے تو وہ سب جو اُس کے پیچھے آرہے تھے بلند آواز میں اُن سب مُعجزات کے لیے جو اُنہوں نے دیکھے تھے خُدا کی حمد اور شُکرگزاری کرنے لگے۔ 38 اور بلند آواز سے نعرے لگانے لگے ”مبارک ہے وہ بادشاہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے۔ آسمان پر صُلح (خُدا سے) اور بلندیوں پر اُس کا جلال!“ (زبور۱۱۸: ۲۶) 39 وہاں موجود کچھ فریسوں نے یسُوعؔ سے کہا کہ اپنے شاگردوں کو ڈانٹ کہ اِیسے نعرے نہ لگائیں۔ 40 یسُوعؔ نے جواب میں کہا: ”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ چُپ ہو جائیں گے تو پتھر چِلّا اُٹھیں گے۔“
یسُوع ؔکا یروشلیِم پرؔ رونا:
41 جب وہ یروشلیِمؔ کے نزدیک پہنچا تو اپنے سامنے شہر کو دیکھ کر رویااور کہا: 42 ”کاش! تُوآج کی دن اپنی سلامتی کی باتوں کو سمجھ پاتا مگر اَب بُہت دیر ہو چُکی اور یہ باتیں تُجھ سے چھپا دی گئی ہیں۔ 43 ”کیونکہ وہ دن زیادہ دُور نہیں جب تیرے دُشمن چاروں طرف سے تُجھے گھیر کر اور مورچہ بندی کرکے تُجھے ہر طرح سے تنگ کریں گے۔ 44 ”اور وہ تُجھے تیرے بچوں سمیت زمین پر پٹک دیں گے۔ اوراِس طرح تباہ کریں گے کہ ایک پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گااِس لئے کہ تو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تیرے خُدا نے تُجھ سے ملنا چاہا۔“
ہیکل کی صفائی:
45 پھر وہ ہیکل میں داخل ہو کر قربانی کے جانور بیچنے والوں کو باہر نکالنے لگا۔ 46 اور یہ کہا: ”کتابِ مقدس میں لکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر ہو گا۔ مگر تُم نے اِسے ڈاکوں کا اڈّا بنا رکھا ہے۔“ (یسعیاہؔ ۵۶: ۷) ۔
47 یسُوعؔ ہر روز ہیکل میں تعلیم دینے لگا۔ مگر سردار کاہن اور شریعت کے اُستاد اور قوم کی سردار اُس کو قتل کرنے کی کوشش میں تھے۔ 48 مگر وہ کسی بھی طریقہ سے اُسے پکڑ نہ سکے کیونکہ لوگ ہر وقت اُس کے گرد اُس کی باتیں سُننے کے لیے موجود رہتے تھے۔