1 اتنے میں ہزاروں کی بھِیڑ جمع ہو گئی اورلوگ ایک د وسرے پر گرے پڑتے تھے۔ یسُوعؔ نے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا: ”فریسیوں کی ریا کاری کے ِخمیرسے ہوشیار رہنا۔ 2 ”کیونکہ وقت آ پہنچا ہے کہ ہر ڈھکی ہوئی چیز کھولی جائے گی، اور ہرراز کی بات جان لی جائے گی۔ 3 ”کیونکہ جو کچھ تُم نے رات کی تاریکی میں کہاہے دن کی روشنی میں سُنایا جائے گااور جو کچھ بند دروازوں کے پیچھے دھیمی آواز میں کہا گیا ہے اُس کی منادی چھتوں پر ہو گی۔ 4 ”دوستو! اُن سے نہ ڈرو جو تمہارے بدن کو قتل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔
5 ”مگر میں تُمہیں بتاتا ہوں کس سے ڈرناچاہیے۔؟ خُدا سے ڈرو جوتُمہیں قتل کرنے کے بعد جہنّم میں ڈال دے گا۔ ہاں خُدا سے ڈرو۔ 6 ”کیا پانچ چڑیاں دو پیسوں کی نہیںبکتیں؟ مگر خُدا اُن میں سے ایک کوبھی نہیں بھُولتا۔ 7 ”تمہاری قیمت تو سب چڑیوں سے بھی زیادہ ہے۔ خُدا نے تو تمہارے سر کے بال بھی گِنے ہوئے ہیں۔ اِس لیے نہ ڈرو۔ 8 ”میں تُمہیں سچ کہتا ہوں جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا اقرار کرے گا اِبنِ آدم بھی خُدا کے فرشتوں کے سامنے اُس کا اقرار کرے گا۔ 9 ”جو کوئی آدمیوں کے سامنے اِس زمین پر میرا انکار کرے گا خُداکے فرشتوں کے سامنے اُن کا اِنکار کیا جائے گا۔ 10 ”جو کوئی ابنِ آدم کے خلاف بات کہے اُسے معاف کیا جائے گا مگر جو کوئی رُوح ا لقُدس کے خلاف کفر بکے اُسے معاف نہ کیا جائے گا۔ 11 ”جب وہ تُمہیں عبادت خانوں میں اورحاکموں اور ر اختیار والوں کے سامنے لے جا کر تمہا ری عدالت کریں تو فکرنہ کرنا کہ کیسے جواب دیں یا کیا کہیں۔ 12 ”کیونکہ رُوح القُدس تُمہیں اُس وقت سکھائے گا کہ تُمہیںکیا کہنا ہے۔“
بے وقوف دولت مند کی تمثیل:~
13 پھر بھیِڑمیں سے ایک آدمی نے یسُوعؔ سے کہا، ”اے اُستاد میرے بھائی کو کہہ کہ ہمارے باپ کی جائیداد میں سے میرا حصّہ مجھے دے۔“ 14 یسُوعؔ نے جواب میں کہا:“ میاں! مجھے کس نے تمہارا مُنصف بنایا کہ اِیسے معاملوں کا انصاف کروں؟“ 15 پھراُس نے سب سے کہا: ”خبردار! تُمہاری زندگی اِس بات پر منحصر نہیں کہ تُمہارے پاس کتنی دولت ہے۔“ 16 پھر یسُوعؔ نے ایک تمثیل کہی: ”ایک امیر آدمی کی زمین پر کثرت سے فصل ہوئی۔ 17 ”وہ اپنے آپ سے کہنے لگاکہ اتنی زیادہ فصل کو رکھنے کے لیے میرے پاس جگہ کم ہے۔ میں کیا کرُوں؟ 18 پھر اُس نے کہاکہ میں اپنے پرُانے گودام جو چھوٹے ہیں گرا کر اُن کی جگہ بڑے گودام بناؤں گااور اور اپنی ساری فصل اُن میں جمع کروں گا۔ 19 ”اور میںآرام سے بیٹھ کر اپنی جان سے کہوں گا، ’اَے میری جان تیرے پاس بُہت سالوں کے لیے بُہت سا مال ہے کھا پی اور خُوش رہ۔ 20 ”مگر خُدا نے اُس سے کہا، ’اے نادان! اگر آج ہی رات تیری جان لے لی جائے تو یہ سب مال جس کے لیے تُونے محنت کی ہے کس کا ہو گا؟“ 21 ”ہر وہ آدمی اِیسا ہی نادان ہے جو اِس دُنیا کا مال جمع کرنے میں لگا رہتا ہے، پر خُدا کے ساتھ تعلق مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے رُوحانی طور پر غریب ہے۔“
خُدا پر بھروسا:
22 پھر اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”میں تُم سے کہتا ہوں کہ روزانہ کی ضروریات کے لیے فکر مندنہ ہو کہ کیا کھائیں گے اورکیا پہنیں گے۔ 23 ”کیونکہ تُمہاری جان کھانے اورتُمہارا بدن پوشاک سے بڑھ کر ہے۔ 24 ”کوّوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیںنہ ہی اناج گوداموں میں جمع کرتے ہِیں تو بھی خُدا اُنہیں کھِلاتا ہے۔ تُمہاری قدر تو اِن پرندوں سے کہیں زیادہ ہے۔ 25 ”کیا تُم فکر کرکے اپنی عُمر میںایک لمحہ بھی بڑھا سکتے ہو؟ 26 ”پس اگر فکر کر کے ایک چھوٹا ساکام نہیں کرسکتے تو بڑی باتوں کے لیے کیوں فکر مند ہوتے ہو؟ 27 ”جنگلی سوسن کے پھولوں کو دیکھو کہ کیسے بڑھتے ہیں وہ اپنی پوشاک کے لیے محنت نہیںکرتے توبھی اُن جیسا لباس سلیمانؔ بادشاہ نے بھی اپنی ساری شان و شوکت کے باوجود نہ پہنا ہو گا۔ 28 ”خُدا اگر میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل جلانے کے لیے آگ میں ڈالی جائے گی اتنا اچھا لباس پہنا سکتا ہے تو کیا وہ تُمہاری فکر نہ کرے گا؟ تُم کیوں ایمان میں کمزور ہو؟ 29 ”لہٰذاکھانے اور پینے کی زیادہ فکر نہ کیا کرواور نہ اِن کے لیے دل میں شک کرو۔ 30 ”دُنیادارلوگ اِن چیزوں کی فکر میں رہتے ہیں۔ مگر تمہارا آسمانی باپ پہلے ہی سے جانتا ہے کہ تُمہیں کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ 31 ”اِن سب چیزوں سے بڑھ کر خُدا کی بادشاہی کی تلاش کروتو تُمہیں سب چیزیں مل جائیں گی۔ 32 ”مت ڈر اَے چھوٹی جماعت! کیونکہ تُمہارِے باپ کے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ تُمہیں بادشاہِی عطا کرے۔ 33 ”اپنا سب کچھ بیچ کر ضرورت مندوں میں بانٹ دو اور اپنے لیے آسمان پر خزانہ اِیسی تھیلیوں میں جمع کرو جو پرانے نہیں ہوتیںاور نہ ہی اُن میں سوراخ ہوتا ہے۔ اُسے چور چُرا نہیں سکتے اور نہ ہی کیڑا اُسے خراب کرتا ہے۔ 34 ”کیونکہ جہاں تیرا خزانہ ہے وہاں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔ 35 ”خدمت کرنے کے لیے تیار رہو اور تُمہارے چراغ جلتے رہیں۔“
چوکس نوکر:
36 ”اِس طرح انتظار کرو جیسے کوئی مالک کے شادی سے واپس لوٹنے کا انتظار کرتا ہے۔ تاکہ جب وہ آ کر دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراًاُس کے واسطے کھولے۔ 37 ”مالک یقیناً اِیسے نوکروں کو واپسی پر انعام دے گا جو جاگتے اور مالک کا انتظار کرتے ہوں گے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ خود اُن کی خدمت کرے گا اور اُن کوکھانا کھلائے گا۔ 38 ”مالک رات کو کسی بھی پہر میں آئے، دوسرے یا تیسرے اور اپنے نوکروں کو تیار پائے وہ اُنہیں انعام دے گا۔ 39 ”اِسے سمجھو! اگر گھر کے مالک کو پتا ہو کہ چور کس وقت آئے گا تو جاگتا رہتااور اپنے گھر میں چوری نہ ہونے دیتا۔ 40 ”تُمہیں بھی ہر وقت تیار رہنا چاہیے کیوں کہ تُمہیں نہیں معلوم کہ ابنِ آدم کب آئے گا۔“
دیانتدار یا بددیانت نوکر:
41 پطرسؔ نے پوچھا اَے خداوند! کیا یہ تمثیلیں صرف ہمارے لیے ہیں یا سب کے لیے؟ 42 خُداوند نے کہا: ”وفادار اور سمجھ دار نوکر وہ ہے جسے مالک جاتے وقت دُوسرے نوکروں کا خیال رکھنے اور وقت پر کھانا دینے کی ذمہ داری دے۔ 43 ”اگر مالک واپس آکر اُسے اِیسا ہی کرتے پائے تو اُسے انعام دے گا۔ 44 ”میں سچ کہتا ہوں، وہ اُسے اپنے سارے مال کا مختاربنائے گا۔ 45 ”لیکن اگر نوکر یہ سمجھ کر کہ مالک اتنی جلد واپس نہیں آئے گا، دُوسرے نوکروں اور لونڈیوں پر ظلم کرنے لگے اور خود کھا پی کر متوالا ہو جائے۔ 46 ”اُس کا مالک اِیسے دن جب وہ انتظار نہ کر رہا ہو اور اُس وقت جب اُس کی سوچ میں بھی نہ ہو آجائے گااور کوڑے لگا کر اُسے بے ایمانوں میں شامل کرے گا۔ 47 ”وہ نوکر جو مالک کی مرضی جاننے کے باوجود تیاری نہیں کرتا اور اُس کی ہدایات پر عمل نہیں کرتا بُہت مار کھائے گا۔ 48 ”اورجس نوکر نے مالک کی مرضی نہ جانتے ہوئے غلط کام کیا اُسے کم مار پڑے گی۔ دراصل جسے زیادہ دیا گیا اُس سے زیادہ طلب کیا جائے گا۔ اور جس پر بھروسا کر کے بُہت زیادہ دیا گیا اُس سے بُہت زیادہ طلب کیا جائے گا۔“
یسُوعؔ رشتوں میں جدائی کا سبب:
49 ”میں زمین پر آگ بھڑکانے آیا ہوں۔ میری کتنی خواہش ہے کہ یہ بھڑک چُکی ہوتی۔ 50 ”لیکن مُجھے دُکھوں کا بپتسمہ لینا ہے اور جب تک لے نہ لوں یہ مُجھ پر بُوجھ رہے گا۔ 51 ”تُم کیا سوچتے ہو کہ میں زمین پرصُلح کرانے آیا ہوں؟ نہیں! بلکہ آدمیوں کی درمیان جُدائی کرانے۔ 52 ”آج کے بعد ایک گھرکے لوگوںکے درمیان اختلاف شُروع ہو جائے گا۔ دو میرے ساتھ اور تین میرے خلاف یا تین میرے ساتھ اور دو میرے خلاف ہوں گے۔ 53 ”باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ ماں بیٹی کے خلاف اور بیٹی ماںکے خلاف۔ ساس بہُو کے خلاف اور بہُو ساس کے خلاف۔
54 پھر اُس نے لوگوں سے کہا: ”جب تُم مغرب سے بادلوں کو اکٹھا ہوتے دیکھتے ہو تو کہتے ہو کہ بارش ہو گی اور اِیساہی ہوتا ہے۔ 55 ”اورجب شمال کی طرف سے ہوا چلتی ہے توکہتے ہو کہ گرم ہوا چلے گی تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ 56 ”اَے ریاکارو! تُم آسمان اور زمین پر نشانات دیکھ کر موسم کی پیشن گوئی کر سکتے ہو مگر زمانے کے نشانوں کی پہچان نہیں کر سکتے۔ 57 ”تُم خُود سے یہ فیصلہ کیوں نہیں کر سکتے کہ صحیح کیا ہے؟
58 ”جب کوئی تُجھے کسی الزام میں پکڑ کر عدالت لے جا رہا ہو تو کوشش کر کہ راستے ہی میں تیری جان چھُوٹ جائے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تُجھے عدالت لے جائے اور عدالت تُجھے قید میں ڈالنے کا حکم کر دے۔ 59 ”اگر ایسا ہوا تو جب تک تو پائی پائی ادا نہ کرے قید سے رہا نہ ہو گا۔“