ناانصاف جج:
1 یسُوعؔ نے اپنے شاگردوں کویہ سمجھانے کے لیے کہ ہر وقت دُعا کرتے رہنا چاہیے اور مایوس نہیں ہونا چاہیے یہ کہانی سُنائی: 2 ”کسی شہر میں ایک جج تھا۔ جو نہ خُدا سے ڈرتا تھا نہ آدمیوں کی پرواہ کرتا۔ 3 ”اُس شہر میں ایک بیوہ تھی جو انصاف کے لیے بار بار اُس کے پاس جاتی کہ اُسے اُس کے مخالف سے اُس کا حق دلائے۔ 4 ”کچھ عرصہ تک تو جج نے اُس کی کچھ پرواہ نہ کی آخر اُس نے سوچا گو میں نہ خُدا سے ڈرتا ہوں نہ آدمیوں کی پرواہ کرتا ہوں۔ 5 ”چونکہ یہ عورت لگاتار انصاف کے لیے آکر مُجھے تنگ کرتی ہے میں اِس کا انصاف کروں گا ایسا نہ ہو کہ بار بار آ کر یہ میرا جینا مُشکل کر دے۔“ 6 پھر یسُوعؔ نے کہا: ”سنؤاور سیکھو! یہ بے انصاف جج کیا کہتا ہے۔ 7 ”اگر یہ جج اُس عورت کا جواِنصاف کے لیے لگاتار دروازہ کھٹکھٹاتی رہی انصاف دے سکتا ہے توکیا خُدا اپنے چُنے ہوئے لوگوں کا انصاف نہ کرے گا جو رات دن اُس کے حضور دُعا کرتے ہیں؟ کیا اُن کی دُعاوں کے جواب میں دیر لگائے گا۔ 8 ”میں تُم سے کہتا ہوں، وہ جلد جواب دے گا! مگراِبنِ آدم جب واپس آئے گا تو اِس زمین پر کتنے لوگوں میںایسا ایمان پائے گا؟“
فریسی اور ٹیکس لینے والا:
9 یسُوعؔ نے اُن لوگوں کو جو اپنے کاموں کے سبب اپنی راستبازی پر بھروسا رکھتے تھے اور دُوسروں کوناچیز جانتے تھے یہ تمثیل کہی: 10 ”دو شخص ہیکل میں دُعا کرنے گئے اُن میں ایک فریسی تھااور دُوسرا ٹیکس لینے والا۔ 11 ”فریسی نے کھڑے ہو کر یہ دُعا کی، ’اے خُدا! میںتیرا شُکرگُزار ہوں کہ اوروں کی طرح دغاباز، بدکار اور زناکار نہیںنہ ہی اِس ٹیکس لینے والے کی طرح ہوں۔ 12 میںہفتے میںدو دفعہ روزہ رکھتا ہوں اور اپنی آمدنی پر پوری دہ یکی دیتا ہوں۔
13 ”مگر ٹیکس لینے والے نے دُور ہی کھڑے ہو کر دُعا کی اور اپنی آنکھیں بھی آسمان کی طرف اُٹھانے کی جرأت نہیں کی بلکہ اپنی چھاتی پیٹتے ہو ے کہا، ’اے خُدا! مُجھ پر رحم کر میںبڑا گُنہگار ہوں۔
14 ”میں تُم سے کہتا ہوں یہ گُنہگار شخص اُس فریسی کی نِسبت خُدا کی نظر میںراستبازٹھہر کر گھر گیا۔“
یسُوع ؔکاچھو ٹے بچوں کو برکت دینا:
15 ایک دن لوگ اپنے بچوں کو یسُوع ؔ کے پاس لائے تاکہ وہ اُن پر ہاتھ رکھ کر برکت دے تو شاگردوں نے اُنہیں ڈانٹا کہ یسُوعؔ کو پریشان نہ کریں۔ 16 مگر یسُوعؔ نے بچوں کو اپنے پاس بُلایا اور شاگردوں کو کہا:
17 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں جو کوئی آسمان کی بادشاہی کو اِن بچوں کی طرح، (جیسے وہ کسی چیز کو بغیر شک کے خُوشی سے قبول کر لیتے ہیں) قبول نہ کرے اُس میں داخل نہ ہو گا۔“
دولت مند آدمی:
18 کسی سردار نے یسُوعؔ سے یہ سوال کیا، ’اے نیک اُستاد! میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟‘ 19 یسُوعؔ نے اُس سے پُوچھا: ”تُو مُجھے نیک کیوں کہتا ہے؟ سوائے خُدا کے کوئی نیک نہیں۔ 20 ”تُو حکموں کو تو جانتا ہے۔ زِنا نہ کر۔ خون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جُھوٹی گواہی نہ دے۔ اپنے باپ کی اور اپنی ماں کی عزت کر۔“
21 اُس نے جواب دیا، ’میں اِن سب حُکموں پر بچپن ہی سے عمل کر رہا ہوں۔‘ 22 یہ سُن کر یسُوعؔ نے کہا: ”مگرایک کام کی کمی ہے جو تُونے ابھی تک نہیں کیا۔ اپنا سارا مال بیچ کر پیسے غریبوں میں بانٹ دے۔ تُجھے آسمان پر خزانہ ملے گااور آ کر میرے پیچھے چل۔“ 23 یہ سُن کر وہ بُہت پریشان اور غمگین ہوا کیونکہ بُہت امیر تھا۔ 24 یسُوعؔ نے اُسے دیکھا کہ کتنا غمگین ہوا ہے تو کہا: ”دولت مندکا خُداکی با دشاہی میں داخل ہونا کتنا مشکل ہے! 25 ”حقیقت میں اُونٹ کا سوئی کے ناکے میںسے گزر جانا دَولت مند کا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے سے زیادہ آسان ہے۔“ 26 جتنوں نے یہ سُنا پُوچھنے لگے پھر کون خُدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکتا ہے۔ 27 یسُوعؔ نے کہا: ”جو کام اِنسانو ںسے نہیں ہو سکتاوہ خُدا سے ہو سکتا ہے۔“ 28 پطرسؔ نے کہا ہم تو اپنا سب کُچھ چھوڑ کرتیرے پیچھے آئے ہیں۔ 29 یسُوعؔ نے اُسے جواب دیا: ”میں تُجھے یقین دلاتا ہوں کہ جس کسی نے خُدا کی بادشاہی کے لیے اپنے گھریا بیوی یا بھائیوں یا ماں باپ یا بچوں کوچھوڑاہو۔ 30 ”اور اُسے اِس جہان میںکئی گُنا زیادہ نہ ملے اور آنے والے جہان میں ہمیشہ کی زندگی نہ پائے۔ ــ“
تیسری بار یسُوعؔ کا اپنی موت کے بارے ذکر:
31 یسُوعؔ نے شاگردوں کو الگ لے جا کر کہا: ”سنؤ! ہم یروشلیِمؔ کی طرف جا رہے ہیںجہاں نبیوں کی پیشنگوئیاںجو اُنہوں نے اِبنِ آدم کے بارے میں کیں پوری ہو ںگی۔ 32 ”اِبنِ آدم غیرقوموں کے حوالے کیا جائے گا۔ اُس کا مذاق اُڑایا جائے گا۔ اُس کی بے عزتی کی جائے گی اور اُس پر تھوکا جائے گا۔ 33 ”اور اُس کو کوڑے ماریں گے اور اُسے قتل کریں گے پر وہ تیسرے دن پھر جی اُٹھے گا۔“ 34 مگر شا گردوں کو اُس کی ایک بھی بات سمجھ نہ آئی کیونکہ اِن باتوں کو اُن سے پوشیدہ رکھا گیا۔ وہ اِن باتوں کا مطلب نہ سمجھ سکے۔
اندھے فقیر کی شفا:
35 یسُوعؔ جب یریحوؔکے نزدیک پہنچاوہاں سڑک کے کنارے ایک اندھا فقیر بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا۔
36 اُس نے بھیڑ کی آواز جو پاس سے گزر رہی تھی سُنی۔ اُس نے پُوچھا کیا ہو رہا ہے؟ 37 لو گوں نے اُسے بتایا، ’یسُوعؔ ناصری یہاں سے گزر رہا ہے۔“ 38 اُس نے یہ سُنا تو چِلّاکر کہا، ”اے یسُوعؔ ابنِ دؤادمُجھ پر رحم کر!“ 39 جو لوگ بھیڑ کے آگے چل رہے تھے اُنہوں نے اُسے ڈانٹا کہ چُپ رہے مگر وہ اور بھی زور سے چِلّانے لگا، ”اِبنِ داؤدمُجھ پر رحم کر!“
40 جب یسُوعؔ نے اُسے سُناتوکھڑا ہو گیااور حکم دیا کہ اُسے میرے پاس لاؤ۔ جب وہ نزدیک آیا تو اُس سے پُوچھا: 41 ”تُو مُجھ سے کیا چاہتا ہے؟“ اُس نے کہا، ’مُجھے دیکھنے کی قوت مل جائے‘ ۔ 42 یسُوعؔ نے کہا:
”دیکھنے کی قوت پا! جا تیرے ایمان سے تُونے شفاپائی ہے۔“ 43 اُس نے اُسی وقت دیکھنا شُروع کیا۔ اور خُدا کی تمجید کرتاہوا یسُوعؔ کے پیچھے چلنے لگا۔ جنہوں نے یہ سب کچھ دیکھا خُدا کی تمجید کرنے لگے۔