1 ایک د ن یسُوع ؔ نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”ٹھوکروں کا لگنا اور آزمایشوں کا آنا ضروری ہے۔ مگر افسوس اُن پر جن کے باعث یہ ہو۔ 2 ”اُس شخص کے لیے جو اِن چھوٹوں میں سے کسی ایک کو بھی آزمایش میںڈالے یا ٹھوکر کھلائے بہتر ہے کہ اُس کے گلے میں چکی کاپاٹ ڈال کر سمندر میں پھینک دیا جائے۔
3 ”خبردار! اگر تیرا ایماندار بھائی گناہ کرے تو اُس کو ملامت کر۔ اگر توبہ کرے تو معاف کر۔ 4 ”اگرچہ وہ دن میں سات بار بھی تیرا گناہ کرے اور واپس آ کر تُجھ سے معافی مانگے تو اُسے معاف کر۔“
5 شاگردوں نے یسُوعؔ سے کہا، ’ہمیں سِکھا کہ ہم کس طرح اپنا ایمان بڑھا سکتے ہیں۔ 6 یسُوعؔ نے کہا: ”اگر تُم چھوٹے سے رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان رکھتے اور تُوت کے اِس پہاڑ سے کہتے کہ اُکھڑ کر سمندر میں جا لگ تو تمُہاری مانتا۔ 7 ”کیا کوئی مالک اپنے نوکر سے جو کھیت میںکام کر کے یا گلہ بانی کرکے واپس آ ئے کہے گا، ’آ! بیٹھ کر میرے ساتھ کھانا کھا‘ ؟ 8 ”نہیں! بلکہ وہ اُسے حکم دے گا کہ میرے لیے کھانا تیار کر اور جب میں کھا لوں پھر تو بھی کھا لینا۔ 9 ”کیا وہ اپنے نوکر کا شکرگزار ہو گا کیونکہ اُس نے اپنے مالک کے حکم پر عمل کیا؟ یقینا نہیں۔ 10 ”پس اِس طرح تُم بھی جب اُن سب حکموںپر عمل کرچُکوجو میں تُمہیں دیتاہوں تو کہو ’ہم نکمے نوکر ہیں کیونکہ ہم نے بس اپنا فرض پورا کیا۔‘“
دس کوڑھی:
11 یسُوعؔ یروشلیِم ؔ کی طرف اپنا سفر کر تے ہو ئے سامریہؔ اور گلیلؔ کے بیچ سے ہو کر جارہاتھا۔
12 ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت اُسے دس کوڑھی ملے۔ 13 اُنہوں نے دُور سے پُکار کر کہا ”یسُوعؔ! خداوند ہم پر رحم کر۔“
14 یسُوعؔنے اُن کی طرف دیکھ کر کہا: ”جاؤ اور اپنا آپ کاہنوں کو جا کر دکھاؤ۔“ اور جیسے ہی وہ گئے اپنے کوڑھ سے پاک ہو گئے۔“
15 اُن میں سے ایک جب اُ س نے دیکھا کہ شفا پا گیا تو یسُوعؔ کے پاس واپس آکر خُدا کی تمجید کرنے لگا۔ 16 اور یسُوعؔ کے قدموں میں گر کر اُس کا شکر کرنے لگا وہ سامری تھا۔ 17 یسُوعؔ نے پُوچھا: ”کیا دس آدمیوں کو شفا نہیں ملی تھی؟ پھر وہ باقی نو کہاں ہیں؟“ 18 اُن میں سے کوئی بھی خُدا کی تمجیدکرنے واپس نہ آیا سوائے اِس پردیسی کے؟“ 19 اُس نے سامری سے کہا: ”اُٹھ کھڑا ہو اور جا! تُو نے اپنے اِیمان سے شفا پائی۔“
خُدا کی بادشاہی کی آمد:
20 ایک دن فریسیوں نے یسُوعؔ سے پُوچھا کہ خُدا کی بادشاہی کب آئے گی؟ اُس نے جواب دیا: ”خُدا کی بادشاہی اِیسے نہیں آئے گی کہ تُم اُسے دیکھ سکو۔ 21 ”یاتُم کہو کہ دیکھو یہ یہاں ہے یا وہاں ہے۔ کیونکہ خُدا کی بادشاہی تُمہارے درمیان ہے۔“
22 پھر اُس نے شاگردوں سے کہا: ”وہ وقت آئے گا جب تُم ابنِ آدم کے دنوں میں سے ایک دن دیکھنے کی خواہش کرو گے پر نہ دیکھ سکو گے۔ 23 ”اگر لوگ تُم سے کہیں کہ دیکھو ابن آدم یہاں ہے یا ِ ا بنِ آدم وہاں ہے، تو ہرگز اُن کے پیچھے نہ چل پڑنا۔ 24 ”کیونکہ جس طرح بجلی آسمان پر چمکتی اور ایک سرے سے دُوسرے سرے تک نظر آتی ہے اِسی طرح اِبنِ آدم کادن ہو گا۔ 25 ”مگر ضرور ہے کہ ابنِ آدم پہلے بُہت دُکھ اُٹھائے اور اِس زمانہ کے لوگ اُسے رَدّ کریں۔ 26 ”ابنِ آدم کے دن ویسا ہی ہو گا جیسے نوحؔ کے دن ہوا۔ 27 ”لوگ کھانے پینے، ضیافتیں اُڑانے، شادی بیاہ کرنے میں مصروف تھے جب تک کہ نوحؔ کشتی میں سوار نہ ہو گیا اور طوفان نے اُن سب کوہلاک نہ کر دیا۔ 28 ”یا لُوط ؔ کے دنوں میں جب لوگ اپنے روزانہ کے کاموں میں، کھانے پینے میں، خرید و فروخت میں، کھیت لگانے اور مکان بنانے میں مصروف تھے۔ 29 ”اور جس دن لوطؔ سدومؔ سے نکلاآسمان سے آگ اور گند ھک نے برس کراُن سب کو ہلاک نہ کردیا۔ 30 ”ابنِ آدم کے دن بھی سب کچھ اِسی معمول پرچل رہا ہو گا۔ 31 ”اُس دن جو گھر کی چھت پر ہو اپنا سامان سمیٹنے کے لیے نیچے نہ اُترے اور جو کھیت میں ہوگھر واپس نہ لوٹے۔ 32 ”یاد رکھو کہ لُوطؔ کی بیوی کے ساتھ کیا ہوا!
33 ”جو کوئی اپنی جان بچانے کی کوشش کرے گا اُسے کھوئے گا اور جو کوئی اُسے کھوئے گا وہ اُسے بچا لے گا۔ 34 ”میں تُم سے کہتا ہوںاُس رات دو آدمی ایک بستر پر سو رہے ہوں گے ایک لے لیا جائے گا اوردوسراچھوڑ دیا جائے گا۔ 35 ”دوعورتیں ایک ساتھ چکی پیس رہی ہوں گی ایک لے لی جائی گی اور دُوسری چھو ڑ دی جائے گی۔ 36 دوآدمی کھیت میں کام کرتے ہوں گے ایک لے لیا جائے گا دُوسرا چُھوڑ دیاجائے گا۔ ْ 37 تب شاگردوں نے پوُچھا، ’اے خداوندیہ کہاں ہو گا؟ یسُوعؔ نے جواب میںکہا: ”جیسے گِدھوں کا جمع ہونا اِس بات کی نشانی ہے کہ قریب ہی کوئی مُردہ پڑا ہے۔ ویسے ہی آخر ی وقت کے نشان ہیں۔“