کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

یُوحنّا 18

 18

 یسُوع ؔ کی گرفتاری:

  1 یہ باتیں کہنے کے بعد یسُوعؔ اپنے شاگردوں کے ساتھ قِدرون کا نالہ پار کر کے ایک باغ میں داخل ہوا۔  2 اُس کا پکڑوانے والا یہُوداہؔ اسکریوتی بھی اِس جگہ کو جانتا تھا کیونکہ یسُوعؔ اکثر اپنے شاگردوں کے ساتھ یہاں جایاکرتا تھا۔  3 سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یہُوداہ ؔ کے ساتھ رومی سپاہیوں کی ایک پلٹن اور ہیکل کے محافظ بھیجے۔ وہ اپنے ہاتھوں میں مشعلیں، لالٹین اور ہتھیار لیے ہوئے آئے۔  4 یسُوع ؔ کو پتا تھا کہ وہ اُس کے لیے آئے ہیں۔ چنانچہ اُس نے باہر آکر اُن سے پُوچھا،  ”تُم کسے ڈھونڈتے ہو؟“   5 اُنہوں نے جواب دیا یسُوعؔ ناصری کو۔ یسوعؔنے کہا،  ”میں ہوں۔“ یہُوداہؔ اسکریوتی اُن کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔

  6 جیسے ہی یسُوعؔ نے کہا کہ میں ہوں وہ پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے۔  7 یسُوعؔ نے ایک بار پھر اُن سے پوچھا،  ”تُم کس کو ڈھونڈتے ہو؟“ اُنہوں نے جواب دیایسُوعؔ ناصری کو۔  8 یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”میں تُم کو بتا چُکا ہوںکہ میں ہوں۔ اگرتُم مُجھے ڈھونڈ رہے ہو تو اِن آدمیوں کوجانے دو۔“   9 یوں یسُوعؔ نے اپنی اِس بات کو پُورا کیا جواُس نے کہا تھا کہ  ”میں نے اِن میں سے ایک کو بھی نہ کھویا جن کو تُو نے مُجھے دیا“ ۔   10 شمعُون ؔ پطرس نے اپنی تلوار نکال کر اور سردارکاہن کے نوکر ملخُسؔکا کان کاٹ دیا۔  11 یسُوعؔ نے پطرسؔ سے کہا  ”اپنی تلوار میان میں رکھ لے۔ کیا میں دُکھوں کے اِس پیالے کو نہ پیوں جو باپ نے مُجھے پینے کو دیا ہے؟“

 یسُوعؔکی حنّاؔکے سامنے پیشی:

  12 تب فوجیوں اور اُن کے کمانڈر اور ہیکل کے محافظوں نے یسُوع ؔکو گرفتار کیااور اُسے لے گئے۔  13 پہلے وہ اُسے اُس سال کے سردار کاہن کائفاؔکے سُسر حنّاؔ کے پاس لے گئے۔  14 کائفا ؔنے ہی یہودیوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ساری قو م کی ہلاکت سے یہ بہتر ہے کہ ایک شخص مارا جائے۔

 شمعُون یسُوعؔ کا انکار کرتا ہے:

  15 شمعُونؔ پطرس ایک اور شاگردکے ساتھ یسُوعؔ کے پیچھے گیا۔ دُوسرا شاگرد جو سردار کاہن کا جاننے والا تھا پطرسؔ کو لے کر سردارکاہن کے گھر گیا۔  16 پطرسؔتو دروازے پر کھڑا رہا اور دُوسرے شاگرد نے اندر جا کر دروازے پر موجود عورت سے بات کر کے پطرسؔکو اندر لے گیا۔  17 اُس عورت نے پطرسؔ کو دیکھ کر اُس سے کہا، کیا تُو بھی اُس کے شاگردوں میں سے نہیں؟ پطرس ؔنے جواب دیا، نہیں! میں نہیں ہوں۔  18 سردی ہونے کے باعث گھر کے ملازموں اور محافظوں نے آگ جلار کھی تھی اور اُس کے گرد کھڑے تھے۔ پطرس ؔ بھی اُن کے ساتھ کھڑا ہو کر آگ تاپنے لگا۔

 یسُوعؔ سے پُوچھ گچھ:

  19 اِس دوران اندر سردار کاہن یسُوعؔ سے اُس کے شاگردوں اور اُس کی تعلیم کے بارے میں پُوچھنے لگا۔  20 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”ہر کوئی جانتا ہے کہ میں کیا تعلیم دیتا ہوں کیونکہ میں نے سب کے سامنے جہاں تُم جمع ہوتے ہو، عبادت خانوں میںاور ہیکل میں کھڑے ہو کر تعلیم دی ہے۔ میں نے کبھی کوئی بات چھپ کر نہیں کی۔   21  تُم مُجھ سے کیوں پُوچھتے ہو؟ جنہوں نے میری باتیں سُنی ہیں اُن سے کیوں نہیںپُوچھتے؟ میںنے جو کچھ کہا ہے اُنہوں نے سُنا ہے۔“   22 پاس ہی کھڑے ایک سپاہی نے یسُوع ؔ کے مُنہ پر تھپڑ مار کر کہا، کیا اِس طرح سردار کاہن کو جواب دیتے ہیں؟  23 یسُوعؔ نے اُس سپاہی سے کہا،  ”اگر میں نے کچھ بُرا کہا تو اُس کو ثابت کر۔ اور اگر سچ کہا تو مُجھے مارتا کیوں ہے؟“   24 اِس پر حنّاؔنے اُسے باندھ کر کائفا کے پاس بھیج دیا۔

 پطرسؔ کا پھر انکار:

  25 جب شمعُونؔپطرس دُوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑا آگ تاپ رہا تھا تو اُنہوں نے اُس سے پُوچھا، کیا تُو بھی اُس کے شاگردوں میں سے نہیں؟ پطرسؔ نے انکار کرتے ہوئے کہا، نہیں!  26 وہاں سردار کاہن کا ایک خادم کھڑا تھا جو اُس آدمی کا رشتہ دار تھاجس کا کان پطرسؔ نے کاٹ ڈالا تھا، اُس نے پطرس ؔ سے کہا، کیا میں نے تُجھے باغ میں اُس کے ساتھ نہیں دیکھا تھا؟  27 پطرسؔ نے پھر انکار کیا تو اُسی وقت مُرغ نے بانگ دی۔  28 صُبح سویرے جب کائفاؔ کے سامنے پیشی ختم ہوئی تو یہودی سردار یسُوعؔ کو لے کر رومی گورنر کے پاس گئے۔ یہُودی اِس ڈر سے کہ ناپاک نہ ہو جائیں قلعہ میں داخل نہ ہُوئے کیونکہ وہ فسح میں شامل ہونا چاہتے تھے۔  29 اِس لیے گورنرپِیلاطُس ؔ نے قلعہ سے باہر آ کراُن سے کہا، تُم اِسے میرے پاس کیوں لائے ہو؟  30 اُنہوں نے جواب دیا اگر یہ مُجرم نہ ہوتا تو ہم اِسے تیرے پاس نہ لاتے۔  31 پِیلاطُسؔ نے اُن سے کہا، اِسے لے جا کر اپنی شریعت کے مطابق اِس کی عدالت کرو۔ یہُودی سرداروں نے جواب دیا کہ ہم کسی کو موت کی سزا نہیں دے سکتے۔  32 یسُوعؔنے جو کہا تھا کہ اُس کی موت کس طرح ہو گی یوں یہ بات پُوری ہوئی  33 اِس پر پِیلاطُس واپس قلعہ میں گیا اور یسُوعؔ کو پاس بُلا کر اُس سے پُوچھا، کیا تو یہُودیوں کا بادشاہ ہے؟  34 یسُوعؔ نے جواب دیا،  ”تُو یہ اپنی طرف سے پُوچھتا ہے یا دُوسروں نے میرے بارے میں بتایا ہے؟“   35 پِیلاطُس ؔ نے جواب دیا کیا میںیہُودی ہوں؟ تُجھے تیرے لوگوں اور سرداروں نے میرے حوالہ کیا ہے۔ آخر تو نے کیا کِیا ہے؟  36 یسُوع نے جواب دیا،  ”میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیںاگر اِس دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم میرے لیے لڑتے تاکہ میں یہُودیوںکے حوالے نہ کیا جاتا۔ لیکن میری باشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔“   37 پِیلاطُسؔ نے کہا، تو کیا تُو بادشاہ ہے؟ یسُوعؔ نے جواب دیا،  ”تُو نے خُود کہہ دیاکہ میں بادشاہ ہوں۔ میں اِس دُنیا میں اِس لیے آیا ہوں کہ سچائی کی گواہی دُوں۔ جو سچائی پر چلتا ہے وہ میری سُنتا ہے۔“   38 پِیلاطُسؔ نے پُوچھاکہ سچائی کیا ہے؟ اور باہر جا کر یہُودی سرداروں سے کہا کہ میں نے اِس شخص میں کوئی جُرم نہیں پایا۔  39 مگر تُم اپنی رسم کے مطابق ہر سال فسح پر ایک قیدی کو رہاکرنے کے لیے کہتے ہو۔ کیا تُم چاہتے ہو کہ میں یہُودیوں کے بادشاہ کو رہا کروں؟  40 اُنہوں نے چلّا کر کہا اِس کو نہیں، ہمارے لیے براباّؔ کورہاکر۔ (براباّ ایک ڈاکوتھا) ۔