چالاک نوکر:
1 یسُوعؔ نے شاگردوں کو ایک کہانی سُنائی: ”ایک امیر شخص نے اپنے معاملات سنبھالنے کے لیے ایک نوکر کو مختار مقرر کیا۔ لوگوں نے اُس کی شکایت کی کہ یہ اپنے مالک کی دَولت اُڑاتا ہے۔ 2 ”مالک نے اُسے بُلا کر پُوچھا، ’میں تیرے بارے میں کیا سُنتا ہوں۔ اپنا حساب کتاب میرے حوالے کر کیونکہ میں تُجھے نوکری سے نکال رہا ہوں۔ 3 ”مختار نے سوچا اَب میں کیا کروں۔ میرے مالک نے مُجھے کام سے نکال دیا ہے اور مُجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ کھدائی کروں۔ بھیک مانگتے ہوئے بھی مُجھے شرم آتی ہے۔ 4 ”اُس نے ایک طریقہ سوچاکہ کس طرح وہ اپنے دوست بنائے کہ جب نوکری سے نکال دیا جائے تو وہ اُسے اپنے گھر میں رہنے کے لیے جگہ دیں۔ 5 ”اُ س نے ہر ایک کو جنہوںنے اُس کے مالک کا قرض دینا تھا بُلایا۔ پہلے سے پُوچھا تُجھ پر کتنا قرضہ ہے۔ 6 ”اُس نے کہا سو من تیل۔ مختار نے اُس سے کہا جلد اپنے کاغذ لا اور اُس پر پچاس من لکھ دے۔ 7 ”پھر دُوسرے سے کہاتُجھ پر کتنا قرضہ ہے؟ اُس نے کہا سو من گیہوُں۔ مُختار نے اُس سے کہا جلد اپنے کاغذلااور اُس پر اَسّی لکھ دے۔
8 ”مالک نے بے ایمان نوکر کی مکّاری اور ہوشیاری کو سراہا کہ کیونکہ جہان کے فرزند اپنے معاملات میں نور کے فرزندوں سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ 9 ”اِس کہانی سے ایک سبق سیکھو: اپنی دُنیاوی دولت دُوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کرو اوراپنے لیے دوست بناؤ کہ جب تمہارا سب کچھ ختم ہو جائے توتُمہارے یہ دوست تُمہیںہمیشہ کے مسکنوں میں جگہ دیں۔ 10 ”جو تھوڑے میں دیانتدار ہے وہ زیادہ میں بھی دیانتدار جو تھوڑے میں بددیانت ہے اُسے کیو ںکر زیادہ دیا جائے گا۔ 11 ”جب تُم دُنیا کی ناراست دولت میں دیانتدار نہیں تو کیونکر تُمہیںحقیقی دولت جو آسمان پر ہے دی جائے گی۔ 12 ”جب دُوسروں کی دولت [دُنیا میں کوئی بھی چیز ہماری نہیں] کے لیے تُم پر بھروسا نہ کیا جائے تو جو تُمہاری اپنی دولت [آسمانی دولت] ہے، اُس کے لیے تُم پر کون بھروسا کرے گا۔ 13 ”کوئی بھی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتایا تو ایک سے محبت کرے گا اور دُوسرے سے عداوت یا ایک سے وفادار رہے گا اور دُوسرے کو دھوکا دے گا۔ تُم دولت کے غلام ہوتے ہوئے خُدا کی خدمت نہیں کر سکتے۔“
14 فریسی جو دولت سے بڑی محبت رکھتے تھے یسُوعؔ کا مذاق اُڑانے لگے۔ 15 یسُوعؔ نے اُن سے کہا: ”تُم آدمیوں کے سامنے اپنے آپ کو راستبازٹھہرانا پسند کرتے ہو مگر خُدا تُمہارے دلوں کو جانتا ہے۔ جو چیز آدمیوں کی نظر میں قابلِ عزت ہے وہ خُدا کی نظر میں نفرت انگیز ہے۔“
16 ”یُوحنا بپتسمہ دینے والے تک شریعت اور نبیوں کا کلام تُمہاری راہنمائی کرتا رہا۔ اَب آسمان کی بادشاہی کی خُوشخبری دی جاتی ہے اور ہر ایک زور مار کر داخل ہوتا ہے۔ 17 ”مگر شریعت کسی بھی طرح اپنی اہمیت میں کم نہیں۔ آسمان اور زمین کا ٹل جانا آسان ہے مگر شریعت میں سے ایک نقطہ بھی تبدیل نہ ہو گا۔ 18 ”جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ کر دُوسری سے شادی کرے زنا کرتا ہے اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ بھی زنا کرتا ہے۔“
امیر آدمی اور لعزرؔ:
19 یسُوعؔ نے یہ کہانی سُنائی: ”ایک شخص تھا جو بُہت امیر تھااور جامنی رنگ کا شاہانہ لباس پہنتا تھا اور عیش وعشرت سے رہتا تھا۔ 20 ”ایک غریب آدمی جس کا نام لعزرؔ تھا اور جس کا سارا جسم ناسوروں سے بھرا ہوا تھا اُس کے دروازے پر پڑا رہتا تھا۔ 21 ”وہ امیرآدمی کے میزسے گرے ٹُکڑے کھا کر اپنا پیٹ بھرنے کا خواہش مندرہتا۔ کُتے اُس کے ناسور چاٹتے تھے۔ 22 ”آخر کارغریب آدمی مر گیا اور فرشتوں نے اُسے اُٹھاکر آسمان پر ابرہامؔ کی گود میں بٹھایا۔ امیر آدمی بھی مر گیا اوردفن ہوا۔ 23 ”وہ پاتال میں پہنچایا گیاجہاں وہ بڑے عذاب میں تھا جب اُس نے آنکھیں اُٹھا ئیں تو دُور سے ابرہام کو ؔدیکھا اور لعزرؔاُس کے ساتھ تھا۔ 24 وہ بلند آواز سے پکارا، ’باپ ابرہام! مُجھ پررحم کر۔ لعزرؔ ؔکو بھیج کہ اپنی اُنگلی کا سرا بھگو کر میری زبان پر لگائے میں یہاںگرمی سے بڑے عذاب میں ہوں۔ 25 ”ابرہامؔ نے جواب دیا، ’بیٹاتُوزندگی میںاچھی چیزیں لے چُکا اورلعزؔر بُری اور اَب وہ یہاں پر آرام سے ہے اور تُوتڑپتا ہے۔ 26 ”پھر ہمارے اور تُمہارے درمیان بڑی کھائی ہے یہاں سے کوئی وہاں نہیں جا سکتا اور وہاں سے کوئی یہاں نہیں آ سکتا۔
27 ”اُس نے ابرہامؔ سے درخواست کی کہ لعزرؔ کو میرے باپ کے گھر بھیج۔ 28 ”میرے پانچ بھائی ہیں میں چاہتا ہوں کہ یہ جا کر اُنہیں خبردار کرے یہ نہ ہو کہ وہ بھی میری طرح اِس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ 29 ”تب ابرہامؔ نے جواب دیا، ’اُن کے پاس موسیٰ ؔ اور دُوسرے نبی ہیں وہ اُن کی کیوں نہیں سُنتے؟ اور اُن کا کلام کیوں نہیں پڑھتے؟ 30 ”اُس نے کہا ’نہیں! باپ ابرہام! ؔ وہ اُن کی نہیں سُنیں گے۔ ہاں اگر مُردوں میں سے کوئی اُن کے پاس جائے تو وہ توبہ کریںگے۔ 31 ”ابرہامؔ نے جواب میں کہا اگر وہ موسیٰ ؔاور نبیوں کی بات نہیں سُنتے تو اگر کوئی یہاں سے بھی جائے گاتواُس کی بھی نہیں سُنیں گے۔“