پولُسؔ ؔکی رومؔ روانگی:
1 جب ہمیں اطالیہؔبھیجنے کا فیصلہ ہو گیا تواُنہوں نے پولُسؔؔ کو بعض دُوسرے قیدیوں کو شہنشاہ کی پلٹن کے ایک رُومی افسر کے حوالے کردیا جس کا نام یولیسؔ تھا۔ 2 اورہم ادرتیُمؔ سے آنے والے ایک جہاز پر سوار ہوئے جسے صُوبہ آسیہ ؔ کی بندرگایوں کوجانا تھا۔ تھِسّلنِیکے کا ارسترخُس مًکدِنی بھی ہمارے ساتھ تھا۔ 3 اگلے دن ہم صیداؔ پہنچے تو رُومی افسر یولیسؔ نے پولُسؔ پر مہربانی کی اور اُسے جہاز سے نیچے اُتر کر شہر میں اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے جانے دیا تاکہ وہ اُس کی ضروریات پُوری کر سکیں۔ 4 وہاں سے دُوبارہ اپنے سفر کو شُروع کیا تو سمندر کی تیز ہوائیں مخالف سمت چلنے لگیں اِس لیے ہم توقبرصؔ کے جزیرہ کی آڑمیں ہم آگے بڑھے۔
5 پھر کُھلے سمندر میں سفر کرتے ہوئے کلکیِہؔ اورپمفلیہؔ سے گُزر کرہم لوکیہ ؔمیں مورہؔ کی بندر گاہ میں پراُتر ے۔
6 وہاں ایک مصری جہازملا جو اطالیہ ؔجانے کے لیے اِ سکندریہؔ سے آیا تھا، تو رُومی افسر یولُیسؔ نے ہمیں اُس پر سوار کرا دیا۔
7 کئی دنوں تک ہم آہستہ آہستہ سفر کرتے ہوئے کنِدُسؔکے قریب پہنچے۔ مخالف ہواؤں کی وجہ سے جب آگے کی طرف سفر جاری نہ رکھ سکے تو کریتےؔ کی طرف رُخ کیااور سلمونےؔکے قریب سے گُزرتے ہوئے کریتے کی آڑ میں آگے بڑھے۔ 8 اور بڑی مشکل سے جدوجہد کرتے ہوئے لسیہؔ کے قریب حسین ؔبندرگاہ تک پہنچے۔ 9 اِب تک اس سفر میں ہمیںبُہت وقت لگا۔ یہاں تک کہ یومِ کفار کا روزہ بھی گُزر گیا (یہ دن نومبر کے شروع میں آتا ہے) اِس کی بعد سمندری سفر طوفانی موسم کے باعث خطرناک ہو جاتا ہے۔ پولُسؔ نے جہازکے کپتان کویہ نصیحت کی۔ 10 اور کہا: اے بھائیو! مُجھے پتا ہے کہ آگے چل کر ہمیں خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاز اور مال وجان کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ 11 مگر رُومی افسر نے پولُسؔ سے زیادہ جہاز کے مالک اور کپتان کی باتوں کو سُنا۔ 12 چونکہ سردیاں گُزارنے کے لیے حسینؔ کی بندرگاہ محفوظ نہیںتھی اِس لیے زیادہ لوگوں نے مشورہ دیا کہ فینکسؔ جا کر سردیاں گُزاری جائیں۔ یہ کریتےؔ کی ایک اچھی بندرگاہ تھی جس کارُخ شمال مشرق اور جنوب مشرق کی طرف تھا۔
13 جب جنوب سے ہلکی ہوا چلنا شروع ہوئی تو جہاز کے ملاحوں نے یہ سوچ کر کہ وہ فینکسؔ پہنچ جائیں گے لنگر اُٹھا لیے اور کریتےؔ کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگے۔ 14 تھوڑی ہی دیر کے بعدسمندی طوفان جسے ’یورکلون‘ کہتے ہیںہمارے جہاز سے ٹکرایا۔
15 جہاز ہوا کے قابو میں آ گیا اور جب ملاح بے بس ہو گئے تو جہاز کو ہواکے رحم وکرم پر چھوڑدیا۔ 16 ایک چھوٹے سے جزیرے کودہ ؔکی آڑ لے کر گُزرتے ہوئے بڑی مُشکل سے جہاز کے ساتھ بندھی زندگی بچانے والی کشتی کو بچا سکے۔ 17 اور جب ملاح چھوٹی کشتی کو اُوپرچڑھا چکے تو ملاحوں نے جہاز کی مضبوطی کے لیے اُس کونیچے سے رسیوں سے باندھا۔ اِس ڈر سے کہ جہاز کہیں شمالی افریقہ کے قریب پڑی نرم ریت میں نہ دھنس جائے جہاز کی رفتار کو کم کرنے کے لیے بادبان اُتارلئے لاور جہاز کوہوا کے رُخ پر چلنے دیا۔ 18 اگلے دن بھی طوفان جاری رہا اورجہاز تیز ہواؤں کے تھپیڑے کھاتا رہا۔ ملاحوں نے جہاز کا سامان پھینکنا شروع کر دیا۔ 19 تیسرے دن اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے جہاز کے آلات اور باقی سامان بھی پھینک دیا۔ 20 یہ طوفان کافی دنوں تک جاری رہا نہ سورج نظر آیا نہ تارے یہاں تک کہ ہم بالکل مایوس ہو گئے۔
21 کافی دیر سے کسی نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ آخرکار پولُسؔؔ اٹھا اور جہاز کے عملے کو بُلاکر کہا اگر کریتےؔ میں ہی تُم میری بات سُن لیتے جب میں نے سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا تو اِس مصیبت اور نقصان سے بچ سکتے تھے۔ 22 مگرحوصلہ رکھو! تُم میںسے کوئی بھی ہلاک نہ ہو گابس جہاز تباہ ہو جائے گا۔ 23 پچھلی رات اُس خُدا کا فرشتہ، جس کا میں بندہ ہو ں اور اُسی کی عبادت کرتا ہوں، میرے پاس آ کھڑا ہوا۔ 24 اُس نے مُجھ سے کہا کہ مت ڈر! کیونکہ ضرور ہے کہ تُوقیصرؔ کے سامنے حاضر کیا جائے۔ اور دیکھ! تیری خاطرخُدااِن سب کی جان بھی سلامت رکھے گاجو جہازپر تیرے ساتھ سوار ہیں۔ 25 پس حوصلہ رکھو! کیونکہ میرا ایمان ہے کہ خُدا اپنے وعدہ کو اپنے کلام کے مطابق پُورا کرے گا۔ 26 جہاز کسی نہ کسی جزیرے کے ساحل پر ضرور پہنچے گا۔
27 طوفان کی چودہویں رات جب ہم بحر ادریہ ؔمیں سفر کر رہے تھے توتقریباً آدھی رات ملاحوں نے محسوس کیا کہ جہاز زمین سے ٹکرایا ہے اور زمیں نزدیک ہے۔ 28 اُنہوں نے پانی کی گہرائی ناپنے کے لیے ڈوری کو پانی میں پھینکاتو یہفٹ تھی تھوڑی دُور جانے کے بعد پھر ناپا تو فٹ ہو گئی۔ 29 اِس خوف سے کہ جہاز کہیں ساحل پر کسی چٹان سے ٹکرا نہ جائے اُنہوں نے جہاز کی پچھلی طرف چار لنگر ڈال دیے اور صُبح کے لیے دُعا کرنے لگے۔ 30 ملاحوںنے جہاز کو چھوڑنے کی کو شش میں جہاز کے اگلے حصّے کی طرف جا کر لنگر ڈالنے کے بہانے زندگی بچانے والی کشتی کو نیچے اُتارنے کی کوشش کی۔ 31 پولُسؔ نے فوجی افسر اور باقی فوجیوںکو بتایا کہ اگر ملاح جہاز میں نہ رہے تو ہم میںسے کوئی بھی نہ بچ سکے گا۔ 32 اِس پر فوجیوں نے چھوٹی کشتی کی رسّیاں کاٹ کر کشتی کو سمندر میں پھینک دیا۔
33 جب صُبح ہونے کو تھی تو پولُسؔ نے سب کو کھانے کے لیے مجبور کرتے ہوئے کہا تُم نے پریشانی میں چودہ دن سے کچھ نہیں کھایا۔ 34 لہٰذا کچھ کھا لو اِس میں تُمہارا فائدہ ہے یقین جانو! تُم میں سے کسی کے سر کا ایک بال بھی بیکا نہ ہو گا۔ 35 تب اُس نے روٹی لے کرسب کے سامنے شُکر کیا اورتوڑ کر کھانے لگا۔ 36 اِس پر سب کھانا کھانے لگے۔ 37 ہم سب مل کرجہاز میںدو سو چھہتّر لوگ تھے۔ 38 کھانے کے بعد جہاز کے عملے نے جہاز سے وزن کم کرنے کے لیے جہاز میں موجود گندم پھینک دی۔
39 صُبح کی روشنی میں یہ تو نہ جان سکے کہ کس مُلک کا ساحل ہے مگر اُنہیں ساحل پر خلیج نظر آئی اور سوچا کہ شاید وہ جہاز کو وہاں ساحل پرکھڑا کر سکیں۔ 40 چنانچہ اُس ساحل کی طرف جانے کے لیے اُنہوں نے لنگر کھول کر سمندر میں ڈال دے، پتواروں کی بھی رسیّاں کھول دیں اور سامنے والا بادبان چڑھا کرہوا کے زورپر اُس ساحل کی طرف بڑھنے لگے۔ 41 مگر جلد ہی جہاز کا اگلا حصّہ سمندرکی نرم ریت میں دھنس گیا اور پچھلا حصّہ طوفانی لہروں کے زور سے ٹوٹنے لگا۔ 42 یہ دیکھ کرسپاہیوں نے اِس اندیشے سے کہ کہیں قیدی تیر کر فرار نہ ہو جائیں اُنہیںقتل کر دینے کافیصلہ کیا۔ 43 مگرفوجی افسر پولُسؔ کو بچانا چاہتا تھا اِس لیے اُس نے سپاہیوں کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ پھر حُکم دیا کہ جو تیر سکتا ہے وہ پہلے زمین تک پہنچے۔ 44 پھر باقی لوگ جہاز کے ٹوٹے ہوئے تختوں کے سہارے کنارے تک پہنچ جائیں۔ یوں سب لوگ سلامتی سے کنارے تک پُہنچ گئے۔