کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21

یُوحنّا 10

 10

 اچھا چرواہا:

  1 یسُوعؔ نے کہا،  ”میں تُم سے سچ کہتا جو کوئی بھیڑخانہ میں دروازے سے داخل نہیں ہوتا بلکہ دیوار پھاند کر آتا ہے چور اور ڈاکو ہے۔

  2  ”لیکن جو دروازے سے داخل ہوتا ہے وہ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔   3  ”چوکیدار اُس کے لیے دروازہ کھولتا ہے اور بھیڑیں اُس کی آواز پہچانتی ہیں۔ وہ اپنی ہر ایک بھیڑ کو اُس کے نام سے بُلاتا اور اُنہیں باہر لے جاتا ہے۔   4  ”اپنی بھیڑوں کو باہر نکال کر اُن کے آگے آگے چلتا ہے اور وہ اُس کے پیچھے چلنے لگتی ہیں کیونکہ وہ اُس کی آواز پہچانتی ہیں۔   5  ”وہ کسی اجنبی کے پیچھے نہیں جائیں گی بلکہ اُس سے دُور بھاگیں گی کیونکہ وہ کسی اجنبی کی آواز کو نہیں پہچانتیں۔“   6 جنہوں نے یسُوعؔ کی یہ تمثیل سُنی وہ نہیں سمجھ سکے کہ اُس کا مطلب کیا ہے۔

  7 یسُوع ؔنے اُن کو سمجھانے کے لیے کہا،  ”میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ بھیڑوں کا دروازہ میں ہوں۔  8  ”وہ سب جو مُجھ سے پہلے آئے چور اور ڈاکو تھے اِس لیے بھیڑوں نے اُن کی نہ سُنی کیونکہ وہ اُن کی آواز نہیں پہچانتیں۔  9  ”دروازہ میں ہوں جو بھی مُجھ سے گُزر کر آتاہے نجات پائے گا۔ اور اندر باہر آیا جایا کرے گااور چارہ پا ئے گا۔   10  ”چور آتا ہے چُرانے، مارنے اور برباد کرنے۔ میں آیا ہوں کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت کی زندگی پائیں۔   11  ”اچھا چروہا میں ہوں۔ اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کے لیے جان قربان کر تا ہے۔   12  ”تنخواہ پر رکھا ہوا نوکر چرواہا نہیں ہوتا کیونکہ جن بھیڑوں کی حفاظت کے لیے اُسے رکھا ہے وہ اُس کی اپنی نہیں۔ اِس لیے بھیڑئے کو آتے دیکھ کر بھیڑوں کو چھوڑ کے بھاگ جاتا ہے اور بھیڑیا اُن پر حملہ کر کے اُنہیں نقصان پہنچاتا اور بھگا دیتا ہے۔   13  ”اِس لیے کہ وہ مزدور ہے اور اُسے بھیڑوں کی فکر نہیں۔   14  ”میں اچھا چرواہا ہوں کیونکہ جس طرح باپ مُجھے جانتا ہے اور میں باپ کو۔“

  15  ”اِسی طرح میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مُجھے جانتی ہیں۔ اور میں اپنی بھیڑوں کے لیے جان دیتا ہوں۔

  16  ”میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس گلّہ کی نہیں۔ ضرور ہے کہ میں اُنہیں بھی لے کر آؤں۔ وہ میری آواز سُنیں گی، پھر ایک ہی گلّہ ہو گا اورایک ہی چرواہا ہو گا۔   17  ”میرا باپ مُجھ سے اِس لیے محبت کرتا ہے کیونکہ میں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ پھر اُسے لے لوں۔

  18  ”کوئی میری زندگی مُجھ سے نہیں لے سکتا بلکہ میں خُود اپنی مرضی سے اِسے دیتا ہوں۔ مُجھے اپنی زندگی دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے واپس لینے کا بھی اختیار ہے اور اِس کا حُکم میرے باپ نے مُجھے دیا ہے۔“

  19 یسُوعؔ کی اِن باتو ں سے یہودیوں میںایک بار پھر اختلاف پیدا ہو گیا۔  20 اُن میں سے بہتوں نے کہا یہ شخص تو بدرُوح گرفتہ ہے۔ اِس کا دماغ بھی خراب ہے ہم اُس کی کیوں سُنیں!  21 جبکہ دُوسروں کا کہنا تھا کہ ایک بدرُوح گرفتہ شخص ایسی باتیں نہیں کر سکتاکیا بدرُوح اندھی آنکھیں کھول سکتی ہے۔

 یسُوعؔ کو رَد کیا جانا:

  22 سردیوں کے موسم میں ہیکل کو مُخصوص کرنے کی عید، عہدِتجدید جسے ”حنوکا“ کہتے ہیں آئی اور یسوعؔیروشلیِم ؔ میں تھا۔  23 یسُوعؔ ہیکل میں سُلیمانی برآمدہ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔  24 یہودی اُس کے گرد جمع ہو کر پُوچھنے لگے کہ تُو کب تک ہمیں اُلجھن میں رکھے گا؟ اگر تُو مسیِح ہے تو ہمیں صاف صاف بتا دے۔  25 یسُوعؔ نے جواب دیا،  ”میں نے تُمہیں بتا دیا مگر تُم میرا یقین نہیں کرتے۔ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہ میرے گواہ ہیں۔   26  ”تُم میرا یقین اِس لیے نہیں کرتے کیونکہ تُم میری بھیڑیں نہیں۔

  27  ”میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوںاور وہ میرے پیچھے آتی ہیں۔   28  ”میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دیتا ہوں۔ وہ کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور نہ ہی کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین سکے گا۔   29  ”اُنہیںمیرے باپ نے جو سب سے بڑا ہے، مُجھے دیا ہے۔ کوئی بھی اِس قابل نہیں کہ اُنہیں میرے باپ کے ہاتھ سے چھین سکے۔   30  ”میں اور باپ ایک ہیں۔“   31 ایک دفعہ پھر یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لیے پتھر اُٹھا لیے۔  32 یسُوعؔ نے اُن سے کہا،  ”میں نے باپ کے حُکم سے بُہت سے اچھے کام کیے۔ تُم مُجھے کس کام کے لیے سنگسار کرتے ہو؟“   33 اُنہوں نے جواب میں کہا کہ تیرے اچھے کاموں کی وجہ سے نہیں بلکہ تیرے کُفر کی وجہ سے کیونکہ تو انسان ہوکر خُدا ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے۔  34 یسُوعؔ نے اُنہیں جواب دیا،  ”کیا یہ تُمہاری اپنی شریعت میں نہیں لکھا کہ ’میں نے کہاتُم خُدا ہو؟ (زبور۸۲: ۶)  35  ”کلام میں ا ُنہیں خُدا کہا گیا جنہیں خُدا کا کلام ملااور ہم جانتے ہیں کہ خُدا کا کلام بدل نہیں سکتا۔   36 ’  ’ا ور جب میں اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا کہتا ہوں تو تُم اِسے کُفر کیوں کہتے ہو؟ کیونکہ میں تو وہ ہوں جسے باپ نے مُقدس کرکے دُنیا میں بھیجا۔  37  ”اگر میں اپنے باپ کے کام نہ کروں تو میرا یقین نہ کرو۔   38  ”اگر میں اُس کے کام کرتا ہوںتو چاہے میرا یقین نہ کرو پراُن مُعجزات کا ہی یقین کرو جو میں کرتا ہوں۔ تاکہ تُم جان سکو کہ باپ مُجھ میں ہے اور میں باپ میں۔“   39 اُنہوں نے پھر اُسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔

  40 تب یسُوعؔ یردن ؔ کے پار چلا گیا جہاں یُوحنّا ؔ بپتسمہ دیا کرتا تھااوروہاں ہی رہا۔  41 بُہت سے لوگ اُس کے پاس آتے اور کہتے تھے کہ یُوحنّاؔ نے کوئی مُعجزہ تو نہیں کیا مگر جو کچھ یسُوعؔ کے بارے میں کہا سچ تھا۔  42 اور بُہت لوگ اُس پر ایمان لائے۔