1 تب پیلاطُسؔ نے یسُوع ؔ کو کوڑے لگوانے کے لیے سپاہیوں کے حوالے کیا۔ 2 سپاہیوں نے کانٹوں کاایک تاج بنا کر یسُوعؔ کے سر پر رکھااور جامنی رنگ کا لباس پہنادیا۔ 3 وہ باری باری اُس کے سامنے جھُک کرمذاق میںکہتے ’اَے یہُودیوں کے بادشاہ! آداب!‘ اور اُس کے مُنہ پر تھپڑ مارتے۔ 4 پیلاطُسؔ پھر واپس جا کر یہُودیوں سے کہنے لگاکہ میں اُسے ابھی تُمہارے پاس لاتا ہوں، مگر یہ جان لو کہ میں نے اُس میں کچھ جُرم نہیں پایا۔ 5 تب یسُوعؔ کانٹوں کا تاج پہنے اور جامنی رنگ کا لباس پہنے باہر آیا۔
6 یسُوعؔ کو دیکھتے ہی یہُودی سردار اور ہیکل کے محافظ چِلّا چِلّاکر پُکارنے لگے، اِسے مصلُوب کر! اِسے مصلُوب کر! پیلاطُسؔ نے اُنہیں جواب دیا اِسے خُود ہی لے جا کرمصلُوب کرو۔ میں اِس میں کچھ جُرم نہیں پاتا۔ 7 یہُودیوں نے اُسے جواب دیا کہ ہماری شریعت کے مطابق یہ شخص قتل کے لائق ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا کہتا ہے۔ 8 یہ سُن کر پیلاطُسؔ اور بھی خُوف زدہ ہو گیا۔ 9 وہ واپس قلعہ میں جا کر یسُوعؔ سے پُوچھنے لگا، تو کہاں کا ہے؟ مگر یسُوعؔ نے کوئی جواب نہ دیا۔ 10 پیلاطُس ؔنے اُس سے کہا تو کیوں نہیں بُولتا؟ کیا تُجھے پتا ہے کہ میرے پاس تُجھے چھوڑ دینے کااور مصلُوب کرنے کا بھی اختیار ہے۔ 11 یسُوعؔ نے اُسے جواب دیا، ”تیرا مُجھ پر کوئی اختیار نہ ہوتا اگر تُجھے یہ اختیار اُوپرسے نہ دیا جاتا۔ پس جس نے مُجھے تیرے حوالہ کیا اُس کا گُناہ تُجھ سے بڑا ہے۔ 12 اِس پر پیلاطُسؔ نے یسُوعؔ کو چھوڑ دینے کی پُوری کوشش کی مگر یہُودی سرداروں نے اُس سے کہا، اگر تو اِس شخص کو رہا کرتا ہے تو شہنشاہ قیصر کا وفادار نہیںکیونکہ جو بھی بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرے وہ قیصر کا مخالف ہے۔ 13 یہ سُن کر وہ یسُوعؔ کو اُن کے پاس باہر لایا اور خُود تختِ عدالت پر جو ایک پتھر کے چبُوترہ پر تھا، بیٹھ گیا۔ 14 یہ فسح کی تیاری کا دن تھا اور شام ہونے والی تھی۔ پیلاطُس ؔنے یہودیوں سے کہا، یہ رہا تُمہارا بادشاہ۔ 15 وہ چلِّائے اِسے لے جا! اِسے لے جا! اور مصلوب کر۔ پیلاطُسؔ نے اُن سے کہا، کیا میں تُمہارے بادشاہ کو مصلُوب کروں؟ سردار کاہنوں نے جواب دیا قیصر کے سوائے ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔ 16 اِس پر اُس نے یسُوعؔ کو اُن کے حوالے کیا کہ مصلُوب کیا جائے۔
یسُوعؔ کا مصلُوب کیا جانا:
17 یسُوعؔ اپنی صلیب کو خُود اُٹھا کر کھوپڑی کے مقام کی طرف چل پڑا۔ جسے عبرانی میں گُلگُتا ؔ کہتے ہیں۔ 18 وہاں اُنہوں نے اُسے دو اور لوگوں کے سا تھ اُن کے درمیان مصلُوب کیا گیا۔ 19 پیلاطُسؔ نے ایک تختی اُس کے سر کے اُوپر صلیب پر لگا دی جس پر لکھا تھا ’یسُوع ناصری یہُودیوں کا بادشاہ‘ ۔ 20 یسُوع ؔ جہاں مصلوب کیا گیا وہ جگہ شہر کے نزدیک تھی۔ اِس تختی کو بُہت سے یہُودیوں نے پڑھا کیونکہ وہ عبرانی، یونانی اور لاطینی زبان میں لکھا ہوا تھا۔ 21 یہُودیوں کے سردار کاہنوں نے پیلاطُسؔ سے کہا کہ ’یہودیوں کا بادشاہ نہ لکھ بلکہ یہ لکھ کہ ’اُس نے کہا میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں‘ ۔ 22 پیلاطُسؔ نے اُنہیں جواب دیا کہ جو کچھ میں نے لکھ دیا وہ لکھ دیا۔ 23 یسُوعؔ کو مصلُوب کرنے کے بعد سپاہوں نے اُس کے کپڑوں کے چار حصّے کر کے آپس میں بانٹ لیے اور اُس کا چوغہ جو بُنا ہوا تھا اور اُس میں کوئی سلائی نہیں تھی۔ 24 جس کے لیے سپاہیوں نے فیصلہ کیا کہ اس کو پھاڑانہ جائے بلکہ اِس پر قرعہ ڈالیں۔ یوں کلام کی یہ بات پُوری ہوئی جیسا کہ لکھا ہے:
”اُنہوں نے میرے کپڑے بانٹ لیے اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالا۔“ (زبور ۲۲: ۱۵)
25 یسُوعؔ کی ماں مریمؔ اور اُس کی بہن، کلوپاسؔ کی بیوی اور مریم ؔمگدلینیؔ یسُوعؔ کی صلیب کے پاس ہی کھڑے تھیں۔ 26 یسُوعؔ نے اپنی ماں مریم ؔ اور اُس شاگرد کوجسے وہ پیار کرتا تھا اپنے پاس کھڑے دیکھا تو اُس نے اپنی ماں سے کہا، ”اَے عورت! یہ تیرا بیٹا ہے۔“ 27 پھر اُس نے اپنے شاگرد سے کہا۔ ”دیکھ! یہ تیری ماں ہے۔“ وہ شاگرد مریمؔ کو اپنے گھر لے گیا۔
یسُوعؔ کا مرنا:
28 جب یسُوعؔ نے یہ جان لیا کہ اُس نے وہ کام جواُسے سونپا گیا مکمل کر لیا ہے اور لکھا ہوا کلام پُورا ہواتو کہا، ”میں پیاسا ہوں۔“
29 قریب ہی سرکے سے بھرا ہوا ایک برتن پڑا تھا اُنہوں نے ایک سپنج سرکہ میں بھگو کر اُسے زوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے ہونٹوں کو لگایا۔ 30 یسُوعؔ نے سرکہ چکھ کر کہا، ”تمام ہوا“ اور سر جُھکا کر جان دے دی۔ 31 یہ دن فسح کی تیاری کا دن تھا اور اگلے دن خاص سبت کا دن تھا اور یہُودی سردار نہیں چاہتے تھے کہ سبت کے دن لاشیںصلیب پر لٹکی رہیں اِس لیے اُنہوں نے پیلاطُس ؔسے درخواست کی کہ اُن کی ٹانگیں توڑ کر لاشیں صلیب سے اُتار لی جائیں۔ 32 سپاہیوں نے آ کراُن دو آدمیوں کی ٹانگیں توڑ یں جو یسُوعؔ کے ساتھ مصلُوب کئے گے تھے۔ 33 جب اُنہوں نے یسُوعؔ کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چُکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ 34 ایک سپاہی نے اُس کی پسلی کو بھالے سے چھید ا تو فوراً خون اور پانی بہہ نکلا۔ 35 اِن باتوں کی گواہی دینے والے نے اپنی آنکھوں سے یہ ہوتے دیکھا ہے اور اُس کی گواہی سچی ہے تاکہ تُم ایمان لاؤ۔ 36 اِس طرح لکھا ہوا کلام پُورا ہواجیسا لکھا ہے: ’اُس کی ایک بھی ہڈی توڑی نہ جائے گی‘ (زبور۳۴: ۲۰)
37 اور یہ بھی کہ: ’جسے اُنہوں نے چھیدا وہ اُس پر نظر کریں گے‘ ۔ (زکریاہؔ۱۲: ۱۰)
یسُوعؔ کا دفن کیا جانا:
38 اِس کے بعدیوسفؔ نے جو ارمتیہؔ کا رہنے والا تھا خفیہ طور پر یسُوعؔ کا شاگرد بھی تھا، پیلاطُس ؔ کے پاس جا کر یسُوعؔ کی لاش مانگی۔ پیلاطُسؔ کی اجازت ملنے پر وہ آکر اُس کی لاش لے گیا۔ 39 اُس کے ساتھ نیکُدیمُسؔ بھی تھا جو چونتیس کلوگرام کے قریب مُر اور عُود ملا ہوا لایا۔ یہ وہی تھا جو ایک را ت چھپ کر یسُوع ؔ سے ملا تھا۔ 40 اُنہو ں نے یہُودی رسم کے مطابق یسُوعؔ کو خُوشبودارچیزوں کے ساتھ ایک سوتی کپڑے میں لپیٹ کردفن کیا۔ 41 یسُوعؔ جہاںمصلُوب ہوا اِس جگہ کے نزدیک ایک باغ تھا جس میں ایک نئی قبر جس میں کوئی دفن نہیں ہوا تھا خالی پڑی تھی۔ 42 اِس لیے کہ یہ قبر قریب ہی تھی اور فسح کی تیاری کا دن تھا اُنہوں نے یسُوعؔ کو وہاں رکھ دیا۔