کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

یُوحنّا 12

 12

 خُداوند یسُوعؔ کا عِطر سے مسَح کیا جانا:

  1 عیدِ فسح کے چھ دِن بعد یسُوعؔ بیت عنیاہ ؔ لعزرؔ کے گھر آیا۔ یہ و ہی لعزر ؔ ہے جسے یسُوعؔ نے مُردوں میں سے زندہ کیا تھا۔  2 دہاں اُنہوں نے یسُوعؔ کے لیے رات کا کھانا تیار کیا۔ مرتھاؔ خدمت کر رہی تھی اور لعزرؔ یسُوعؔ کے ساتھ کھانا کھانے والوں کے درمیان بیٹھا تھا۔  3 تب مریمؔ نے آدھے سیر کے قریب ایک قیمتی خالص عطر لے کر یسُوع ؔ کے پاؤں پر ڈالا اور اپنے بالوں سے اُنہیں پُونچھنا شُروع کیا اور سارے گھر میں خُوشبو پھیل گئی۔  4 مگر یسُوعؔ کے ایک شاگرد یہُوداہؔ اسکریوتی جو اُسے پکڑوانے کو تھا یہ دیکھ کر کہنے لگا۔  5 اگر یہ عِطر بیچا جاتا تو تین سو دینار وصول ہوتے جو غریبوں میں بانٹے جا سکتے تھے۔  6 اُس نے یہ بات اِس لیے نہیں کی کہ اُسے غریبوں کی فکر تھی بلکہ اِس لیے کہ چور تھا۔ دراصل وہ خزانچی تھا اور جو پیسے جمع ہوتے تھے اُس میں سے اپنے استعمال کے لیے کچھ نہ کچھ نکالتا رہتا تھا۔  7 یسُوعؔ نے کہا،  ”اِسے پریشان نہ کرو۔ اِس نے میرے دفن کی تیاری کے لیے یہ کیا ہے۔   8  ”غریب لوگ تو ہمیشہ تُمہارے ساتھ رہیں گے مگر میں ہمیشہ تُمہارے پاس نہیں رہوں گا۔“   9 جب یہودیو ںکو پتا چلاکہ یسُوعؔآیا ہے تو وہ اُسے اور لعزرؔ کو جسے یسُوعؔ نے مُردوں میں سے زندہ کیا تھا ملنے آئے۔  10 تب یہودی سرداروں نے لعزرؔ کومار ڈالنے کامشورہ کیا۔  11 کیونکہ اُس کی وجہ سے بُہت سے یہودی اُنہیں چھوڑ کر یسُوعؔ پر ایمان لے آئے تھے۔

 یروشلیِمؔ میں خُداوندکا شاہانہ استقبال:

  12 اگلے دِن عید منانے یروشلیِم ؔ میں آئے ہوئے لوگوں کے ہجوم کو پتا چلا کہ یسُوعؔ یروشلیِم ؔ میں آرہا ہے۔  13 تو اُنہوں نے ہاتھوں میں کھجوروں کی ڈالیاں لے کر اُس کے استقبال کے لیے نکلے۔ اور بلند آواز میں نعرے لگانے لگے ’ہوشعنا! مُبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام پر آتا ہے۔ (زبور ۱۱۸: ۲۵۔ ۶۲) اسرائیلؔ کا بادشاہ مبارک ہو۔‘  14 یسُوعؔ ایک جوان گدھے پر سوار ہوا جیسا کہ لکھا ہے:

  15 ’اے صیوّنؔکی بیٹی مت ڈر۔ دیکھ تیرا بادشاہ گدھے کے بچّے پر سوار آ رہا ہے‘ ۔ (زکریاہؔ۹: ۹)

  16 اُس کے شاگرد اُ س وقت نہ سمجھ سکے جب یہ نبوت پُوری ہوئی مگر جب یسُوعؔ اپنے جلال میں داخل ہوا تو اُنہیں یاد آیا کہ جو کچھ ہوا اِس نبوت کے مطابق تھاجو اُس کے بارے میں کی گئی۔  17 اِس ہجوم میں بُہت سے لوگوں نے یسُوعؔ کو دیکھا تھا جب اُس نے لعزرؔ کو مُردوں میں سے زندہ کیا۔ اُنہوں نے یہ خبر ہر طرف پھیلا دی تھی۔  18 اِس مُعجزے کی وجہ سے بُہت سے لوگ سُن کر اُس کے استقبال کے لیے نکلے۔  19 تب فریسی یہ دیکھ کر آپس میں کہنے لگے کہ ہم کچھ بھی نہ کر سکے۔ دیکھو سارا جہان ا ُس کے پیچھے ہو لیا۔

 خُداوند کا اپنی موت کی پیشن گوئی کرنا:

  20 کچھ یونانی جو عید منانے یروشلیِم ؔ میں آئے تھے۔  21 وہ فلپُّسؔ کے پاس آئے جو گلیلؔ کے شہر بیت صیداؔ کا رہنے والا تھا، اور یسُوع ؔ سے ملنے کی درخواست کرنے لگے۔  22 فلپُّسؔنے اندریاسؔ کو بتایااور وہ دونوں یسُوعؔ کو بتانے گئے۔  23 یسُوعؔ نے اُنہیں جواب دیا،  ”اِبنِ آدم کے جلال پانے کا وقت آگیاہے۔“

  24  ”میں تُم سے سچ کہتا ہو ں جب تک گندم کا دانہ زمین میں دفن ہو کر مر نہ جائے اکیلا رہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بُہت سے دانے پیدا کرتا ہے۔   25  ”جو اِس دُنیا میں اپنی زندگی سے پیارکرتاہے وہ اِس کا نقصان اُٹھاتا ہے۔ مگر جو اِس دُنیا میں اپنی زندگی کی فکروں میں نہیں رہتاوہ اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھتا ہے۔   26  ”جو کوئی میری خدمت کرنا چاہتا ہے میرے پیچھے چلے تاکہ جہاں میں ہوں میرا خادم بھی ہو۔ جو میری خدمت کرتا ہے میرا باپ اُس کی عزّت کرے گا۔   27  ”میری جان نہایت پریشان ہے۔ اِس حالت میں مُجھے کیا کہنا چاہیے؟ یہ کہ اَے باپ مُجھے اِس گھڑی سے بچا؟ مگر میں اِسی گھڑی کے لیے تو آیاہوںکہ دُکھ اُٹھاؤں۔   28  ”اَے باپ! اپنے نام کو جلال دے۔“ تب آسمان سے ایک آواز آئی، ’میں اپنے نام کو جلال دے چُکا ہوں اور پھر جلال دوں گا۔‘  29 جب وہاں موجود لوگوں نے آواز سُنی تو کہنے لگے کہ بادل گرجا ہے۔ کچھ نے کہا کہ فرشتہ نے اُس سے بات کی ہے۔  30 یسُوعؔ نے اُن کو بتایا،  ”یہ آواز میرے لیے نہیںبلکہ تُمہارے لیے آئی ہے۔   31  ”دُنیا کی عدالت کا وقت آگیا ہے اوراِس جہان کا حا کم نکال دیا جائے گا۔

  32  ”جب میں زمین پر سے اُونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچ لوں گا۔“   33 اِس بات سے یسُوعؔ نے اپنی موت کی طرف ا شارہ کیا کہ وہ کیسی موت مرنے کو ہے۔  34 اِس پر لوگ بول اُٹھے کہ ہم نے تو شریعت میں پڑھا ہے کہ مسیح ہمیشہ تک رہے گا اور تُو کہتا ہے کہ اِبنِ آدم اُونچے پر چڑھایا جائے گا۔ اور یہ اِبنِ آدم کون ہے؟  35 یسُوعؔ نے کہا،  ”کچھ عرصہ اور یہ روشنی تُمہارے ساتھ ہے۔ جب تک ہو سکے اِس روشنی میں چلو تاکہ اندھیرا تُمہیں نہ آ لے۔ جو اندھیرے میں چلتے ہیں نہیں جانتے کہ کہاں جاتے ہیں۔   36  ”جب تک نُور تُمہارے ساتھ ہے اُس پر ایمان لاؤتاکہ نور کے فرزند بنو۔“ یسُوعؔ یہ باتیں کہنے کے بعد وہاں سے چلا گیا اور چھپ کر رہنے لگا۔  37 اُن تمام مُعجزانہ کاموں کے باوجود جو یسُوعؔ نے اُن کے سامنے کیے بُہت سے لوگ

 اُس پر ایمان نہ لائے۔  38 یہ بالکُل ایسے ہی ہے جیسایسعیاہؔ نبی نے پیشن گوئی کی کہ:

 ’اَے خُداوند ہمارے پیغام پر کس نے یقین کیا؟ اور کس پر خُداوند کا ہاتھ قدرت کے ساتھ ظاہر ہوا۔‘ (یسعیاہؔ ۵۳: ۱)
  39 اُن کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ تھی جیسا یسعیاہ ؔ نے کہا۔
  40 ’اُس نے اُن کی آنکھوں کو اَندھا اور اُن کے دِلوں کو سخت کر دیا۔
 ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے دیکھیں اور دِل سے سمجھیں اور ایمان لائیں
 اور میں اُنہیں شفادوں۔‘ (یسعیاہؔ۶: ۱۰)

  41 یسعیاہؔ نے یہ باتیں یسُوعؔ کا جلال دیکھ کر اُس کے لیے کہیں۔  42 اگرچہ بُہت سے لوگ یہودی سرداروں سمیت اُس پر ایمان لائے مگر فریسیوں کے ڈر سے اقرار نہ کیا کہ وہ اُنہیں عبادت خانے سے خارج نہ کردیں۔  43 اُنہوں نے خُدا سے عزت پانے سے زیادہ انسانوں سے عزت پانا پسند کیا۔

  44 یسُوع ؔ نے بلند آواز میں کہا،  ”جو مُجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مُجھ پر ہی نہیں بلکہ خُدا پر بھی جس نے مُجھے بھیجا ہے۔   45  ”جو مُجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتاہے۔   46  ”میں اِس تاریک جہان میں نور بن کر آیا ہوں تاکہ جو کوئی مُجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔   47  ”جو میری باتوں کو سُن کر اُس پر عمل نہیں کرتا میں اُنہیں مُجرم نہیں ٹھہراتا۔ کیونکہ میں دُنیا کو مُجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہوں۔   48  ”مگر جو مُجھے اور میری باتوں کو قبول نہیں کرتا اُنہیں عدالت کے دِن یہ کلام جو میں نے کیا ہے مُجرم ٹھہرائے گا۔

  49  ”میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا بلکہ باپ نے جس نے مُجھے بھیجا ہے حُکم دیا کہ کیا کہوں۔   50  ”اور میں جانتا ہوں کہ اُس کے حُکم ہمیشہ کی زندگی ہیں۔ پس جو کچھ باپ مُجھے بتاتا ہے میں کہتا ہوں۔“