1 میں کیا کہہ رہاہوں؟ وارث اگربچہ ہے اورسب کا مالک ہے توبھی سر پرست کی نگہبانی میںغلام سے بڑھ کر نہیں جب تک بالغ نہ ہو جائے۔ 2 وہ اُس وقت تک سرپرست اور مختار کی تابعداری میںرہتا ہے جو اُس کے باپ نے مقرر کیا۔ 3 اِسی طرح ہم بھی جب بچے تھے تو مسیِح کے آنے تک دُنیاوی حُکموںکے غلام رہے۔ 4 جب وقت پورا ہوگیاتو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اورشریعت کے ماتحت رہا۔ 5 اُسے اِس لیے بھیجا تاکہ شریعت کی غلامی سے چھڑا کر ہمیں اپنے فرزند بنائے۔ 6 چونکہ تُم خُدا کے فرزند ہو اِس لیے اُس نے تُمہیں اپنے بیٹے کا رُوح بخشا تاکہ اُسے ”ابّا“ یعنی ’اے باپ‘ کہہ کر پُکار سکیں۔ 7 اب تُم پہلے کی طرح غلام نہیں بلکہ بیٹے ہو۔ چونکہ خُدا کے فرزند ہو تو اُس نے تُمہیں مسیِح کے وسیلے اپنا وارث بھی بنایا۔
پولُسؔ کی گلتیوںکے لیے فکر:
8 اے گلتیو! پہلے جب تُم خُدا کو نہیں جانتے تھے تو تم ایسے معبُودوںکی غلامی میںتھے جو اپنے آپ میں خُدا نہیں۔ 9 اَب جب کہ تُم نے سچے خُدا کو پہچان لیا یا یوں کہیں کہ خُدا نے تُم کو پہچان لیا تو اب کیوں واپس اُن کمزور اورفضول باتوں کی طرف پھر کر اُن کی غلامی کرنا چاہتے ہو۔ 10 میں تمہارے بارے میں فکر مند ہوں کہ تُم خاص دنوں، مہینوں اور سالوں کے بارے میں تعلیم پا کراُن کی پیروی کرنے لگے ہو۔ 11 مُجھے ڈر ہے کہ کہیں تُمہارے لیے میری محنت بے کار نہ چلی جائے۔
12 عزیز بھائیو اور بہنو! میری مانند اِن فضول باتوں سے آزاد زندگی گُزارو۔ میں بھی شریعت سے آزاد ہو کرتُم غیر یہودیوں کی مانند بنا۔ پہلے جب میں نے تُمیں کلام سُنایا تو تُم نے میرے سا تھ بُرا سلُوک نہیں کیا۔
13 تُمہیں یادہو گا کہ جب میں نے پہلی مرتبہ بیماری کی حالت تمہیں خُوشخبری سُنائی تھی۔ 14 تُم نے مُجھے میری بیماری کے باعث حقیر جان کر رَد کرنے کے بجائے مُجھے ایسے قبول کیا جیسے کہ خُدا کا فرشتہ یا جیسے میں ہی مسیِح خُداوند ہوں۔ 15 اُس وقت کی طرح تُمہاراخُوشی منانا اب کہاں گیا؟ مُجھے یقین ہے اُس وقت اگر ممکن ہوتا تو تُم اپنی آنکھیں بھی نکال کرمُجھے دے دیتے۔ 16 تُم سے سچ بولنے کی وجہ سے اَب کیا میں تُمہارا دُشمن بن گیا؟ 17 وہ تُمہارا دل جیتنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیںمگر اُن کی نیت ٹھیک نہیں۔ اُن کا مقصد تُمہیںہم سے دُور کرنا ہے تاکہ تُم اُن کی پیروی کرتے رہو۔ 18 ہاںیہ اچھی بات ہے اگر کوئی نیک نیتی سے دل جیتنے کی کوشش کرے اور دوست بنائے۔ مگر ایسا صرف اُسی وقت ہی نہیں ہونا چاہیے جب میں تُمہارے ساتھ ہوں۔
19 میرے بچو! تُمہارے بارے میں مُجھے دوبارہ جننے کے سے درد لگے ہیںاور میں اِس درد میں اُس وقت تک مبتلا رہوں گا جب تک مسیِح تُم میں شکل نہ پکڑلے۔ 20 کاش کہ میں اِس وقت تمہارے پاس ہوتاتو کسی اور طرح سے بات کرتا۔ میں بڑی اُلجھن میں ہوں کہ تُمہارے ساتھ کیا کروں مُجھے تُمہاری بُہت فکر ہے۔
ہاجرہؔ اور سارہ ؔکی مثال:
21 مُجھے بتاؤ تُم جو شریعت کے ماتحت رہنا چاہتے ہو کیا تُم جانتے ہوکہ درحقیقت شریعت کیا کہتی ہے؟
22 کلام میں یہ لکھا ہے کہ ابرہام ؔکے دو بیٹے تھے ایک غلام (ہاجرہؔ) سے دُوسرا آزاد (سارہؔ) سے۔
23 غلام کا بیٹا جسمانی طور پر جبکہ آزاد کا بیٹا خُدا کے وعدے کے مطابق پیدا ہوا۔ 24 اِس میں جو سمجھنے کی بات ہے وہ یہ کہ یہ دونوں عورتیں دو عہد ہیں۔ ہاجرہ ؔکوہِ سینا ؔپرکاعہد ہے جہاں شریعت ملی۔ اِس سے غلام ہی پیدا ہوتے ہیں۔ 25 ہاجرہؔ عرب ؔکے کوہ ِسیناؔکی مانند ہے جو موجودہ یروشلیِمؔ سے مطابقت رکھتی ہے جو زمین پر ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں سمیت شریعت کی غلامی میں ہے۔ 26 مگر دُوسری عورت، سارہؔ، آسمانی یروشلیِم کو پیش کرتی ہے۔ وہ آزاد ہے اور وہی ہماری ماں ہے۔ 27 پاک کلام یسعیاہؔ کے مطابق کہتا ہے:
28 اِسی طرح اے بھا ئیو! تُم اضحاقؔ کی طرح وعدہ کے فرزند ہو۔ 29 جیسے اُس وقت جو جسم سے پیدا ہوا تھا (اسمائیلؔ) اور جو رُوح سے پیدا ہوا تھا (اضحاقؔ) کوستاتا تھا ویسے ہی تُم شریعت کو قائم رکھنے کے نام پر ستائے جاتے ہو۔ 30 مگر کلام میں کیا لکھا ہے؟ یہ کہ:
31 لہٰذا بھائیو! ہم غلام کے بیٹے نہیں بلکہ آزاد کے ہیں۔