1 اُس وقت کچھ لوگوں نے جو وہاں موجود تھے یسُوعؔ کو بتایا کہ کس طرح پیلاطُس ؔنے کچھ گلیلیوں کو اُس وقت قتل کیا جب وہ ہیکل میں قربانیاں چڑھا رہے تھے۔ 2 یسُوعؔنے پُوچھا: ”کیا وہ جو قتل ہوئے تُمہارے خیال میں باقی گلیلیوں سے زیادہ گنہگار تھے؟ 3 ”ہرگزنہیں! اگر تُم تُوبہ کر کے خُدا کی طرف نہ پھرے تو اِسی طرح ہلاک ہو گے۔ 4 ”یا وہ اٹھارہ لوگ جو شیلوخؔ کا بُرج گرنے سے ہلاک ہوئے یروشلیِم ؔ کے باقی تمام لوگوں سے زیادہ گنہگار تھے؟ 5 ”نہیں! اگر تُم اپنے گناہوں سے توبہ نہ کرو گے تو اِسی طرح ہلاک ہو گے۔“
اَنجیر کے درخت کی تمثیل:
6 یسُوعؔ نے یہ تمثیل کہی: ”کسی شخص نے اپنے باغ میں ایک اَنجیر کا درخت لگایا۔ ہر بار جب وہ اُس میں پھل ڈُھونڈنے جاتااُسے اُ س پر کوئی پھل نظر نہ آتا۔ 7 ”آخر اُس نے باغ کے مالی سے کہا، ’میں نے تین سال اِس کے پھل کا انتظار کیا۔ اگر یہ پھل نہیں دیتا تو اِسے کاٹ ڈال اِس نے فضول جگہ گھیررکھی ہے۔
8 ”باغ کے مالی نے مالک سے درخواست کی کہ اِسے ایک سال اور رہنے دے میں اِس پر اور محنت کرو ںگا اور کھاد ڈالوں گا۔ 9 ”اگر یہ پھل لایا تو ٹھیک ورنہ اِسے کاٹ ڈالنا۔“
کُبڑی عو رت کی شفا:
10 ایک سبت کے دن یسُوعؔ ایک عبادت خانہ میں تعلیم دے رہا تھا۔ 11 وہاں ایک عورت تھی جسے بدرُوح نے اَٹھارہ سالوں سے کُبڑا کر رکھا تھا۔ اور وہ سیدھی کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔
12 یسُوعؔ نے اُسے اپنے پاس بُلایا اور کہا: ”اَے عورت تُو اپنی بیماری سے شفا پا چُکی۔“ 13 اور یہ کہہ کر اُسے چُھؤا اور وہ عُورت اُسی گھڑی سیدھی کھڑی ہو گئی اور خُدا کی تمجید کرنے لگی۔ 14 عبادت خانے کا سردارشفاکا کام دیکھ کر بُہت ناراض ہوا اور لوگوںسے کہنے لگا، ’شِفاپانے کے لیے ہفتے کے چھ دن ہیں نہ کہ سبت کا دن۔ 15 یسُوعؔ نے اِس پر کہا: ”اے ریاکارو! تُم میں کون ہے جو سبت کے دن کام نہیں کرتا؟ کیاتُم سبت کے دن اپنے بیل یا اپنے گدھے کو پانی پلانے نہیں لے جاتے؟
16 تو کیا اِس عورت کوجو ابرہامؔ کی بیٹی ہے جسے شیطان نے اَٹھارہ برس سے باندھ رکھا ہے سبت کے دن کھولنا جائز نہیں؟“ 17 یسُوعؔ کی باتوں سے اُس کے مخالف شرمندہ ہوئے اور لوگ اُن عالی شان کاموں کو جو وہ کرتا تھا خوش ہوئے۔
رائی کے دانے کی تمثیل:
18 تب یسُوعؔ نے کہا: ”خُدا کی بادشاہی کیا ہے؟ میں اُسے کس چیز سے تشبیہ ُدوں۔ 19 ”وہ رائی کے دانے کی مانند ہے جسے ایک شخص نے بویا اور وہ اُگ کر ایک ایسا بڑا درخت بن گیا جس کی ڈالیوں پر ہوا کے پرندوں نے اپنے گھونسلے بنائے۔“
خمیر کی تمثیل:
20 پھراُس نے کہا: ”اِس کی علاوہ خُدا کی بادشاہی کیا ہے؟ 21 ”یہ اُس خمیر کی مانند ہے جسے ایک عورت نے تھوڑا سا لے کر تین پیمانے آٹے میں ملایا اوراُس سے سارا آٹا خمیر ہو گیا۔“
تنگ دروازہ:
22 یسُوعؔ نے شہرشہر اور گائوںگائوں منادی کرتے ہوئے اپنے سفر کو یروشلیِم کی طرف جاری رکھا۔ 23 کسی نے یسُوعؔ سے پُوچھاکہ اَے خداوند! کیا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے والے تھوڑے ہیں؟ 24 یسُوعؔ نے جواب دیا: ”خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کا دروازہ تنگ ہے۔ بڑی محنت کر تے ہوئے اُس میں سے داخل ہوکیونکہ بہتیرے کوشش کریں گے پر داخل نہ ہو سکیں گے۔ 25 ”وقت ختم ہونے پرجب گھر کا مالک دروازہ بندکر چُکے گا اور تُم باہر کھڑے ہو کر دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے پُکارو گے کہ خُداوند! ہمارے لیے دروازہ کھول تو وہ جواب میں کہے گا میں تُمہیں نہیں جانتا کہ کہاں کے ہو۔ 26 ”یہ سُن کر تُم کہو گے، خداوند ہم نے تیرے ساتھ کھایا اور پیااور تُو نے ہمارے بازاروں میں تعلیم دی۔ 27 ”مگر وہ تُم سے کہے گا میں نہیں جانتا کہ تُم کون ہو اور کہاں سے ہو۔ اَے بدکارو! مُجھ سے دُور ہو جائو۔ 28 ”جب تُم ابرہامؔ، اِضحاقؔؔاور یعقوُبؔ کو اور سب نبیوںکو خُدا کی بادشاہی میں شامل دیکھو گے اور تُم باہر نکال دیے جائو گے تو وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہو گا۔ 29 ”زمین کے چاروں طرف، مشرق، مغرب، شمال اور جنوب سے لوگ آکر خُداکی بادشاہی میں داخل ہوںگے۔ 30 ”وہ جو مقبولیت میں سب سے آخرمیں نظر آتے ہیں اوّل کیے جائیں گے اور جوا وّل سمجھے جاتے ہیں آخر کیے جائیں گے۔“
یروشلیِمؔ پر افسوس:
31 اُس وقت کچھ فریسی یسُوعؔ کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہیرودیس انتیپاّسؔتُجھے قتل کرنا چاہتا ہے اگر تُوزندگی چاہتا ہے تو یہاں سے نکل چل۔ 32 یسُوعؔ نے جواب میں کہا: ”اُس لومڑی سے کہہ دومیں آج اورکل بدرُوحوں کو نکالنے اور بیماروں کو شفادینے کا کام کرتا رہوں گا اورتیسرے دن اپنے مقصد کو پالوںگا۔ 33 ”ہاں! میںآج، کل اور پرسوں اپنا کام کرتارہوں گا کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلیِمؔ سے باہر قتل ہو۔ 34 ”اے یروشلیِم ؔ! اے یروشلیِم! نبیوں کے قاتل اور اُس کے بھیجے ہوؤں کو سنگسار کرنے والے شہر! کتنی بار میں نے چاہا کہ جیسے مُرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے جمع کر لیتی ہے میں بھی تیرے بچوں کو جمع کر لوں مگر تو نے نہ چاہا! 35 ”دیکھو میں تُمہارا گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ تُم مُجھے اُس وقت تک نہ دیکھو گے جب تک تُم خود یہ نہ کہو ’مبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے۔“ (زبور ۱۱۸: ۲۶)