کتاب باب آیت
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13

العبرانيين 12

 12

 مسیِح کا نمونہ:

  1 پس جب گواہوں کا اتنا بڑا ہجوم ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر اُس بُوجھ اوراُس گُناہ کو جو ہمیں آسانی سے گرادیتا ہے دُور کر یں جو ہماری دوڑ میں سُستی پیدا کرتا ہے اور صبر سے اُس دوڑ میں دوڑیں جو ہمارے سامنے ہے۔  2 اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسُوعؔ پر نظر رکھیں۔ جس نے شرمندگی کی پرواہ کیے بغیراُس خُوشی کی خاطر جو اُس کے سامنے تھی صلیب کا دُکھ سہا اور خُدا کے تخت کے دہنی طرف جا بیٹھا۔  3 اگرتُم اِس بات پر دھیان کرو کہ یسُوعؔ نے گُنہگارں کی مخالفت کی کس قدر برداشت کی تُم بھی بے دل ہو کر ہمت نہ ہارو گے۔  4 گُناہ کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے تُم نے ابھی تک خُون نہیں بہایا۔  5 تُم کلام کی وہ نصیحت بھُول گئے جو خُدا نے فرزند جانتے ہوئے کی کہ:

 اے میرے بیٹے خُدا کی نصیحت کو ناچیز نہ جان
 اور جب وہ تُجھے ملامت کرے تو بیدل نہ ہو۔
  6 کیونکہ جس سے خُدا محبت رکھتا ہے اُسے تنبیہ بھی کرتا ہے۔
 اور جس کو بیٹا بنا لیتا ہے اُسے کوڑے بھی لگاتا ہے۔ (اَمثال۳: ۱۲-۱۱)

  7 تُم جوتربیت پانے کے لیے دُکھ سہتے ہو یاد رکھو کہ خُدا تُم سے بیٹوں جیسا سلوک کرتا ہے۔ ایسا کون سا بیٹا ہے جس کا باپ اُ س کی تربیت نہ کرے؟  8 اگر خُدا تُمہاری تنبیہ نہ کرے جیسے وہ اپنے باقی فرزندوں کی کرتا ہے تو تُم فرزند نہیں بلکہ ناجائز اَولاد ٹھہرے۔  9 جب ہمارے جسمانی باپ ہماری تربیت کرتے ہیں تو بھی ہم اُن کی عزت کرتے ہیں تو جو ہماری رُوحوںکا باپ ہے اُس کی تابعداری کس قدر ضروری ہے تاکہ زندہ رہیں۔  10 ہمارے جسمانی باپ تو تھوڑے دِنوں کے لیے اپنی سمجھ کے مطابق ہماری تربیت کرتے ہیں مگر خُدا ہماری بہتری کے لیے ایسی تربیت کرتا ہے جس سے ہم اُس کی پاکیزگی میں شامل ہو جائیں۔  11 کسی طرح کی تنبیہ خُوشی سے قبول نہیں کی جاتی بلکہ دُکھ کا باعث ہوتی ہے مگر جو دُکھ اُٹھاتے ہیں اپنی تربیت میں پُختہ ہو کر بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل کاٹیں گے۔  12 پس کمزور ہاتھوں اور ڈھیلے گھُٹنوں کو مضبوط کرو۔

  13 اپنے پاؤں کے لیے راستہ سیدھا بناؤ تاکہ جو لنگڑا ہے لڑکھڑا کرگر نہ پڑے بلکہ شفاپائے۔

  14 سب کے ساتھ امن اور صلح سے رہو۔ پاکیزہ زندگی گُزارنے کی کوشش میں رہوجس کے بغیر کوئی خُدا کو نہ دیکھے گا۔  15 ایک دُوسرے کا خیال رکھو کہ کوئی خُدا کے فضل سے محروم نہ رہے۔ ایسا نہ ہوکہ کوئی کڑوی جڑ نکل کر تُمہیں دُکھ دے اور بُہتوں کو ناپاک کر ے۔  16 اس بات کا دھیان رکھو کہ تُم میں سے کوئی عیسوؔ کی مانند حرامکار اور بے دین نہ ہو جس نے ایک وقت کے کھانے کے لیے اپنے پہلوٹھے ہونے کے حق کو بیچ دیا۔  17 اور تُم جانتے ہو کہ بعد میں جب اُس نے اپنے باپ سے برکت لینا چاہی تو نہ ملی۔ اُس نے آنسو بہا بہا کر اُس برکت کو لینا چاہا مگر اُس وقت اُسے توبہ کرنے کا موقع نہ ملا۔

  18 تُم اُس حقیقی پہاڑکے پاس نہیں آئے جیسے بنی اسرائیل سینا ؔکے پہاڑ پر جو آگ سے جلتا تھا جس کے گرد گہری تاریکی اور تیز آندھی چلتی تھی۔  19 نرسنگوں کے شور میں جب خُدا نے ایسی گرجدار آواز سے کلام کیا تو سُننے والوں نے درخُواست کی کہ اُنہیں مزید کلام نہ سُنایا جائے۔  20 کیونکہ وہ اُس حُکم کی برداشت نہ کر سکے، کہ اگر کوئی جانوربھی اس پہاڑ کو چھُوے تو اُسے سنگسار کیا جائے۔ (خروج ۱۹: ۱۳)  21 مُوسیٰؔ بھی اُس خوف نا ک منظر کودیکھ کریہ کہہ اُٹھا کہ میں خُوف کے مارے کانپتا ہوں۔  22 بلکہ تُم صِیّوُن ؔ کے پہاڑ اور آسمانی یروشلیِمؔ کے پاس آئے ہو جو زندہ خُدا اور لاکھوں فرشتوںکاشہر ہے۔  23 تُم خُدا کے اُن پہلوٹھوں کی جماعت کے پاس آئے ہو جن کے نام آسمان پر لکھے ہیںاور خُداکے پاس آئے ہوجو سب کا مُنصف ہے اور اُن راست بازوںکی رُوحوں کے پاس بھی آئے ہو جو کامل کئے گئے ہیں۔  24 اور اُس یسُوعؔ کے پاس آئے ہو جو نئے عہد کا درمیانی ہے اور چھڑکے ہوئے اُس خُون کے پاس آئے ہو جو ہابِلؔ کے خُون سے زیادہ بہتر باتیں کہتا ہے یعنی بدلے کی نہیں بلکہ معافی کی۔  25 خبردار رہو خُدا جو تُم سے کلام کرتا ہے اُس کی اَن سُنی نہ کرنا۔ اگر اِس زمین پر لوگ مُوسیٰ ؔکی اَن سُنی کر کے بچ نہ سکے تو ہم اُس کی اَن سُنی کر کے جو آسمان پر ہے کیونکر بچ سکتے ہیں۔  26 اُس وقت تو اُس کی آواز سے زمین ہل گئی تھی مگر اَب وہ وعدہ کرتا ہے کہ ایک بار پھر وہ نہ صرف زمین کو بلکہ آسمان کو بھی ہلائے گا۔ (حجّی۲: ۶)  27 یہاں ’ایک بار پھر‘ کا مطلب یہ ہے کہ خلق کی گئی چیزیں ہلائی جائیں گی اور ہلنے والی چیزیں ٹل جائیں گی اور صرف وہ چیزیں قائم رہیں گی جو ہلائی نہیں جاسکتیں۔  28 چونکہ ہمیں ایسی بادشاہی ملی ہے جو ہلنے والی نہیں تو آؤ اُس فضل کی بدولت شُکرگُزاری کے ساتھ خوف اور احترام میں خُدا کی ایسی پرستش کریں جو اُسے پسند ہے۔  29 کیونکہ ہمارا خُدا بھسم کرنے والی آگ ہے۔