کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13

العبرانيين 7

 7

 ملکِ صدق کی کہانت:

  1 ملکِ صدقؔ جو سالمؔ شہر کا بادشاہ اور خُدا تعالیٰ کا کاہن تھا۔ جب ابرہام ؔبادشاہوں کے خلاف جنگ جیت کر واپس آرہا تھا تو اِسی نے اُس کا استقبال کیا اور برکت دی۔  2 اِسی کو ابرہام ؔنے اپنی لُوٹ کا دسواں حصّہ دیا۔ یہ اپنے نام ملک ِصدق ؔکے مطابق راستبازی کا بادشاہ اور سالم کے مطابق سلامتی کا بادشاہ ہے۔  3 نہ تو اُس کے ماں باپ کا پتاہے نہ ہی اُس کا کوئی نسب نامہ ہے اور نہ اُس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخر ہے بلکہ وہ خُدا کے بیٹے کی طرح ہمیشہ تک سردارکاہن رہتا ہے۔  4 لہٰذا ذرا غور کروکہ وہ کیسا بزُرگ تھا جس کو قوم کے بزُرگ ابرہامؔ نے اپنی لُوٹ کی عمدہ چیزوں میں سے دہ یکی دی۔  5 اَب موسیٰؔ کی شریعت کے مطابق لاویؔ جو کہانت کے لیے چُنے گئے ہیں قوم کے لوگو ں یعنی اپنے بھائیوں سے اُن کی پیداوار کا د سواں حصّہ لیتے ہیں جبکہ وہ ابرہاؔم ہی کی اولاد ہیں۔  6 لیکن ملکِ صدقؔ جو لاوی کی نسل سے نہ تھاابرہامؔ سے دہ یکی وصول کی اور اُسے برکت دی جس کے ساتھ خُدا نے وعدے کیے تھے۔  7 اِس میں کوئی شک نہیں کہ برکت دینے والا برکت لینے والے سے بڑا ہے۔  8 مگر وہاںدہ یکی اُن کاہنوں کو دی جاتی ہے جو مر جاتے ہیں مگر یہاں دہ یکی وہ وصول کرتا ہے جسے کے بارے میں گواہی دی جاتی ہے کہ وہ زندہ ہے۔  9 یوں لاویؔ جو دہ یکی لیتے ہیںاُنہوں نے بھی ابرہامؔ کے ذریعے اُسے دہ یکی دی۔  10 بے شک اُس وقت لاوی ؔپیدا نہیںہوا تھامگرجب ابرہام ؔنے ملک ِ صدقؔ کو دہ یکی دی وہ اُس کے تخم میں تھا۔

  11 اگر لاویوں کی کہانت کامل ہوتی تو ایک ایسے کاہن کی ضرورت نہ ہوتی جو ملکِ صدق ؔکے طور پرہو نہ کہ لاویؔ اور ہارون ؔکے طور پر۔  12 اور اگر کہانت بدلی گئی تو ضروری تھا کہ اِس کے لیے شریعت بھی بدلی جائے۔  13 جس کاہن کی ہم بات کر رہے ہیں وہ دُوسرے قبیلے سے ہے جس نے کبھی قربانگاہ کی خدمت نہیں کی۔  14 چونکہ وہ یہوداہؔ کے قبیلے سے پیدا ہوا جس کے حق میں موسیٰ ؔنے کہانت کا ذکر نہیں کیا۔  15 جب ملکِ صدقؔ کی طرح ایک اور ایسا کاہن ظاہرہوا۔  16 جو جسم اور شریعت کے اعتبار سے لاوی کے قبیلے سے نہیں بلکہ لافانی زندگی کی قوت کے مطابق کاہن تھا۔ تو ہمارا دعویٰ اور بھی صاف اور واضح ہو جاتا ہے۔  17 زبورنویس نے اُس کے بارے میں نبوت کی رُوح یہ گواہی دی کہ:

 ”تُو ملک صدقؔ کے طور پر
 ابد تک کاہن ہے۔“ (پیدایش ۲۲: ۱۷)

  18 غرض کہانت کے بارے پہلا حُکم کمزور اور بے فائدہ ہونے کے باعث منسُوخ ہو گیا۔  19 کیونکہ شریعت نے کسی چیز کو کامل نہیں کیااِس لیے اُس کی جگہ ہمیں ایک بہتر اُمیددی گئی جس کے وسیلے ہم خُدا کے نزدیک جا سکتے ہیں۔  20 خُدا نے یسؤُع ؔکو قسم کھا کر کاہن مقرر کیا جبکہ ہارونؔ کی اَولاد بغیر قسم کے مقرر ہوئی۔  21 مگر خُدا نے یسُوعؔ کو اِس قسم کے ساتھ مقرر کیا:

 ”خُداوند نے قسم کھائی ہے اور وہ پھرے گا نہیںکہ
 توُ ملکِؔصِدق کے طورپر ابدتک کاہن ہے۔“ (زبور ۱۱۰: ۴)

  22 اِس لیے یسُوعؔ ایک بہتر عہد کی ضمانت دیتا ہے۔  23 پرانے عہد میں کئی کاہن آئے کیونکہ موت کے سبب وہ اِس خدمت کو جاری نہ رکھ سکتے تھے۔  24 چونکہ یسُوع ؔابد تک زندہ ہے اِس لیے اُس کی کہانت کبھی ختم نہ ہو گی۔  25 اس لیے جو اُس کے وسیلے خُدا کے پاس آتے ہیں وہ اُنہیں ابدی نجات دے سکتا ہے۔ اور اُن کی شفاعت کے لیے ہمیشہ زندہ ہے۔

  26 ہمیں ایسے ہی سردار کاہن کی ضرورت تھی جو پاک، بے داغ، بے ریا، گنہگاروں سے جُدا اور آسمانوں پر بلند مقام رکھتا ہے۔

  27 اُن کاہنوں کی طرح نہیں جو ہر روز لوگوں کے گناہوں کی قربانی گُزرانے سے پہلے اپنے گناہوںکی قربانی گُزرانے۔ لیکن یسُوع ؔنے ایک ہی با ر اپنے آپ کو قربان کرکے ہمیشہ کے لیے ہمارے گُناہوں کی قربانی گُزرانی۔  28 شریعت نے جو سردار کاہن مقرر کیے جسم کی حدود کے باعث کمزور تھے۔ مگر خُدا نے شریعت کے بعد قسم کے ساتھ اپنے بیٹے کو کاہن مقرر کر کے اُسے ہمیشہ کے لیے کامل سردار کاہن بنادیا۔