بد فعلی میں پکڑی گئی عورت:
1 اِس کے بعد یسُوعؔ زیتونؔ کے پہاڑ پر چلا گیا۔ 2 صُبح سویرے ہی یسُوعؔ ہیکل میں پھر واپس آیااور جلد ہی بُہت سے لوگ اُس کے پاس جمع ہو گئے۔ وہ اُنہیں بیٹھ کر تعلیم دینے لگا۔ 3 وہ اُنہیںتعلیم دے رہا تھا کہ فقیہ اور فریسی ایک عورت کو پکڑ کر اُس کے پاس لائے جو بدفعلی کرتے ہوئے پکڑی گئی تھی اور اُسے لوگوں کے بیچ میں کھڑا کر دیا۔ 4 اور یسُوعؔ سے کہا کہ اَے اُستاد! یہ عورت بدفعلی کرتے ہو ئے پکڑی گئی ہے۔ 5 مُوسیٰ ؔکی شریعت میں ایسی عورت کو سنگسار کرنے کو کہا گیا ہے۔ تُو کیا کہتا ہے؟ 6 وہ اِس کوشش میں تھے کہ کسی طرح یسُوعؔ کو اُس کی باتوں میں پھنسا کر اُس کے خلاف استعمال کر سکیں۔ لیکن یسُوعؔ زمین پر بیٹھ کراپنی اُنگلی سے کچھ لکھنے لگا۔ 7 وہ اُس سے جواب مانگتے رہے۔ تب یسُوع ؔنے سر اُٹھا کر اُن سے کہا ، ”تُم میں سے جس نے کبھی گُناہ نہیں کیا و ہی اِس عورت کو پہلا پتھر مارے۔“ 8 اور پھر جُھک کر زمین پر لکھنے لگا۔ 9 سب الزام لگانے والوں یہ سُن کر کیا بڑے کیا چھوٹے وہاں سے چلے گئے۔ صرف یسُوعؔ لوگوں کے درمیان اکیلا رہ گیا اور وہ عورت بھی۔ 10 تب یسُوعؔ نے سیدھا کھڑا ہو کر کہا، ”اَے عورت! تُجھ پر الزام لگانے والے کہاں گئے؟ کیاکسی ایک نے بھی تُجھے مُجرم نہیں ٹھہرایا؟ 11 عورت نے جواب دیا ’نہیں‘ اَے خُداوند! ۔ یسُوعؔ نے اُس سے کہا، ”میں بھی تُجھے مُجرم نہیں ٹھہراتا۔ جا! پھر گُناہ نہ کرنا۔“
یسُوعؔ دُنیا کا نور:
12 یسُوعؔ پھر لوگوں کو تعلیم دینے لگااور کہا، ”میں دُنیا کا نُور ہو ں، جو میرے پیچھے چلتا ہے کبھی اندھیرے میں نہ چلے گابلکہ زندگی کا نُور پائے گا۔“ 13 فریسیوں نے اُسے جواب دیا، تُو تواپنی گواہی خُود ہی دیتا ہے۔ تیری گواہی سچی نہیں۔ 14 یسُوعؔ نے کہا، ”اگرچہ میں اپنی گواہی خُود ہی دتیا ہوں تو بھی میری گواہی سچی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جاتا ہوں۔ لیکن تُم نہیں جانتے کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جاتا ہوں۔ 15 ”تُم دُوسروں کا فیصلہ انسانی معیار سے کرتے ہو۔ میں کسی کا فیصلہ نہیں کرتا۔
16 ”اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ بالکُل درُست ہو گا کیونکہ میں اکیلا نہیںمیرا باپ بھی میرے ساتھ ہے جس نے مُجھے بھیجا۔ 17 ”تُمہاری اپنی شریعت یہ کہتی ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔ (اِستِثنا۱۹: ۱۵) ۔ 18 ”ایک گواہ میں ہوں اور دُوسرا میرا باپ جس نے مُجھے بھیجا ہے۔“ 19 اُنہوں نے پُوچھا کہ تُمہارا باپ کہاں ہے؟ ۔ یسُوع نے جواب دیا، ”تُم نہ مُجھے جانتے ہو نہ میرے باپ کو۔ اگر تُم مُجھے جانتے تو میرے باپ کو بھی جانتے۔“ 20 اُس نے یہ باتیں ہیکل میں تعلیم دیتے وقت اُس جگہ کہیں جہاں ہدیے اور نذرانے جمع کیے جاتے ہیں۔ اور کسی نے اُسے نہیں پکڑا کیونکہ اُس کا وقت نہ آیا تھا۔
21 یسُوعؔ نے پھر کہا، ”میں جاتا ہوں، تُم مُجھے ڈھُونڈو گے مگر اپنے گُناہوں میں مروگے جہاں میں جاتا ہوں تُم وہاں نہیں آسکتے۔“
22 اِس پر یہودی کہنے لگے کیا وہ خُودکشی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ جو کہتا ہے جہاں میں جاتا ہوں تُم نہیں آ سکتے۔ 23 یسُوعؔ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ”تُم نیچے کے ہو میں اُوپر کا ہوں۔ تُمہارا تعلق اِس دُنیا سے ہے میرا تعلق اِس دُنیا سے نہیں۔ 24 ”اِس لیے میں نے کہا کہ تُم اپنے گُناہوں میں مروگے اگر تُم میرا یقین نہیں کرتے کہ ’میں وہی ہوں‘ (خروج ۱۴: ۳) توتُم ضرور مرو گے۔“
25 اُنہوں نے پُوچھاکہ پھر توُ کون ہے؟ ۔ یسُوعؔ نے جواب دیا، ”میں و ہی ہوں جو میں شروع سے بتاتا آیا ہوں۔ 26 ”مُجھے تمہارے بارے میں بُہت کچھ کہنا ہے اورتُمہیں مُجرم ٹھہرناہے۔ لیکن جس نے مُجھے بھیجا ہے وہ سچا ہے اور جو کچھ میں اُس سے سُنتا ہوں و ہی دُنیا سے کہتا ہوں۔“ 27 وہ یہ نہ سمجھے کہ یسُوع ؔ اُنہیں اپنے آسمانی باپ کے بارے میں بتاتا ہے۔ 28 یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”جب تُم اِبنِ آدم کو صلیب پر چڑھاؤ گے تب تُم جانو گے کہ و ہ ’میں ہوں‘ تب تُم جانوگے کہ میں خُود سے کچھ نہیں کرتا اور وہی کہتا ہوں جو باپ مُجھے سِکھاتا ہے 29 ”جس نے مُجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے اُس نے مُجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میں ہمیشہ وہی کرتا ہوں جس سے وہ خُوش ہوتا ہے۔“ 30 یہ باتیں سُن کر بُہت سے لوگ اُس پر ایمان لائے۔
سچائی تُمہیں آزاد کرے گی:
31 یسُوعؔ نے اُن یہودیوں کو جو اُس پر ایمان لائے تھے کہا، ”اگر تُم میری تعلیم پر قائم رہے تو میرے سچے شاگرد ٹھہرو گے۔
32 ”تب تُم سچائی کو جانوگے اور سچائی تُم کو آزاد کرے گی۔“ 33 اُنہوں نے یسُوع کو جواب دیا کہ ہم تو ابرہامؔ کی اَولاد ہیں اور کبھی کسی کی غلامی میں نہیں رہے۔ اِس سے تیرا کیا مطلب ہے کہ ’تُم آزاد کیے جاؤ گے‘ ؟ 34 یسُوعؔ نے اُن کو جواب دیا، ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں جو گُناہ کرتا ہے وہ گُناہ کا غلام ہے۔ 35 ”غلام اپنے مالک کے گھرمیں ہمیشہ نہیں رہتا۔ لیکن بیٹا ہمیشہ اپنے باپ کے گھر میں رہتا ہے۔ 36 ”پس اگر بیٹا تُمہیں آزاد کرے تو تُم واقعی آزاد ہو گے۔ 37 ”میں جانتا ہوں کہ تُم ابرہامؔ کی اَولاد ہوتو بھی تُم میں سے کچھ مُجھے مارنے کی کوشش میں ہیںکیونکہ تُمہارے دلوں میں میرا کلام جگہ نہیں پاتا۔ 38 ”جو کچھ میرے باپ نے مُجھے دکھایا ہے میں وہی کہتا ہوں اور تُم وہی کرتے جو تُمہارے باپ نے تُمہیں بتایاہے۔“ 39 اُنہوں نے کہا، ہماراباپ تو ابرہام ؔ ہے۔ یسؤعؔ نے جواب دیا، ”اگر تُمہارا باپ ابرہامؔ ہو تا تو تُم اُس جیسے کام کرتے۔
40 ”میں تُمہیں و ہی سچائی بتاتا ہوں جو میںنے خُدا سے سُنی اور تُم مُجھے مارنے کی کوشش میں لگے ہو۔ ابرہام ؔ نے کبھی ایسا کام نہیں کیا۔ 41 ”تُم اپنے باپ کے سے کام کرتے ہو“ ۔ تب اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم حرام زادے نہیںہمارا ایک ہی باپ ہے یعنی خُدا۔ 42 یسُوعؔ نے جواب میں کہا، ”اگر خُدا تُمہارا باپ ہوتا تو تُم مُجھ سے محبت رکھتے۔ کیونکہ میں خُدا ہی سے نکل کر آیا ہوں۔ میں اپنے آپ سے نہیں آیا بلکہ اُسی نے مُجھے بھیجا ہے۔ 43 ”تُم میری باتیں کیوں نہیں سمجھتے؟ اِس لیے کہ تُم میری باتیں قبول نہیں کرسکتے۔ 44 ”تُم اپنے باپ ابلیس کی اَولاد ہو اور اُس جیسے کام کرنا پسند کرتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خُونی ہے اور سچائی سے نفرت کرتا ہے بلکہ اُس میں سچائی ہے ہی نہیں۔ وہ ایسے ہی جُھوٹ بولتا ہے جیسا وہ خُود ہے۔ کیونکہ وہ جُھوٹا ہے بلکہ جُھوٹوں کا باپ ہے۔ 45 ”چونکہ میں سچ بولتا ہوں تُم میرا یقین نہیں کرتے۔ 46 ”تُم میں سے کون مُجھ پر گُناہ ثابت کرتا ہے؟ اگر میں سچ بولتا ہوں تو میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟ 47 ”جو کوئی خُدا سے ہے وہ خُدا کی باتیں خُوشی سے سُنتا ہے۔ تُم اِس لیے نہیں سُنتے کیونکہ خُدا سے نہیں۔“ 48 یہودیوں نے جواب میں کہاکہ کیا ہم ٹھیک نہیں کہتے کہ تُوسامری ہے اور تُجھ میں بدرُوح ہے۔ 49 یسُوعؔ نے کہا، ”مُجھ میں تو بدرُوح نہیں لیکن میں اپنے باپ کو عزت دیتا ہوں اور تُم میری بے عزتی کرتے ہو۔
50 ”میں اپنے لیے جلال نہیں چاہتا مگر ایک ہے جو چاہتا ہے کہ مُجھے جلال دے یعنی خُدا اور وہی فیصلہ کرے گا۔ 51 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں جو میری تعلیم پر عمل کرے گا ابد تک کبھی نہیں مرے گا۔“ 52 یہ سُن کر اُنہوں نے کہا کہ اَب ہم جان گئے کہ تُجھ پربدرُوح کا قبضہ ہے۔ ابرہامؔ اور باقی نبی مر گئے اور تُوکہتا ہے جو تیری تعلیم پر عمل کرے گاکبھی نہیں مرے گا۔ 53 کیا تُوہمارا باپ ابرہام ؔ سے بڑا ہے جومر گیا اور نبی بھی مر گئے؟ ۔ تُواپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟ 54 یسُوعؔ نے جواب دیا، ”اگر میں خُود سے اپنی بڑائی کروں تو اُس کی کچھ حقیقت نہیں لیکن میری بڑائی میرا باپ کرتا ہے جسے تُم اپنا خُدا کہتے ہو۔ 55 ”تُم اُسے نہیں جانتے مگر میں جانتا ہوں اگر کہوں کہ میں اُسے نہیں جانتا تو تُم سے بھی بڑا جُھوٹا ہوں گا۔ میں اُسے جانتا ہوں اور اُس کے کلام پر عمل کرتا ہوں۔ 56 ”تُمہارا باپ ابرہامؔ خُوشی سے میرے آنے کا مُنتظر تھاچنانچہ اُس نے دیکھا اور خُوش ہوا۔“
57 اُنہوں نے یسُوعؔ سے کہا کہ تُو ابھی پچاس سال کا بھی نہیں ہواتو پھر تُو نے ابرہام کو کیسے دیکھ لیا؟
58 یسُوعؔ نے اُن کو جواب میں کہا، ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں اِس سے پہلے کہ ابر ہامؔ پیدا ہوا ’میں ہوں۔“ 59 اِس پر اُنہوں نے اُسے مارنے کے لیے پتھر اُٹھائے مگر یسُو ع چھپ کر ہیکل سے نکل گیا۔