بیتِ حسداؔ کا حوض:
1 کچھ دنوں کے بعد یہودیوں کی عید پر یسُوعؔ یروشلیم ؔگیا۔ 2 شہر کے اندر بھیڑوں کے دروازے کے پاس ایک حوض ہے جسے عبرانی میں بیتِ حسدا ؔکہتے ہیں۔ جو پانچ برآمدوں سے گھِرا ہوا تھا۔ 3 اِن برآمدوں میں بُہت سے بیمار لوگ اور اندھے، لنگڑے، مفلو ج پڑے رہتے تھے اور حوض کے پانی کے ہلنے کا انتظار کرتے تھے۔ 4 [کیونکہ خُداوند کا فرشتہ کسی بھی وقت نیچے اُتر کر حوض کا پانی ہلاتا اور جو کوئی سب سے پہلے پانی میں اُتر جاتا شفا پا جاتا بیماری چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہوتی] ۔ 5 اُن میں ایک آدمی اڑتیس سالوں سے مفلوج وہاں پڑا تھا۔ 6 جب یسُوعؔ نے اُس کو وہاں پڑے دیکھا اور یہ جان کر کہ کافی سالوںسے بیمار ہے اُس سے کہا، ”کیا تُو تندرُست ہو نا چاہتا ہے؟“ 7 اُس مفلوج نے یسُوعؔ کو جواب دیا، خُداوند! جب پانی ہلایا جاتا ہے تو کوئی اور مُجھ سے پہلے پانی میں اُتر جاتا ہے کیونکہ کو ئی نہیں جو پانی میں اُترنے میں میری مدد کرے۔ 8 یسُوعؔ نے اُس سے کہا: ”اپنی چارپائی اُٹھا اور چل پھر۔“ 9 اُسی وقت وہ مفلوج شفا پا کر اُٹھ کھڑا ہوا اوراپنی چارپائی اُٹھا کر چلنے لگا۔
10 یہ مُعجزہ سبت کے دن ہوا۔ یہودیوں نے اُس مفلوج سے جو شفا پا گیا تھا، کہنے لگے کہ سبت کے دن چارپائی اُٹھانا شریعت کے خلاف ہے۔ 11 اُس نے اُن کو جواب دیا کہ جس نے مُجھے شفا دی اُسی نے مُجھے چارپائی اُٹھانے کو کہا ہے۔ 12 اُنہوں نے اُس سے پُوچھا کہ وہ کون ہے جس نے تُجھے چارپائی اُٹھانے کو کہا؟ 13 مگر وہ آدمی یسُوعؔکو جانتا نہ تھا کیونکہ یسُوعؔ بھیڑ سے نکل کر آگے چلا گیا تھا۔ 14 مگر بعد میں یسُوعؔ اُسے ہیکل میں ملااور اُس سے کہا: ”دیکھ اَب جبکہ تُو تندرُست ہو گیا ہے توپھر گُناہ نہ کرنا، تاکہ کسی بڑی مصیبت میں نہ پھنس جائے۔“ 15 اُس آدمی نے جا کر یہودیوں کو بتایاکہ جس نے اُسے شفا دی وہ یسُوعؔ ہے۔
16 یہودی یسُوعؔ کواور بھی ستانے لگے کیونکہ وہ سبت کے دِن شفا کا کام کرتا تھا۔ 17 لیکن یسُوعؔ نے اُنہیں جواب میں کہا، ”میرا باپ اَب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں۔“ 18 اِس بات سے یہودی اُس کے سخت مخالف ہو کر مار ڈالنے کی کوشش کرنے لگے کیونکہ وہ نہ صرف سبت کے حُکم کو توڑتا بلکہ خُدا کو اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خُدا کے برابر بناتا تھا۔
19 یسُوعؔ نے اُن سے کہا، ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا اپنے آپ میںکچھ نہیں کر سکتاسوائے اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے، جو کچھ باپ کرتا ہے بیٹا بھی ویسا ہی کرتا ہے۔ 20 ”باپ بیٹے کو پیار کر تا ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے اُسے دکھاتاہے۔ بلکہ وہ اِن کاموں سے بھی بڑے کام جو میں کرتا ہوں دکھائے گا، تب تُم اور بھی حیران ہو گے۔ 21 ”جس طرح باپ مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور زندگی دیتا ہے اِسی طرح بیٹا بھی جسے چاہے زندگی بخشتا ہے۔ 22 ”اور یہ کہ باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کرنے کا کام بیٹے کے سپُرد کیاہے۔ 23 ”تاکہ ہر کوئی بیٹے کی ویسی ہی عزت کرے جیسے باپ کی۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی بھی عزت نہیں کرتا جس نے اُسے بھیجا ہے۔ 24 ”میں تُم سے سچ سچ کہتا ہوں جو کوئی میرا کلام سُنتا اور خُدا پر ایمان لاتا ہے جس نے مُجھے بھیجا ہے۔ ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے۔ اُس پر گُناہوں کی سزا کا حُکم نہیں بلکہ وہ مو ت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ 25 ”میں تُمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ وقت آرہا ہے بلکہ اَب ہے کہ مُردے خُدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ زندہ ہو ںگے۔ 26 ”جیسے باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اسی طرح اُس نے بیٹے کو اپنے آپ میں زندگی رکھنے کی طاقت دی ہے۔ 27 ”اور اُس نے اُسے عدالت کرنے کا بھی اختیار دیا ہے کیونکہ وہ اِبنِ آدم ہے۔ 28 ”اِس بات سے حیران نہ ہو کیونکہ وہ وقت آرہا ہے جب مُردے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور اپنی قبروں میں سے نکل آئیں گے۔ 29 ”جو نیکی کرتے رہے ہمیشہ کی زندگی کے لیے اور جو بدی ہی کرتے رہے سزا کے لیے۔ 30 ”میں اپنے آپ میں کُچھ نہیں کر سکتا جو کچھ باپ سے سُنتا ہوں اُس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں اور میرا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی پُوری کرتا ہوں۔
31 ”اگر میں خُود اپنی گواہی دُو ں تومیری گواہی قابلِ قبُول نہیں۔ 32 ”لیکن ایک اور ہے جو میری گواہی دیتا ہے اور مُجھے یقین ہے کہ وہ جو بھی میرے بارے میں کہتا ہے سچ کہتا ہے۔ 33 ”تُم نے جاننے کے لیے یُوحنّاؔ بپتسمہ دینے والے کے پاس لوگ بھیجے اور اُس نے سچائی کی گواہی دی۔ 34 ”یقینا مُجھے اِس کی ضرورت نہیںکہ کوئی انسان میری گواہی دے مگر میں یہ باتیں اِس لیے کرتا ہوں تاکہ تُم نجات پاؤ۔ 35 ”یُوحنّا ؔؔجلتا ہوا چراغ تھا اور تُم نے اُس کے کلام کو کچھ دیر خُوشی سے قبُول کیا۔ 36 ”لیکن جو گواہی میرے پاس ہے وہ یُوحنّا ؔ ؔ کی گواہی سے بڑی ہے۔ وہ کام جو باپ نے مُجھے کرنے کے لیے بھیجا ہے یعنی میرا کلام اور مُعجزات جو میں کرتا ہوں، میرے گواہ ہیں کہ مُجھے باپ نے بھیجاہے۔ 37 ”اور باپ جس نے مُجھے بھیجا خُود میری گواہی دیتا ہے جس کی آواز تُم نے نہ کبھی سُنی اور نہ ہی اُس کی صُورت دیکھی۔ 38 ”اور تُم اُس کے کلام کو اپنے دل میں جگہ نہیں دیتے اِس لیے کہ تُم میرا یقین نہیں کرتے جسے، باپ نے بھیجا ہے۔ 39 ”تُم پاک کلام کو غورسے پڑھتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ ہمیشہ کی زندگی اِس میں ملتی ہے لیکن یہ کلام میری گواہی دیتا ہے۔ 40 ”تو بھی تُم میرے پاس نہیں آتے تاکہ زندگی پاؤ۔ 41 ”میں آدمیوں سے عزت نہیں چاہتا۔ 42 ”میں جانتا ہوں تُم میں خُدا کی محبت نہیں۔ 43 ”اِس لیے کہ میں اپنے باپ کے نام سے آیا ہوں اور تُم مُجھے قبُول نہیں کرتے۔ اگر کوئی اپنے ہی نام سے آئے تو تُم اُسے قبول کر لو گے۔ 44 ”تُمہارا ایمان نہ لاناحیرانگی کی بات نہیں۔ کیونکہ تُم خُدا سے عزت پانے کے بجائے ایک دُوسرے سے عزت پانا چاہتے ہو۔ 45 ”تو بھی میں تمہاری شکایت باپ کے سامنے نہیں کروں گا کیونکہ تُمہاری شکایت لگانے والا ایک ہے یعنی موسیٰؔ جس پر تُم نے اپنی اُمید لگا رکھی ہے۔ 46 ”اگر تُم حقیقت میںمُوسیٰؔ پر ایمان لاتے تو مُجھ پر بھی ایمان لاتے کیونکہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔ 47 ”اِس لیے اگر تُم اُس کا یقین نہیںکرتے جو اُس نے کہاہے تو میری باتوں کا یقین کیسے کرو گے۔“