نیکُدیمُس:
1 ایک فریسی نیکُدیمُسؔ نام جویہودیوں کا سردارتھا۔ 2 ایک رات وہ یسُوع ؔکے پاس آ کر اُس سے کہنے لگا کہ اَے اُستاد! ہم سب جانتے ہیں کہ تو اُستاد ہے اور خُدا کی طرف سے آیا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسے مُعجزے نہیں دکھا سکتا جب تک خُدا اُس کے ساتھ نہ ہو۔
3 یسُوعؔ نے اُس سے کہا، ”میں تُجھ سے سچ کہتا ہوں، جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔“
4 نیکُدیمُسؔ نے حیرانگی سے پُوچھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا آدمی جب بُوڑھا ہو جائے تو ایک بار پھر پیدا ہونے کے لیے اپنی ماں کے پیٹ میں داخل ہو گا؟ 5 یسُوعؔ نے جواب دیا، ”میںتُجھے یقین دلاتاہوں کہ جب تک کوئی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو خُدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ 6 ”جو جسم سے پیدا ہوتا ہے وہ جسم ہے جو رُوح سے پیدا ہوتا ہے وہ رُوح ہے۔ 7 ”میری اِس بات سے حیران نہ ہو جو میں نے کہا کہ تُجھے نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔ 8 ”ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے تو اُس کی آواز سُنتا تو ہے مگر نہیں جانتا کہ کہاں سے آتی ہے اور کہاں جاتی ہے۔ اِسی طرح رُوح سے پیدا ہونے والے کے بارے میں نہیں جان سکتے۔“
9 نیکُدیمُسؔ نے پُوچھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ 10 یسُوعؔ نے جواب میں کہا، ”تُو یہودیوں کا اُستاد ہے پھر بھی تواِن باتوں کی سمجھ نہیں رکھتا؟“ 11 ”میں تُجھ سے سچ کہتا ہوں ہم جو کچھ جانتے ہیں وہی کہتے ہیں اور جو کچھ دیکھ چُکے اُس کی گواہی دیتے ہیںپھر بھی تُم ہماری گواہی کو نہیں مانتے۔ 12 ”جب میں نے تُم سے زمین کی باتیں کیں اور تُم نے نہیں مانیںتو اگر میں آسمان کر باتیں کروں گا تو تُم کیسے یقین کرو گے؟ 13 ”کوئی انسان آسمان پر نہیں چڑھا سوائے ابن آدم کے جو آسمان سے اُترا ہے۔ جو آسمان پر ہے۔
14 ”اور جس طرح سے مُوسیٰؔ نے بیابان میں سانپ کو اُونچے پر چڑھایا ضرور ہے کہ ابن آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے۔
15 ”تاکہ جو کو ئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔
16 ”کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اپنا اِکلوتا بیٹابخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ 17 ”خُدا نے اپنے بیٹے کو دُنیا میں اِس لیے نہیں بھیجا کہ دُنیا پرسزاکا حُکم دے بلکہ اِس لیے کہ دُنیا اُس کے وسیلے سے نجات پائے۔ 18 ”جو اُس پر ایمان لاتا ہے اُن پر سزا کا حکم نہیں اور جو ایمان نہیں لاتا اُس پر سزا کا حُکم ہو چُکاکیونکہ وہ خُدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا۔ 19 ”اُن پر سزا کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے خُدا کے نُورکو جب دُنیا میں آیا پسند نہ کیا بلکہ تاریکی کو پسند کیا کیونکہ اُن کے کام بُرے تھے۔ 20 ”جو بُرے کام کرتے ہیں نُور سے نفرت کرتے ہیں اور نُور کے نزدیک نہیں آتے تاکہ اُن کے بُرے کام ظاہر نہ ہو جائیں۔ 21 ”مگر وہ جو سچائی پر چلتے ہیںوہ نُور کے پاس آتے ہیں تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اُن کے کام خُدا کی مرضی کے مطابق ہیں۔“
یُوحنّا ؔبپتسمہ دینے والے کایسُوعؔ کی گواہی دینا:
22 اِن باتوں کے بعد یسُوعؔ اور اُس کے شاگردیہودیہ ؔ گئے وہ وہاں کچھ دیر رہ کر بپتسمہ دینے لگے۔ 23 یُوحنّاؔ بھی عینونؔمیںجو شالیمؔ کے نزدیک تھا، بپتسمہ دیتا تھا۔ وہاں پانی بُہت ہونے کی وجہ سے لوگ بپتسمہ لینے وہاںآتے تھے۔ 24 اُس وقت تک یُوحنّاؔ کو قید میں نہیں ڈالا گیا تھا۔
25 ایک دِن یُوحنّا ؔکے شاگردوں اور کچھ یہودیوں میں پاک ہونے کے لیے رسمی غُسل پر بحث ہوئی۔
26 یُوحنّا ؔ کے شاگرد اُس کے پاس آ کر کہنے لگے، ربّی! جو شخص دریایِ یردنؔ کے پار تُجھ سے ملا جس کی گواہی تُو نے دی تھی کہ وہ مسیح ہے۔ وہ بھی لوگوں کو بپتسمہ دیتا ہے اور سب لوگ اُس کے پاس جاتے ہیں۔ 27 یُوحنّا ؔ نے جواب میں کہا، ”انسان کچھ نہیں پا سکتا جب تک خُدا نہ چاہے۔“ 28 ”تُم خُود میرے گواہ ہو کہ میں نے بڑے صاف طور پر یہ بتایا ہے کہ میں مسِیح نہیں مگر اُس کے آگے بھیجا گیا ہُوں۔ 29 ”جس کی دُلہن ہے وہی دُلہا ہے مگر دُلہے کا دوست دُلہے کے پاس کھڑا ہو کر اُس کی آواز سُنتا اور بُہت خُوش ہے۔ اِسی طرح میری بھی یہ خُوشی پُوری ہو گئی۔ 30 ”ضرور ہے کہ وہ بڑھے اور میںگھٹوُں۔“
31 ”وہ جو اُوپر سے آتا ہے سب سے اُونچاہے۔ جو زمین سے ہے وہ زمین ہی کی کہتا ہے۔ مگر جو آسمان سے آتا ہے وہ سب سے اُونچا ہے۔ 32 ”جو کچھ اُس نے سُنا اور دیکھا اُسی کی گواہی دیتا ہے اور کوئی اُس کی گواہی کا یقین نہیں کرتا۔ 33 ”جس کسی نے اُس کی گواہی کا یقین کیا اُس نے تصدیق کی کہ خُدا سچا ہے۔
34 ”جس کو خُدا نے بھیجا وہ خُدا ہی کی باتیں کہتا ہے کیونکہ خُدا اُسے رُوح ناپ کر نہیں دیا۔ 35 ”باپ بیٹے سے پیار کرتا ہے اور اُس نے سب چیزیں اُس کے حوالے کر دی ہیں۔ 36 ”جو خُدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے اور وہ جو بیٹے پر ایمان نہیں لاتا زندگی کو نہ دیکھے گابلکہ اُس پر خُدا کا غضب رہتا ہے۔“