کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

یُوحنّا 7

 7

 یسُوع ؔکے بھائی:

  1 اِس کے بعد یسُوعؔ گلیلؔ میں ہی گھُومتا رہا وہ یہودیہ ؔ میں جانا نہ چاہتا تھا کیونکہ یہوُدی اُسے قتل کرنا چاہتے تھے۔  2 یہودیوں ؔ کی عیدِ خیام نزدیک ہی تھی۔  3 تو اُس کے بھائیوں نے اُس سے کہا کہ تُو یہاں سے یہودیہؔ چلا جاجہاں تیرے شاگرد ہیں تاکہ جو مُعجزات توکرتا ہے وہ بھی اُنہیں دیکھیں۔  4 تُو اِس طرح سے چِھپ کرمشہُور نہیں ہو سکتا۔ جب تُو ایسے عجیب کام کر سکتا ہے تو اپنے آپ کو دُنیا پر ظاہر کر۔  5 کیونکہ اُس کے بھائی بھی اُس پر ایمان نہ لائے تھے۔  6 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”ابھی میرے لیے یہ وقت مناسب نہیں مگر تُمہارے لیے ہر وقت مناسب ہے۔   7  ”دُنیا تُمہاری دُشمن نہیں مگر میری دُشمن ہے کیونکہ میں اُن پر اُن کے بُرے کام ظاہر کرتا ہوں۔   8  ”تُم عید منانے جاؤ میں ابھی عید منانے نہیں جارہا کیونکہ ابھی میرا وقت پُورا نہیں ہوا۔“   9 یہ باتیں کہہ کر وہ گلیلؔ میں ہی رہا۔

  10 اِس کے بعد اُس کے بھائی عید منانے چل پڑے۔ یسُوع ؔ بھی گیا مگر چِھپ کر، سب کے سامنے نہیں۔

  11 یہوُدی سردار یسُوع ؔکو عید کے دوران ڈھونڈنے لگے اور پُوچھتے پھرے کہ وہ کہاں ہے؟  12 وہاں موجود لوگ چُپکے چُپکے یسُوع ؔ کے تعلق سے باتیں کرتے رہے۔ کچھ کہتے تھے کہ وہ ایک نیک شخص ہے اور کچھ کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کو گُمرا ہ کرتا ہے۔  13 یہوُدیوں کے ڈر سے کوئی بھی اُس کے حق میں بولنے کی جُرأت نہیں کرتا تھا۔  14 جب عید کے آدھے دِن گُزر گئے تو یسُوعؔ ہیکل میں جا کر تعلیم دینے لگا۔

  15 اُسے سُن کر یہوُدی تعجب کرنے لگے کہ بغیر تعلیم حاصل کیے اِس کے پاس اتنا علم کہاں سے آیا؟  16 یسُوعؔ نے جواب میں اُن سے کہا،  ”میں جو تعلیم دیتا ہوں میری اپنی نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔   17  ”جو کوئی اُس کی مرضی کو پُورا کرنا چاہے وہ جان جائے گا کہ یہ تعلیم خُدا کی طرف سے ہے یا میری اپنی طرف سے۔   18  ”جو اپنی طرف سے بولتا ہے وہ اپنی عزت چاہتا ہے مگر وہ جو اپنے بھیجنے والے کی عزت چاہتا ہے سچ کہتا ہے اور اُس میں کوئی جھوٹ نہیں۔   19  ”مُوسیٰ ؔ نے تُمہیں شریعت دی مگر تُم میں سے کو ئی اُس پر عمل نہیں کرتا۔ تُم مُجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟“   20 لوگوں نے یسوُع ؔ کو جواب دیا کہ تُجھ میں تو بدرُوح ہے۔ کون تیرے قتل کی کوشش میں ہے؟  21 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”میں نے سبت کے دِن ایک مُعجزہ دکھایا او رتُم حیران ہوگئے۔   22  ”مُوسیٰ ؔنے تُمہیںختنے کاحُکم دیا، گو یہ رسم ہمیں باپ دادا سے ملی اور تُم سبت کے دِن اپنے بچوں کا ختنہ کرتے ہو۔   23  ”اگر تُم اپنے لڑکوں کا ختنہ سبت کے دِن کراتے ہو تاکہ شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو۔ تو سبت کے دِن ایک شخص کو شفادینے سے کیوں ناراض ہوتے ہو؟

  24  ”جو نظر آتا ہے اُس کے مطابق فیصلہ نہ کرو بلکہ انصاف کے مطابق فیصلہ کرو۔“

  25 یروشلیِم ؔ کے رہنے والے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ کیا یہ وہی آدمی نہیں جس کے قتل کی کوشش ہو رہی ہے؟  26 لیکن یہاں یہ کھلے عام اپنی باتیں کہتا ہے اور کوئی اُسے نہیں پکڑتا۔ کہیں ہمارے سرداروں نے بھی تواسے مسیح نہیںمان لیا۔  27 کچھ نے کہا، یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ مسیِح جب آئے گا تو کوئی نہیں جانے گا کہ کہاں سے آیا ہے۔ مگر اُسے تو ہم جانتے ہیں کہ کہاں سے ہے۔

  28 یسُوعؔ نے ہیکل میں تعلیم دیتے ہوئے پُکار کر کہا،  ”ہاں! تُم مُجھے جانتے ہو اور یہ بھی کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ مگر میں اپنے طور پر یہاں نہیں آیا لیکن جس نے مُجھے بھیجا ہے وہ سچا ہے پر تُم اُسے نہیں جانتے۔

  29  ”لیکن میں اُسے جانتا ہوںکیونکہ میں اُس کی طرف سے آیا ہوں۔ اُسی نے مُجھے تُمہارے پاس بھیجا ہے۔“   30 تب سرداروں نے اُسے پکڑنے کی کوشش کی۔ چونکہ اُس کا وقت ابھی نہیں آیا تھا اِس لیے اُس پر ہاتھ نہ ڈالا۔  31 ہیکل میں موجود لوگوں میں سے بُہت اُس پر ایمان لائے اور کہنے لگے کہ کیا جب مسیِح آئے گا تو اِن سے زیادہ مُعجزے کرے گا جو اِس شخص نے کئے ہیں۔  32 جب فریسیوں نے یہ سُنا جو لوگ آپس میں کہہ رہے تھے تو سردار کاہنوں اور فریسیوں نے مل کر ہیکل کے محافظوںکو بھیجا کہ یسُوعؔ کو گرفتار کریں۔

  33 یسُوعؔ نے لوگوں سے کہا،  ”میں کچھ دنوں تک تُمہارے ساتھ ہوں پھر میں اپنے بھیجنے والوں کے پاس واپس چلا جاؤں گا۔   34  ”تُم مُجھے ڈھُونڈو گے مگر میں تُمہیں نہیں ملوں گا۔ کیونکہ میں جہاں جاتا ہوں تُم وہاں نہیں آ سکتے۔“   35 یہودی اِس بات سے سوچ میںپڑ کر آپس میں کہنے لگے کہ یہ کہاں جائے گاجہاں ہم اُسے ڈھُونڈ نہ سکیں؟ کیا وہ ملک سے باہر کسی اور ملک میں جائے گا؟ شاید اُن یہودیوںکے پاس جو یُونانؔ میں جا بسے اور یونانیوں کو تعلیم دے گا؟  36 پھر اُس کا کیا مطلب ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ تُم مُجھے ڈھُونڈو گے مگر نہیں پاؤ گے اور جہاں میںجاتا ہوں تُم وہاں نہیں آ سکتے؟ زندگی کے پانی کی ندیاں:

  37 عید کے آخری اور بُہت اہم دن یسُوعؔ کھڑاہو ااورپُکار کر کہا،  ”اگر کو ئی پیاسا ہو تو میرے پاس آئے اور پِئے!   38  ”جو مُجھ پر ایمان لائے، کلامِ مُقدس کے مطابق اُس کے اندر سے زندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہو جائیں گی۔“   39 زندگی کا پانی اُس رُوح کی طرف اشارہ تھاجو اُس پر ایمان لانے و الے پانے کو تھے کیو نکہ پاک رُوح اَب تک نازل نہ ہوا تھااِس لیے کہ یسُوعؔ اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا۔  40 سُننے والوں میں سے کچھ لوگوں نے اقرار کیا کہ بیشک یہی وہ نبی ہے۔  41 کُچھ نے کہا وہ مسیِح ہے۔ کچھ نے کہا یہ ممکن نہیں کیا مسیِح گلیل ؔ سے آئے گا؟  42 کیا کلام مُقدس میں یہ نہیں آیا کہ مسیِح داؤد ؔ کی نسل سے ہو گا، بیت لحمؔ کے ایک گاؤں سے جہاں داؤد پیدا ہوا تھا؟  43 اِس بات پر لو گوں کے درمیان اختلاف تھا۔  44 کُچھ اُسے گرفتار کرنا چاہتے تھے تو بھی اُسے ہاتھ نہ لگایا۔

  45 جب ہیکل کے محافظ یسُوعؔ کو گرفتار کئے بغیر کاہنوں اور فریسیوں کے پاس واپس آئے تو اُنہوں نے اُن سے پُوچھا کہ تُم یسُوعؔ کو پکڑ کر کیو ں نہیں لائے؟  46 محافظوں نے جواب دیا ہم نے کبھی کسی کو ایسا کلام کرتے نہیں سُنا۔  47 فریسیوں نے ٹھٹھّاکرتے ہوئے کہا، کیا تُم بھی اُس کے دھوکے میں آ گئے؟  48 کیا ہم سرداروںاور فریسیوں میں سے بھی کوئی اُس پر ایمان لایا؟  49 مگر ناسمجھ لوگ اُس کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو شریعت سے واقف نہیں۔ یہ لعنتی ہیں۔  50 نیکدُیمُس ؔ ایک سردارجو یسُوعؔ سے مل چُکا تھااُٹھ کر بولا۔  51 کیا ہماری شریعت کے مطابق کسی کو سُنے بغیر مُجرم ٹھہرانا جائز ہے؟  52 اُنہوں نے اُسے جواب دیا کہ کیا تُو بھی گلیلیؔ ہے؟ کلام میں سے دیکھ کہ کوئی نبی گلیلؔ میں سے نہیں آئے گا۔  53 اِس کے بعد سب اُٹھ کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔