حننیاہ ؔاور سفیرہؔ:
1 ایک اور آدمی جسکا نام حننیاہ تھاؔ اور اُس کی بیوی سفیرہ ؔنے اپنی جائیداد کا کُچھ حصّہ بیچا۔ 2 اُس نے اپنی بیوی کی رضامندی سے کچھ پیسے اپنے پاس رکھ کر باقی پیسے رسولوں کو لا کر دے دیے۔ 3 پطرسؔ نے اُس سے کہا، ”اے حننیاؔ ہ! کیوں شیطان نے تُجھے پاک رُوح سے جھُوٹ بولنے کے لیے اُبھارا اور تُو نے زمین کی قیمت میں سے کچھ پیسے اپنے لیے رکھ لیے۔ 4 کیا وہ جائیداد بیچنے سے پہلے تیری نہ تھی؟ لیکن جب بِک گئی تو تب بھی پیسے دینا تیرے اختیار میںنہ تھاپھر تُونے ایسا کیوں کیا؟ تُو نے ہم سے نہیں بلکہ خُدا سے جھُوٹ بولا ہے۔ 5 یہ سُنتے ہی حننیاہ ؔ زمین پر گرا اور مر گیا۔ اور جتنوں نے سُنا اُن سب پر بڑا خوف چھاگیا۔ 6 پھر کچھ جوانوں نے آگے بڑھ کر اُسے کفن میں لپیٹا اور باہر جا کر دفن کر دیا۔
7 تقریباً تین گھنٹے کے بعد اُس کی بیوی سفیرہؔاِس بات سے بے خبر اندرآئی۔ 8 پطرسؔ نے اُس سے پُوچھا کیا تم نے اور حننّیا ؔ ہ نے اپنی زمین بیچنے کے اتنے ہی پیسے لیے تھے؟ اُس نے کہا ہاں اتنے ہی لیے تھے۔ 9 پطرسؔ نے اُس سے کہا تُم دونوں نے کیوں خُداوند کی رُوح کو آزمانے کے لیے آپس میں اتفاق کیا؟ دیکھ دروازے پر تیرے خاوند کو دفن کرنے والے کھڑے ہیں اور تجھے بھی باہر لے جائیں گے۔
10 اُسی وقت وہ اُس کے پاؤں میں گری اور مرگئی۔ جوانوں نے اندر آکر اُسے مُردہ حالت میں پایا اور باہر لے جا کر اُس کے خاوند کے پہلو میں دفن کر دیا۔ 11 ساری کلیسیا اور اُن سب باتوں کے سُننے والوںپر بڑا خوف چھا گیا۔
مُعجزے اور شفا کا کام:
12 رسُولوں کے وسیلے لوگوں میں شفا اور بُہت سے مُعجزات ہو رہے تھے۔ اور سب ایماندار ایک دل ہوکر باقاعدگی سے ہیکل میں سلیمان کے برآمدے میں جمع ہوا کرتے تھے۔ 13 اگرچہ لوگ اُن کی تعریف کرتے تھے مگر اُن میں شامل ہونے کی جُرأت نہ کرتے تھے۔ 14 توبھی بُہت سے مرد اور عورتیں خُداوند پر ایمان لا کر کلیسیا میں شامل ہو ئے اور اُن کی تعداد بڑھتی گئی۔ 15 یہاں تک کہ لوگ بیماروں کو لالاکر اُس راہ کے کنارے لٹا دیتے جہاں سے پطرس گُزرتا تھا اِس ایمان سے کہ اگرپطرسؔ کا سایہ بھی اُن پر پڑ جائے تو وہ شفا پا جائیں گے۔ 16 یروشلیِم ؔ کے اِرد گرد کے علاقوں سے بھی بے شمار لوگ اپنے بیماروں اور بدرُوح گرفتہ لوگوں کو لاتے اور وہ سب شفا پاجاتے تھے۔
رسُولوں کو مخالفت کا سامنا:
17 تب سردار کاہن اوراُس کے سب ساتھی جو صدُوقی تھے، حسد سے بھرے ہوئے رسُولوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔
18 اور رسولوں کو پکڑ کر قید خانہ میں ڈالا۔ 19 مگر رات کو خُداوند کے فرشتے نے جیل کے دروازے کھول کررسُولوں کوباہر نکالا اور اُن سے کہا۔ 20 ”جاؤ اور ہیکل کے صحن میں کھڑے ہو کر لوگوں کو یہ زندگی کا پیغام سُناؤ“ ۔ 21 صُبح ہوتے ہی وہ ہیکل میں داخل ہوئے اور خُوشخبری کی منادی کرنے لگے۔ اِسی دوران سردار کاہن اور اُس کے ساتھی صدرعدالت میں آئے اور اسرائیلی بزرگوں کو اکٹھاکیااور قیدخانے سے قیدیوں کو لانے کا حکم دیا۔ 22 ہیکل کے پہرے دارجب قیدخانے پہنچے کہ قیدیوں کو لے آئیں مگراُنہیں وہاں نہ پایااور واپس آ کر کونسل کو اِس بات کی خبر دی۔ 23 کہ ”قیدخانہ کے دروازوں کو تالا لگاہوا تھا اور دروازوں کے باہر پہرے دار کھڑے تھے۔ مگر جب ہم نے دروازے کھولے تو قیدی وہاں موجود نہ تھے“ ۔ 24 یہ سُن کر محافظوں کا سردار اور سردارکاہن پریشان ہو گئے اورسوچنے لگے کہ اب کیا ہو گا۔ 25 اُسی وقت کسی نے آکر اُن کو خبر دی کہ جن آدمیوں کو تُم نے قید خانے میں بند کیا تھا وہ ہیکل میں کھڑے لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ 26 تب محافظوں کا سردار اپنے سپاہیوں کے ساتھ جاکر اُنہیں پکڑ لایا مگر زبردستی نہ کی کیونکہ ڈرتے تھے کہ لوگ اُنہیں پتھر نہ ماریں۔
27 اُنہوں نے رسولوں کو لاکر صدرعدالت کے سامنے کھڑا کیا۔ تب سردار کاہن نے اُن سے پُوچھنا شروع کیا۔ 28 اور کہا کہ ہم نے تُمہیںسختی سے منع کیاتھاکہ یسُوع ؔنام لے کر تعلیم نہ دینا مگر تُم نے سارے یروشلیِم میں اِس تعلیم کو پھیلا دیا ہے۔ کیا تُم اِس طرح ہمیں اُس کے خون کا مُجرم ٹھہرانا چاہتے ہو؟ 29 پطرسؔ اور باقی رسولوں نے جواب دیاکہ ہمیں خُدا کا حکم ماننا انسانوں کے حکم ماننے سے زیادہ ضروری ہے۔ 30 ہمارے باپ دادا کے خُدا نے یسُوع کو مُردوں میں سے زندہ کیا جسے تُم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا۔ 31 اُسی کو خدا نے مُنجّی اور نجات دہندہ ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ کی طرف سربلندکیاتاکہ بنی ا سرائیل کو اپنے گناہوں سے توبہ کا موقع ملے اور اُن کے گناہ معاف ہوں۔ 32 ہم اِن باتوں کے گواہ ہیںاور پاک رُوح بھی جسے خُدا نے اپناحکم ماننے والوں کو بخشا۔
33 یہ سُن کر ساری کونسل غُصّے سے آگ بگولا ہوگئی اور رسولوں کو مار ڈالنا چاہا۔ 34 لیکن کونسل میں موجودگملی ایلؔ ایک فریسی شرع کے مُعلم نے جو سب لوگوں میں عزت دار تھا۔ کھڑے ہو کر رسولوں کو تھوڑی دیر کے لیے باہر بھیجنے کو کہا۔ 35 پھر اُس نے کونسل سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے اسرائیلیو! اِن آدمیوں کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہوہو شیاری سے کرنا۔ 36 اِس سے پہلے ایک شخص تھیوداسؔ نے بھی اُٹھ کرکچھ ہونے کا دعویٰ کیا تھااور تقریباً چارسو آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ مگر وہ مارا گیااور اُس کے پیروکار مُنتشرہوگئے۔
یوں یہ تحریک ختم ہو گئی۔ 37 اِس کے بعد مردم شماری کے دِنوں میں گلیل کا یہُوداؔ ہ بھی اُٹھا اور کچھ لوگ اپنے ساتھ ملالیے وہ بھی مارا گیا اور لوگ تتّر بتّر ہو گئے۔ 38 پس میرا مشورہ یہ ہے کہ اِ ن لوگو ں سے کوئی واسطہ نہ رکھواور اِنہیں جانے دو۔ اگر یہ کا م فقط آدمیوں کی طرف سے ہے تو جلد مٹ جائے گا۔ 39 اور اگر یہ خُدا کی طرف سے ہے تُم اِسے ختم نہیں کر سکوگے بلکہ خُدا کا مقابلہ کرنے والے ٹھہروگے۔
40 کو نسل نے گملی ایلؔ کی بات مان کر رسولوں کو بُلوا کر اُنہیں پٹوایا اور یہ حکم دے کراُنہیں چھوڑ دیا کہ پھر یسُوعؔ کا نام لے کر لوگوں کو تعلیم نہ دینا۔ 41 رسُول اِس بات کے لیے خُوشی مناتے ہوئے وہاں سے نکلے کہ خُدا نے اُنہیںاِس لائق توسمجھا کہ یسُوعؔ نام کی خاطربے عزت ہوں۔ 42 وہ ہر روز نہ صرف ہیکل میں بلکہ گھر گھر جا کر یہ پیغام سُنانے سے باز نہ آئے کہ یسُوعؔ ہی مسیِح ہے۔