کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

یُوحنّا 11

 11

 لعزر ؔکی موت:

  1 لعزر ؔنام ایک شخص بیت عِنیاہؔ کے گاؤں میںاپنی بہنوں مریمؔ اور مارتھاؔ کے ساتھ رہتا تھا۔  2 یہ وہی مریم ؔ تھی جس نے خُداوند کے پاؤں پر عطر ڈالااور اپنے بالوں سے اُنہیں پُونچھاتھا۔ اِسی کا بھائی لعزرؔ بیمار تھا۔  3 اُس کی بہنوں نے یسُوعؔ کے پاس پیغام بھیجا کہ اَے خُداوند! تیرا دوست جس سے تُومحبت رکھتا ہے بُہت بیمار ہے۔  4 جب یسُوعؔ کو یہ خبر ملی تو اُس نے کہا،  ”یہ بیماری موت کے لیے نہیں بلکہ خُدا کے جلال کے لیے ہے تاکہ خُداکے بیٹے کو جلال ملے۔“   5 یسُوعؔ مرتھاؔ، مریم ؔاور لعز رؔ سے محبت رکھتا تھا۔  6 مگر وہ دو دِن تک وہیں ٹھہرا رہا جہاں تھا۔  7 آخر کار اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا،  ”آؤ واپس یہُودیہ ؔ چلیں۔“   8 شاگردوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اَے ربّی! ابھی تو کچھ دِن پہلے یہُودیہ ؔ میں یہُودی تُجھے سنگسار کرنے کو تھے تُوپھر وہاں جانا چاہتا ہے۔  9 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”دِن میں بارہ گھنٹے ہوتے ہیں۔ جو شخص دِن کی روشنی میں چلتے ہیں وہ ٹھوکر نہیں کھاتے کیونکہ دُنیا کی روشنی میں اُنہیں سب نظر آتا ہے۔   10  ”لیکن اگر کوئی رات کو چلے تو روشنی نہ ہونے کے باعث ٹھوکر کھائے گا۔“   11 یہ کہنے کے بعد اُس نے شاگردوں سے کہا،  ”ہمارا دوست لعزرؔ سوگیا ہے میں اُسے جگانے جاتا ہوں۔“   12 اِس پر اُس کے شاگردوں نے کہا کہ اگر سوتا ہے تو بچ جائے گا۔  13 یسُوعؔ نے لعزرؔ کی موت کے بارے میں کہاتھا اور وہ سمجھے کہ آرام کی نیند سو رہا ہے۔  14 تب یسُوعؔ نے اُنہیں صاف بتایاکہ،  ”لعزرؔ مر چُکا ہے۔   15 ـ  ”میں تُمہاری وجہ سے خُوش ہوں کہ میں وہاں نہیں تھا تاکہ تُم ایمان لاؤ۔ آؤ! اُس کے پاس چلیں۔“

  16 تب توماؔ جسے توامؔ کہتے ہیں اُس نے باقی شاگردوں سے کہاکہ آؤ! ہم بھی چلیں اِس کے ساتھ مرنے کے لیے۔

 یسُوعؔؔ بیت عنیاہؔؔ میں:

  17 بیت عنیاؔ ہ پہنچ کر یسُوعؔ کو پتا چلا کہ لعزرؔ کو مرے چار دِن ہو گئے ہیںاور وہ اپنی قبر میں ہے۔  18 بیت عنیاؔ ہ یروشلیِم ؔ سے تقریباً دو میل دُور ہے۔  19 اور بُہت سے یہُودی مریمؔ اور مرتھاؔ کو اُن کے بھائی کی موت پر تسلی دینے آئے ہوئے تھے۔  20 جب مرتھاؔ کو پتا چلا کہ یسُوعؔ آیا ہے تو وہ اُسے ملنے گئی۔ مگر مریمؔ گھر پرہی رہی۔  21 مرتھاؔ نے خُداوند سے کہا، خُداوند اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔  22 مگر اَب بھی میں جانتی ہوں کہ تُو جو کچھ خُدا سے مانگے گا وہ تُجھے دے گا۔  23 یُسوعؔ نے اُس سے کہا،  ”تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔“

  24 مرتھاؔ نے کہا ہاں! میں جانتی ہوں وہ آخری دن قیامت پر جی اُٹھے گا۔  25 یسُوعؔ نے کہا،  ”قیامت اور زندگی میںہوں جو مُجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مر بھی جائے توبھی زندہ رہے گا۔   26  ”اور جو زندہ ہے اورمُجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی نہیں مرے گا۔ کیا تُو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟   27 اُس نے کہا، ہاںخُداوند! میں ایمان رکھتی ہو ں کہ تُو خُدا کا بیٹا مسیِح ہے جسے دُنیا میں آنا تھا۔  28 ان باتوں کے بعد وہ گھر واپس گئی اور مریمؔ کوایک طرف بُلاکر کہا کہ اُستاد آگیا ہے اور تُجھ سے ملنا چاہتا ہے۔  29 مریمؔ یہ سُن کر فوراً اُس کے پاس گئی۔  30 یسُوعؔ ابھی گاؤں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ گاؤں سے باہر اُسی جگہ پر تھا جہاں مرتھاؔ اُس سے ملی تھی۔  31 وہ لوگ جو گھر میں مریمؔ کو تسلی دینے کے لیے بیٹھے تھے اُسے باہر جاتے دیکھا تو اُس کے پیچھے چل پڑے۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ قبر پر رونے کے لیے جا تی ہے۔  32 جب مریمؔ یسُوعؔ کے پاس پہنچی تو اُسے دیکھتے ہی اُس کے پاؤں میں گر کر اُسے سجدہ کیا اور کہا، خُداوند! اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔  33 جب یسُوعؔ نے اُسے اور اُس کے ساتھ لوگوں کو روتے دیکھا تو روح میں نہایت رنجیدہ ہوا۔  34 اُس نے اُن سے پُوچھا  ”تُم نے اُسے کہاں رکھا ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا اَے خُداوند! ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لے۔  35 یسُوعؔ رونے لگا۔  36 جو یہودی وہاں کھڑے تھے یہ دیکھ کر کہنے لگے، دیکھو یہ لعزرؔ کو کیسا عزیز رکھتا تھا۔  37 لیکن اُن میں سے کچھ نے کہا، اِس نے اَندھے کی آنکھیں کھولیں، کیا یہ لعزرؔ کو موت سے نہیں بچا سکتا تھا۔

 لعزرؔ کا زندہ ہونا:

  38 یسُوعؔ قبر پر پہنچا تو بُہت غم زدہ تھا۔ وہ ایک غار تھی جس کے مُنہ پر ایک بڑا پتھر رکھا تھا۔  39 یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”قبر کے مُنہ سے پتھر ہٹا دو۔“ لیکن مرتھاؔ جو لعزرؔ کی بہن تھی نے کہا، خُداوند اسے مرے چار دن ہو گئے ہیں اَب تو اِس سے بد بو آتی ہو گی۔  40 یسُوعؔ نے جواب میں کہا،  ”کیا میں نے تُجھے نہیں کہا تھا کہ اگر تُو ایمان لائے گی تو خُدا کا جلال دیکھے گی؟“   41 اِس پر اُنہوں نے قبر کے مُنہ سے پتھر کو ہٹا دیا۔ تب یسُوعؔ نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا،  ”اَے باپ میں تیرا شُکر کرتا ہوں کہ تُو نے میری سُن لی۔   42  ”تُوتوہمیشہ میری سُنتا ہے تو بھی میں نے اِس لیے یہ کہاتاکہ یہ لوگوں کا جو یہاں کھڑے ہیں ایمان لائیں کہ تُو نے مُجھے بھیجا ہے۔“   43 اِس دُعا کے بعدیسُوعؔ نے بلند آواز سے کہا،  ”لعزرؔ باہرنکل آ۔“   44 مُردہ قبر سے باہر نکل آیا۔ اُس کے ہاتھ اور پاؤں کفن سے بندھے ہوئے تھے اورمُنہ رومال میں لپٹا ہواتھا۔

 یسُوعؔ کے قتل کا منصُوبہ:

  45 بُہت سے یہودی جو وہاں مریمؔ کے ساتھ تھے یہ معجزہ دیکھ کر یسُوعؔ پر ایمان لائے۔  46 مگر اُن میں سے کچھ نے فریسیوں کو جا کر بتایا کہ یسُوعؔ نے کیا کیاہے۔

  47 تب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یہودی صدر عدالت کا اِجلاس بُلا کر کہنے لگے کہ ہم کیا کر رہے ہیں یہ شخص تو بُہت سے مُعجزے دکھا کرمنادی رہا ہے۔  48 اگر ہم نے اِسی طرح اِس کو کام کرنے دیا تو سب لوگ اِس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آکر ہیکل اور ہماری قوم دونوں کو برباد کر دیں گے۔  49 تب کائِفاؔ نے جو اُس سال سردار کاہن تھا کہا کہ تُم لوگ کچھ نہیں جانتے۔  50 تمہیں اِس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ بجائے اِس کے کہ ساری قوم ہلاک ہو، ایک آدمی لوگوں کی خاطر مارا جائے۔  51 اُس نے یہ بات خُود سے نہیںکہی بلکہ اُس سال سردار کاہن ہوتے ہوئے اُس نے یسُوع ؔ کے لیے نبوت کی کہ وہ قوم کے لیے مرے گا۔  52 صرف یہودی قوم ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے اُن تمام فرزندوں کو جو دُنیا میں بکھرے ہیں، جمع کر کے ایک کر دے۔  53 پس اُس دِن سے وہ یسُوعؔ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔

  54 اِس کے بعد یسُوعؔ نے کُھلے عام یہودیوں میں منادی کرنا بند کردی اور جنگل کے قریب کے علاقے افرائیمؔ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ رہنے لگا۔  55 عیدِ فسح قریب آئی تو بُہت سے لوگ گاؤں سے یروشلیِمؔ گئے تاکہ عید سے پہلے پاک ہونے کی رسم میں شامل ہو سکیں۔  56 وہ یسُوعؔ کو یروشلیِم ؔ میں ڈھونڈنے لگے اور ہیکل میں کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ کیا خیال ہے؟ کیا وہ عیدِفسح پر آئے گا؟  57 کیونکہ سردار کاہن اور فریسیوں نے اِعلان کرر کھا تھا اگر کوئی یسُوعؔ کو دیکھے تو فوراً خبر دے تاکہ اُسے گرفتار کر سکیں۔