کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

یُوحنّا 6

 6

 پانچ ہزار کو کھانا کھلانا:

  1 اِس کے بعد یسُوعؔ گلیلؔ کی جھیل کے پار دُوسری طرف گیا جو تِبریاسؔ کی جھیل کہلاتی ہے۔  2 جہاں کہیں بھی وہ جاتاایک بڑی بھیڑ جو اُس کا پیچھا کرتی تھی کیونکہ وہ اُن مُعجزوں کو دیکھتے تھے جو وہ بیماروں کو شفا دیتے ہوئے دِکھاتا۔  3 پھر یسُوع ؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک پہاڑ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔  4 یہودیوں کی عیدِفسح قریب تھی۔  5 یسُوعؔ نے ایک بڑی بھیڑ کو اپنے پاس آتے دیکھا تو فلپسؔ سے کہا،  ”ہم اتنے لوگوں کے کھانے کے لیے روٹی کہاں سے خریدیں گے؟“   6 یسُوع ؔ نے یہ بات فلپسں ؔ کا امتحان لینے کے لیے کہی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُسے کیا کرنا ہے۔  7 فلپسؔ نے جواب میں کہاکہ اگر ہم دو سو دینارکی روٹیاں بھی خرید لیں تو اِن کے لیے کافی نہ ہو ں گی کہ ہر ایک کو تھوڑی سی مل جائے۔  8 شاگردوں میں سے ایک شاگرد اندریاسؔ نے جو شمعُونؔ کا بھائی تھا بتایا۔  9 کہ یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جَو کی پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں مگر یہ اِتنے لوگوں میں کیا ہیں؟  10 یسُوعؔ نے کہا:  ”لوگوں کو بٹھا دو“ ۔ کیونکہ وہاں بُہت گھاس تھی۔ بیٹھنے والوں میں مردوں کی تعداد پانچ ہزار تھی۔  11 یسُوعؔ نے وہ روٹیاں لے کر شُکر کیا اور توڑ کر بانٹ دیں۔ بعد میں اسی طرح مچھلی لے کر بانٹ دی اور سب نے جتنا چاہا کھایا۔  12 جب سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا تو یسُوعؔ نے اپنے شاگردوں سے کہا،  ”بچے ہوئے ٹُکڑے اکھٹے کرلو تاکہ کچھ ضائع نہ ہوجائے۔“   13 جَو کی پانچ روٹیوں میں سے کھانے کے بعد بچے ہوئے ٹُکڑوں سے بارہ ٹوکریاں بھر گئیں۔  14 جب لوگوں نے یُسوعؔ کو یہ مُعجزہ کرتے دیکھا تو کہہ اُٹھے یہ وہی نبی ہے ہم جس کے انتظار میں تھے۔ (ملاکی ۴: ۱-۶)

  15 یسُوعؔ یہ جان کر کہ لوگ اُسے پکڑ کر اپنا بادشاہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اُن میں سے نکل کر اکیلا پہاڑ پر چلا گیا۔

 یسُوعؔ کاپانی پر چلنا:

  16 اُس دِن شام کے وقت یسُوع ؔ کے شاگرد جھیل کے کنارے یسُوعؔ کا انتظار کرنے لگے۔  17 اندھیرا ہو جانے کے بعد بھی جب یسُوعؔ نہ آیا تو کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے پار کفرؔنحُوم کی طرف چل پڑے۔  18 آندھی کے چلنے سے جھیل میں زوردار موجیں اُٹھنے لگیں۔  19 اُس وقت وہ کنارے سے تین سے چار میل دُور نکل گئے تھے تویسُوعؔ پانی پر چلتا ہوا اُن کے قریب آیا شاگرد یہ دیکھ کر نہایت ڈر گئے۔  20 مگر یسُوعؔ نے پُکار کر کہا،  ”ڈرومت۔ یہ میں ہوں۔“   21 وہ اُسے کشتی پر سوار کرنے کومان گئے اور کشتی فورااُس جگہ جا پُہنچی جہاں وہ جانا چاہتے تھے۔

  22 اگلے دِن جھیل کے دُوسرے کنارے وہ لوگ جویسُوعؔ کے ساتھ تھے جانتے تھے کہ کنارے پر ایک ہی کشتی تھی جس پر شاگرد سوار ہو کر چلے گئے تھے اور یسُوع ؔ اُن کے ساتھ سوار نہیں ہوا تھااور اُس کشتی کے علاوہ کوئی اور دُوسری کشتی وہاں نہیں تھی۔  23 اِسی دوران کچھ چھوٹی کشتیاں تبریاس ؔ سے اُس جگہ کے پاس آکر لگیں جہاں خُداوند یسُوعؔ نے برکت دے کر روٹی لوگوں کو دی تھی۔  24 جب اُنہو ں نے دیکھا کہ نہ تو یسُوعؔ نہ ہی اُس کے شاگرد وہاں ہیں تو وہ اُن چھوٹی کشتیوں پربیٹھ کریسُوع ؔکو ڈھونڈتے کفرِنحوُمؔ آئے۔

 یسُوعؔ زندگی کی روٹی:

  25 یسُوعؔ کو جھیل کی دُوسری طرف پا کراُنہوں نے اُس سے پُوچھااَے ربّی! تُوکب یہاں آیا؟  26 یسُوعؔ نے اُن کو جواب میں کہا،  ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں تُم مُجھے اِس لیے نہیں ڈھونڈ رہے کہ نشانات اور مُعجزوں کو جو تُم دیکھتے ہو سمجھ سکو بلکہ اِس لیے کہ روٹیاں کھا کر پیٹ بھرو۔   27  ”اُس کھانے کے لیے محنت نہ کرو جو جلد خراب ہوجاتا ہے بلکہ اُس کھانے کے لیے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتا ہے جسے اِبنِ آدم تُمہیں دے سکتا ہے کیونکہ باپ نے اُس پر اپنی مُہر کی ہے۔“   28 اِس پر اُنہوں نے اُس سے پُوچھا کہ ہم کیا کریں کہ خُدا کی مرضی کو پُورا کر یں؟  29 یسُوعؔ نے اُنہیں جواب دیا،  ”خُدا تُم سے صرف یہی چاہتا ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاؤ۔“   30 اُنہوں نے یسُوعؔ سے کہا کہ اگر تُو چاہتا ہے کہ ہم تُجھ پر ایمان لائیں تو ہمیں کوئی نشان دِکھا۔ تُو کیا کر سکتا ہے؟

  31 ہمارے باپ دادا نے بیابانی سفر کے دوران من کھایا جیسا کلام میں لکھا ہے، مُوسیٰ ؔ نے اُنہیں آسمان سے کھانے کو روٹی دی۔ (زبور۲۴: ۷۸)  32 یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”میں تُم کوسچ بتاتا ہوں کہ مُوسیٰؔ نے تُمہیں آسمان سے روٹی نہیںدی بلکہ میرے باپ نے وہ روٹی دی۔ اوراَب وہ تُمہیں آسمان سے حقیقی روٹی دیتا ہے۔   33  ”کیونکہ خُدا کی حقیقی روٹی وہ ہے جو آسمان سے اُتر کر دُنیا کو زندگی بخشتی ہے۔“   34 اُنہوں نے اُس سے کہا اَے خُداوند! ہمیں ہر روز یہ روٹی دیا کر۔  35 یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”زندگی کی روٹی میں ہوں جو کوئی میرے پاس آئے گا پھر کبھی بھُوکا نہ رہے گا اور جو مُجھ پر ایمان لائے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا۔   36  ”میرے بتادینے پر تُم نے مُجھے دیکھ لیا ہے تو بھی تُم میرا یقین نہیں کرتے۔   37  ”جس کسی کو باپ مُجھے دیتا ہے میرے پاس آ جائے گا اور جو میرے پاس آئے گا میں اُسے ہرگز نکال نہ دُوں گا۔   38  ”کیونکہ میں آسمان سے اِس لیے نہیں آیا کہ اپنی مرضی پُوری کروں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے مطابق کام کروں۔

  39  ”اور خُدا کی مرضی یہ ہے کہ جنہیں وہ مُجھے دے اُن میں سے کسی کو کھو نہ دُوں، بلکہ آخری دن پھر زندہ کروں۔   40  ”میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ جتنے اُس کے بیٹے کودیکھیںاور اُس پر ایمان لائیں ہمیشہ کی زندگی پائیں اور میں اُنہیں آخری دن پھر زندہ کروں۔“

  41 یہ سُن کر جب اُس نے کہا کہ میں وہی روٹی ہوں جو آسمان پر سے اُتری ہے، یہودی بُڑبُڑانے لگے۔

  42 اور یہ اعتراض کرنے لگے کہ کیا یہ یُوسفؔ کا بیٹا یسُوعؔ نہیں ہے؟ ہم اُس کے ماں باپ کو جانتے ہیں۔ پھر یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں آسمان سے اُترا ہوں؟  43 یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”آپس میں بحث نہ کرو۔

  44  ”کیونکہ کوئی میرے پاس نہیں آسکتا جب تک باپ اُسے میرے پاس کھینچ نہ لائے۔ اور میں آخری دِن اُسے پھر زندہ کروں گا۔   45  ”جیسا کہ نبیوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’وہ خُدا سے تعلیم یافتہ ہوں گے (یسعیاہ ۵۴: ۱۳)  جس کسی نے باپ کو سُنا اور اُس سے تعلیم پائی میرے پاس آتا ہے۔   46  ”کسی نے باپ کو نہیں دیکھاسوائے اُس کے جو خُدا کی طرف سے ہے، اُسی نے باپ کو دیکھا ہے۔   47  ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں جو ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے۔   48  ”زندگی کی روٹی میں ہوں۔   49  ”تُمہارے باپ دادا نے بیابان میں من کھایا اور مر گئے۔   50  ”جو کوئی اِس روٹی میں سے جو آسمان سے اُتری ہے کھاتا ہے کبھی نہیں مرے گا۔   51  ”میں زندگی کی روٹی ہوں جو آسمان سے اُتری ہے۔ جو کوئی اِس روٹی میں سے کھائے گا، ابد تک زندہ رہے گا۔ یہ روٹی میرا گوشت ہے جو میں اِس جہان کی زندگی کے لیے دُوں گا۔“

  52 اِس بات پر یہودی آپس میں جھگڑنے لگے کہ یہ شخص کیسے ہمیں کھانے کو اپنا گوشت دے سکتا ہے۔

  53 یسُوعؔ نے اُن سے کہا:  ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں جب تک تُم اِبنِ آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اُس کا خُون نہ پیوتُم میں ہمیشہ کی زندگی نہیں۔   54  ”جو کوئی میرا گوشت کھاتا اور میرا خُون پیتا ہے اُس میں ہمیشہ کی زندگی ہے اور میں اُسے آخری دِن پھر اُٹھا کھڑا کروں گا۔   55  ”کیونکہ میرا گوشت حقیقت میں کھانے کی اور میرا خُون حقیقت میں پینے کی چیزہے۔   56  ”جو کوئی میرا گوشت کھاتا اور میرا خُون پیتاوہ مُجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اُس میں۔   57  ”میںاپنے آپ میں زندگی رکھتا ہوں کیونکہ میرا باپ زندگی رکھتا ہے جس نے مُجھے بھیجاہے۔ اِسی طرح جومُجھے کھاتا ہے میرے سبب سے زندگی رکھتا ہے۔   58  ”یہی وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُتری ہے جو کوئی اِس روٹی میں سے کھاتا ہے مرے گا نہیں، جیسے تُمہارے باپ دادا نے من کھایا اور مر گئے، بلکہ وہ ابد تک زندہ رہے گا۔“

  59 یہ باتیں یسُوعؔ نے کفرنحُومؔ کے ایک عبادت خانہ میں تعلیم دیتے ہوئے کہیں۔

  60 اُس کے شاگردوں میں سے بُہتوں نے یہ سُن کر کہا کہ یہ کلام بُہت سخت ہے۔ کون ایسا کلام سُن سکتا ہے؟  61 یسُوعؔ نے یہ جان کر کہ وہ اِن باتوں کے لیے آپس میں بُڑبڑا رہے ہیںتو اُس نے اُن سے کہا:  ”کیا تُم اِن باتوں سے ٹھوکرکھاتے ہو؟   62  ”جب تُم اِبنِ آدم کو اُوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا تو پھر کیا ہوگا؟

  63  ”یہ رُوح ہے جو زندہ کرتی ہے جسم سے کچھ فائِدہ نہیں۔ جو باتیں میں نے تُم سے کہیں ہیںوہ رُوح ہیں اور زندگی بھی۔   64  ”مگر تُم میں سے کچھ ایسے ہیں جومُجھ پر ایمان نہیں لائے۔“ کیونکہ یسُوعؔ شروع سے جانتا تھا کہ کون اُس پر ایمان نہیں لاتے اور کون اُس کو پکڑوائے گا۔  65 یسُوعؔ نے پھر اُن سے کہا،  ”اِسی لیے میں نے کہا تھا کہ کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ اُنہیں میرے پاس نہ بھیجے۔“

  66 اِس پر بُہت سے شاگرد اُسے چھوڑ کر چلے گئے۔  67 تب یسُوعؔ نے اُن بارہ شاگردوں کی طرف دیکھ کر کہا،  ”کیا تُم بھی چھوڑ کر جانا چاہتے ہو؟‘   68 شمعوُنؔپطرس نے جواب میں کہا کہ اَے خُداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟ ۔ ہمیشہ کی زندگی کا کلام تو تیرے پاس ہے۔  69 ”ہم ایمان لاتے ہیں اور جان لیا ہے کہ تُو ہی مسیح ہے خُدا کا قدُوس۔“  70 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”کیا میں نے تُم بارہ کو نہیں چُنا؟ مگر تُم میں سے ایک شیطان ہے۔“   71 اُس نے یہ بات شمعوُنؔ اِسکریوتی کے بیٹے یہوداہؔ کے لیے کہی جو اُن بارہ میں سے تھاجو اُسے دھوکے سے پکڑوانے کو تھا۔