کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

یُوحنّا 4

 4

 سامری عورت:

  1 جب خُداوندیسُوع ؔکو پتا چلا کہ فریسیوں نے سُنا ہے کہ یسُوعؔ یُوحنّا ؔ سے زیادہ لوگوں کو بپتسمہ دیتا اور شاگرد بناتا ہے۔  2 [گو یسُوعؔ خُود بپتسمہ نہیں دیتا تھابلکہ اُس کے شاگرد دیتے تھے] ۔  3 تو وہ یہودیہ ؔ کوچھوڑ کر پھر واپس گلیل ؔ چلا گیا۔  4 گلیل ؔسے جاتے ہوئے راستے میں سامریہ ؔسے ہو کر جانا ضرور تھا۔  5 پس وہ سامریہؔ کے شہر سوخارؔ میں آیا۔ یہ اُس جگہ کے قریب تھاجسے یعقوبؔ ؔنے اپنے بیٹے یوسفؔ کو دیا تھا۔  6 یعقُوبؔ کا کُنواں وہیں تھا۔ اور یسُوعؔ تھکا ہوا اُس کُنویں پر بیٹھ گیا۔ یہ دوپہرکا وقت تھا۔  7 سامریہؔ کی ایک عورت کنُویں سے پانی بھرنے آئی۔ یسُوعؔنے اُس سے کہا:  ”مجھے پا نی پلا۔“

  8 وہ اُس وقت اکیلا تھا کیونکہ اُس کے شاگرد کھانا خریدنے گاؤں گئے ہوئے تھے۔  9 وہ عورت بڑی حیران ہو ئی کیونکہ یہودی سامریوںسے کچھ لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ اُس نے یسُوعؔ سے کہا:  ”تُو یہودی ہو کر مُجھ سامری سے پانی مانگتا ہے؟“   10 یسُوعؔ نے عورت سے کہا،  ”اگر تُو خُدا کی بخشش کو جانتی اور یہ کہ تُو کس سے بات کر رہی ہے تُو مُجھ سے مانگتی تو میں تُجھے زندگی کا پانی دیتا۔“   11 عورت نے اُس سے کہا، خُداوندتیرے پاس پانی بھرنے کا برتن نہیں اور کنواں بُہت گہرا ہے تیرے پاس زندگی کاپانی کہاں سے آیا؟  12 کیا تُو ہمارے باپ یعقوب ؔ سے بڑا ہے؟ جس نے یہ کنواں ہمیں دیا اور خُود اُس نے اور اُس کے جانوروں نے بھی اِس سے پیا۔  13 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ’ ’جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہوگا۔  14  ”مگر جو پانی میں پینے کو دُوں گا اُسے پی کر کوئی پھر پیاسا نہ ہو گا بلکہ اُس کے اندر پانی کا چشمہ جاری ہو جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی تک جاری رہے گا۔“   15 عورت نے کہا خُداوند یہ پانی مُجھے دے تاکہ نہ میں پیاسی ہوں اور نہ پانی بھرنے کے لیے اِس کنویں پر آؤں۔  16 یسُوعؔ نے عور ت سے کہا،  ”جا اپنے شوہر کو بُلا لا۔“   17 عورت نے جواب دیا، میرا کوئی شوہر نہیں۔ یسُوع ؔ نے اُس سے کہا،  ”تُوسچ کہتی ہے تیرا کوئی شوہر نہیں۔   18  ”کیونکہ تُوپانچ شوہر کر چُکی ہے اور جس کے ساتھ تُورہ رہی ہے وہ تیرا شوہر نہیں۔ تُونے جو کچھ کہا سچ ہے۔“   19 عورت نے اُس سے کہا خُداوند! تُو ضرور کوئی نبی ہے۔  20 تُم یہودی کہتے ہو کہ جس جگہ عبادت کرنی چاہیے وہ یروشلیم ؔ ہے جبکہ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر عبادت کی ہے۔  21 یسُوعؔ نے اُسے جواب میں کہا،  ”اے عورت! میرا یقین کر۔ وہ وقت آتا ہے جب تُم نہ تو اِس پہاڑ پر نہ یروشلیمؔ میں عبادت کروگے۔   22  ”تُم جس کی پرستش کرتے ہو اُسے نہیں جانتے اور ہم جس کی پرستش کرتے ہیں اُسے جانتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں سے ہے۔   23  ”لیکن وہ وقت آتا ہے بلکہ آچُکا ہے کہ سچے پرستار رُوح اور سچائی سے باپ کی پرستش کریں گے۔ باپ ایسے ہی پرستش کرنے والوں کو ڈھونڈتا ہے۔   24  ”خُدارُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچائی سے پرستش کریں۔“   25 عورت نے اُس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسِیح جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتادے گا۔  26 یسُوعؔ نے اُسے بتایا،  ”میں و ہی ہوں جو تُجھ سے باتیں کر رہا ہوں۔“

  27 اُسی وقت اُس کے شاگرد آ گئے اور یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ وہ ایک عورت سے باتیںکررہا ہے اور کسی نے اُس سے پُوچھنے کی جُرات نہیں کی کہ تُوکیا چاہتاہے؟ یا تُواِس عورت سے کیوں باتیں کرتا ہے؟

  28 عورت اپنا مٹکا وہیں کُنوئیں پر چھوڑ کر بھاگی گاؤں اور لوگوں سے کہنے لگی۔  29 آؤ میں تُمہیں ایک آدمی دکھاتی ہو ں جس نے مُجھے میری ساری باتیں بتا دیں جو میں نے کیں۔ ممکن ہے وہی مسِیح ہو؟  30 لوگ گاؤں سے نکل کر یسُوعؔ کو دیکھنے آئے۔  31 اُسی دوران شاگرد یسُوعؔ سے کہنے لگے اُستاد کھانا کھا لے۔  32 لیکن یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”میرے پاس کھانے کو ایسا کھانا ہے جسے تُم نہیں جانتے۔“   33 شاگردوں نے ایک دُوسرے سے پوچھا کہ جب ہم گئے ہو ئے تھے کیا کسی نے اُسے کھانے کو دیا؟  34 یسُوعؔ نے کہا،  ”میرا کھانا یہ ہے کہ میں اپنے بھیجنے والے کی مرضی پُورا کروںاور اُس کے کام کو پُورا کروں۔   35  ”کیا تُم بیج بونے کے بعد نہیں کہتے کہ فصل تیارہونے میںچار ماہ باقی ہیں۔ لیکن میں تُم سے کہتا ہوں کہ فصل پک کرکٹنے کے لیے تیار ہے اپنے اِردگر دیکھ۔   36  ”جو رُوحوں کی تیار فصل کو کاٹتا ہے اپنی مزدوری پاتا ہے۔ اُن کاپھل وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ کی زندگی میں داخل کئے جاتے ہیںتاکہ بونے والے اور کاٹنے والے مل کر خُوشی منائیں۔   37  ”اِس طرح یہ کہنا سچ ثابت ہواکہ بونے والا اور ہے اور کاٹنے والا اور ہے۔   38  ”میں تُمہیں اُس فصل کی کٹائی کے لیے بھیجتا ہوں جو تُم نے نہیں بوئی بلکہ اَوروں نے بیج بویاتاکہ اُن کی محنت کے پھل میں شریک ہو سکو۔“

  39 اُس گاؤں کے بُہت سے سامری یسُوع ؔپر ایمان لائے کیونکہ اُس عورت نے یہ گواہی دی تھی کہ اِس نے میرے سارے کام بتا دیے ہیں۔  40 وہ جب یسُوعؔ کے پاس آئے تو اُس کی مِنّت کی کہ ہمارے پاس رہے لہٰذا وہ دو دن اُن کے ساتھ رہا۔  41 اُس کی باتیں سُن کر اور بھی بُہت سے لوگ اُس پر ایمان لائے۔  42 ا ور اُنہوں نے اُس عورت سے کہا کہ اَ ب ہم صرف تیری گواہی سُن کر ہی نہیںبلکہ جو کچھ خُود ہم نے سُنا ایمان لائے ہیں۔ اَب ہم جان گئے ہیں کہ یہی دُنیا کا نجات دہندہ ہے۔

 ایک افسر کے بیٹے کی شفا:

  43 دو دِن کے بعد یسُوعؔ وہاں سے روانہ ہو کر گلیل ؔ میں آیا۔  44 یسُوعؔ پہلے ہی یہ گواہی دے چُکا تھا کہ نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا۔  45 مگر اِس دفعہ گلیلیو ں ؔ نے اُسے بڑی خُوشی سے قبُول کیا کیونکہ عیدِفسح کے دِنوں میں یسُوعؔ نے جو کچھ یروشلیم ؔ میں کیا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا تھاکیونکہ وہ خُود وہاں موجود تھے۔  46 وہ دُوسری مرتبہ قانایِ گلیلؔ آیاجہاں اُس نے پانی کو مے میں تبدیل کیا تھا۔ وہاں ایک شاہی افسر تھا، جس کا بیٹا بیمار تھا، وہ کفرِنحوم ؔ میں تھا۔  47 اُس نے سُنا کہ یسُوعؔیہودیہ ؔ سے گلیلؔ آیا ہے تو اُس کے پاس جا کر مِنّت کی کہ چل کر میرے بیٹے کو شفا دے جو مرنے کو ہے۔  48 یسُوعؔ نے اُس سے کہا،  ”جب تک تُم لوگ معجزات نہ دیکھ لو ایمان نہ لاؤ گے۔“   49 افسر نے فریاد کی کہ خُداوند میرے ساتھ چل ایسا نہ ہو کہ میرا بیٹا مر جائے۔  50 یسُوعؔ نے اُس سے کہا،  ”جا! تیرا بیٹا جیتا رہے گا“ ۔ اُس نے یسُوعؔکی بات کا یقین کیا اور چلا گیا۔  51 وہ راستے ہی میں تھا کہ اُس کے نوکر وں نے اُسے خبر دی کہ تیرا بیٹا جیتا ہے۔  52 اُس نے اپنے نوکروں سے پُوچھا اُس نے کس وقت شفا پائی؟ ۔ اُنہوں نے جواب دیا کل تقریباً ساتویں گھنٹے اُس کا بخار اُتر گیا۔  53 لڑکے کے باپ کو یاد آیا کہ یہ وہی وقت تھا جب یسُوعؔ نے کہا تھا کہ  ”تیرا بیٹا جیتا ہے۔“   54 یہ دُوسرا مُعجزہ تھا جو یسُوعؔ نے یہودیہ ؔ سے آنے کے بعد گلیلؔ میں دکھایا۔