خُداوند یسُوع ؔ کا شاگردوں کے پاؤں دھونا:
1 عیدِ فسح کے آنے سے پہلے یسُوعؔ جانتا تھا کہ اُس کا وقت آ گیا ہے کہ وہ دُنیا کو چھوڑ کر باپ کے پاس جائے۔ اُس نے دُنیا میں اپنے شاگردوں سے محبت رکھی اُس کی یہ محبت آخری وقت تک رہی۔ 2 شام کے کھانے کا وقت تھا اور شیطان شمعُونؔ کے بیٹے یہوُداہ ؔ اسکریوتی کے دل میں ڈال چُکا تھاکہ یسُوعؔ کو دھوکے سے پکڑوائے۔ 3 یسُوعؔ جانتا تھا کہ باپ نے سب کچھ اُس کے ہاتھ میں کر دیا ہے۔ اُسے باپ نے بھیجا ہے اور وہ باپ کے پاس واپس جائے گا۔ 4 پس وہ کھانے کی میز سے اُٹھا۔ اپنا چوغہ اُتار کر اپنی کمر میں تولیہ باندھا۔ 5 اور ایک برتن میں پانی ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھونے اور تولیے سے پونچھنے شروع کئے۔ 6 جب یسُوعؔ شمعُونؔ پطرس کے پاس آیا تو اُس نے کہا، اَے خُداوند کیا تو میرے پاؤں دھوئے گا؟
7 یسُوعؔ نے اُسے جواب دیا، ”میں جو کچھ کر رہا ہوں تُجھے ابھی تو سمجھ نہیں آئے گی مگر بعد میں سمجھ جائے گا۔“ 8 پطرسؔ نے کہا، نہیں! تو میرے پاؤں کبھی دھونے نہ پائے گا۔ یسُوعؔ نے جواب دیا ”جب تک میں تُجھے نہ دھؤں تو تُو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔“ 9 اِس پر پطرسؔ نے کہا، اَے خُداوند صرف میرے پاؤں ہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ اور سر بھی دھو دے۔ 10 یسُوعؔ نے جواب دیا، ”جو شخص نہا چُکا ہے اُس کو سوائے پاؤں دھونے کے اور کچھ دھونے کی ضرورت نہیںوہ بالکُل صاف ہے۔ تُم پاک ہو مگر سب نہیں۔“ 11 یسُوعؔ جانتا تھا کہ کون اُسے پکڑوائے گااِس لیے اُس نے کہا سب پاک نہیں۔
12 اُن کے پاؤں دھونے کے بعد اُس نے اپنا چوغہ پہنا اور کھانے کے لیے بیٹھ گیااور اُن سے پُوچھا، ”میں نے جو کچھ کیا کیا تُم اِس کا مطلب سمجھتے ہو؟ 13 ”تُم مُجھے اُستاد اور خُداوند کہتے ہو۔ ٹھیک کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔ 14 ”جب میں نے اُستاد اور خُداوند ہوتے ہوئے تُمہارے پاؤں دھوئے تو تُمہیں بھی ایک دُوسرے کے پاؤں دھونے چاہیئں۔ 15 ”میں نے تُمہیں ایک نمونہ دیا کہ جیسا میں نے تُمہارے ساتھ کیا ہے تُم بھی ایسا ہی کرو۔ 16 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوںغلام مالک سے بڑا نہیں اور نہ پیغام دینے والا پیغام بھیجنے والے سے بڑا ہے۔ 17 ”اَب تُم اِن باتوں کو جان گئے ہو۔ اِن پر عمل کرو تو مبارک ہو گے۔
18 ”میں تُم سب کے بارے میں نہیں کہتا۔ جن کو میں نے چُنا ہے میں اُنہیں جانتا ہوں۔ لیکن کلام میں لکھی گئی بات پُوری ہو نا ضروری ہے کہ ’جو میری روٹی کھاتا ہے وہی میرے خلاف ہو گیا۔‘ (زبور۴۱: ۹)
19 ”اِس سے پہلے کہ ایسا ہو میں تُمہیں اِس کی خبر پہلے دے دیتا ہوں تاکہ جب یہ ہو تو تُم ایمان لاؤ کہ وہ میں ہی ہوں۔ 20 ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں، جو اُس کو قبول کرتا ہے جسے میں بھیجتا ہوں تو مُجھے قبول کرتا ہے اور جو مُجھے قبول کرتا ہے میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔“
21 اِس کے بعد یسُوعؔ اپنے دل میں بُہت گھبرایااور کہا، ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں تُم میں سے ایک مُجھے دھوکے سے پکڑوائے گا۔“ 22 اِس پر شاگرد ایک دُوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور حیران تھے کہ ہم میں سے کون ہو سکتا ہے۔ 23 وہ شاگرد جسے یسُوعؔ پیار کرتا تھا یسُوعؔ کے ساتھ ہی کھانے کے لیے بیٹھا تھا۔ 24 شمعُون ؔ پطرس ؔنے اُس کو اشارہ کر کے پُوچھا کہ وہ کس کے بارے میں کہتا ہے؟ 25 اُس شاگرد نے یسُوعؔ کی طرف جھُک کر پُوچھا، اَے خُداوند! وہ کون ہے؟ 26 یسُوعؔ نے جواب دیا، ”جسے میں نوالہ ڈبو کر دُوں گا و ہی ہے۔“ اور یسُوعؔ نے نوالہ ڈبوکر شمعُونؔ اِسکریوتی کے بیٹے یُہوداہؔ کو دیا۔ 27 نوالہ لیتے ہی شیطان اُس کے اندر سما گیا۔ تب یسُوعؔ نے کہا، ”جا اور جو کچھ تُو کرنے کو ہے جلدی کر۔“ 28 مگردُوسروں کو جو کھاناکھانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے پتا نہ چلا کہ یسُوع ؔکیا کہہ رہا ہے۔ 29 چونکہ یہُوداہ ؔ خزانچی تھا اِس لیے بعض سمجھے کہ یسوعؔ نے اُسے کھانے کے پیسے اداکرنے یا غریبوں میں پیسے بانٹنے کے لیے بھیجا ہے۔ 30 پس یہُوداہؔ فوراً وہاں سے باہر چلا گیا۔ اور رات ہو گئی تھی۔
پطرس ؔکے انکار کرنے کے بارے پیشن گوئی:
31 یہُوداہؔ کے جانے کے بعد یسُوعؔ نے کہا ، ”وقت آگیا ہے کہ اِبنِ آدم جلال پائے اور خُداکو اُس سے جلال ملے۔ 32 ”چونکہ خُدا نے اُس میں جلال پایا اِس لیے خُدا بھی اپنے بیٹے کو اپنا جلال دے گا۔ اور اُسے فورا ً جلال دے گا۔ 33 ”اَے بچو! میں کچھ دیر تُمہارے ساتھ ہوں پھر تُم مُجھے ڈھُونڈوگے اور جیسا میں نے یہُودیوں سے کہا کہ جہاں میں جاتا ہوں تُم نہیں آ سکتے اَب تُم سے بھی یہی کہتا ہوں۔ 34 ”میں تُمہیں ایک نیا حُکم دیتا ہوں: ’ایک دُوسرے سے محبت رکھو‘ ۔ جیسے میں نے تُم سے محبت رکھی تُم بھی ایک دُوسرے سے محبت رکھّو۔ 35 ”جب تُم ایک دوسرے سے محبت رکھّو گے تو لوگ جانیں گے کہ تُم میرے شاگرد ہو۔“
36 شمعُونؔ پطرس نے یسُوعؔ سے پُوچھااَے حُداوند تُو کہاں جاتا ہے؟ یسُوعؔ نے جواب دیا، ”ابھی تو تُو میرے ساتھ نہیں جا سکتا، مگر بعد میں تُو میرے پیچھے آئے گا۔“ 37 پطرس ؔ نے کہا خُداوند! میںاب تیرے پیچھے کیوں نہیں آ سکتا؟ میں تو تیرے لیے جان دینے کو تیار ہوں۔ 38 یہ سُن کر یسُوعؔ نے اُس سے پوچھا، ”کیا تُو میرے لیے اپنی جان دے گا؟ پطرسؔ میں تُجھ سے سچ کہتا ہوں کل صُبح مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تُو تین بار میرا انکار کرے گا۔“