کتاب باب آیت

اعمال 25

 25

 پولُسؔ ؔکی قیصرؔ کو اپیل:

  1 فیستُس ؔ قیصریہؔ میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے تین دن بعدیروشلیِمؔ گیا۔  2 وہاں سردار کاہن اور قوم کے بزرگوںنے پولُسؔ کے خلاف اپنی شکایت کو اُس کے سامنے بیان کیا۔  3 اُنہوں نے فیستُسؔ سے درخواست کی کہ پولُسؔ کو واپس یروشلیِم ؔ بھیجے تاکہ وہ اپنے خلاف الزامات کا جواب وہاں دے۔ دراصل اُ نہوں نے اُسے راستے میں قتل کرنے کا منصُوبہ بنایا تھا۔  4 مگر فیستُسؔ نے اُن کو جواب دیا چونکہ وہ قیصریہؔمیں قید ہے اور میں بھی جلد وہاں جا رہا ہوں۔  5 کیوں نہ تُم میں سے کچھ بااختیار لوگ میرے ساتھ چلیں اور اُ س پر جو الزام ہے وہاں ا ُس پر مقدمہ کریں۔

  6 یروشلیم میں آٹھ، دس دن رہنے کے بعد فیستُسؔ واپس قیصریہ ؔگیااور اگلے ہی دن تختِ عدالت پر بیٹھ کر پولُسؔؔ کو لانے کا حُکم دیا۔  7 جب پولُسؔ عدالت میں پہنچا تویروشلیِم سے آئے یہودیوں نے اُس پر سنگین الزام لگائے مگر اُن کو ثابت نہ کر سکے۔  8 پولُسؔؔ نے اُن کے الزامات کا انکار کرتے ہوئے کہا: ”میں نہ تو یہودی شریعت کے خلاف ہوں، نہ ہی میں نے ہیکل کے اور قیصر کے خلاف کوئی جُرم کیا ہے۔“  9 مگر فیستُسؔنے یہودیوں کو اپنااحسان مند بنانے کی غرض سے پولُسؔ ؔسے پوچھا کیا تو چاہتا ہے کہ میں تیرا مقدمہ یروشلیِمؔ میں سُنوں؟ یہ بات اُس نے یہودیوں کو خُوش کرنے کے لیے کی تھی۔  10 پولُسؔ نے جواب میں کہا، ”میں قیصرؔ کے تختِ عدالت کے سامنے کھڑا ہوں میرا مقدمہ یہاں ہی سُنا جائے۔ تو خُود بخُوبی جانتا ہے کہ میں نے یہودیوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔  11 اگر میں نے کوئی ایسا جُرم کیا ہے جس کی سزا موت ہے تو مُجھے مرنے سے انکار نہیں، لیکن اگر میں بے قصُور ہوں تو کسی کو یہ حق نہیںکہ قتل کرنے کے لیے مُجھے یہویوںکے حوالہ کرے۔ میں اپنی اپیل قیصر کے سامنے کرتا ہوں۔“  12 فیستُسؔ نے اپنے مشیروں سے مشورہ کر کے پولُسؔؔ کو جواب دیا کیونکہ تو نے قیصرؔ کے سامنے اپیل کی ہے میں تیرا مقدمہ قیصر ؔکے پاس بھیجتا ہوں۔

 پولُسؔ ؔاگرّپاؔکے سامنے:

  13 کچھ دنوں کے بعد اگرّپاؔ بادشاہ اپنی بہن برنیکےؔ کے ساتھ فیستُسؔ سے ملنے قیصریہ میں آیا۔  14 وہ دونوں کافی دن وہاں رہے تو فیستُسؔ نے پولُسؔ ؔکا مقدمہ بادشاہ کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ فیلکسؔ ایک قیدی کو یہاںمیرے لیے چھوڑ گیا ہے کہ اُس کا مقدمہ سُنوں۔  15 جب میں یروشلیِمؔ میں تھا تو سردارکا ہن اور یہودیوں کے بزرگوں نے اِس پر الزام لگاتے ہوئے مُجھے مجبور کیا کہ اُسے سزا دُوں۔  16 میں نے اُن کو واضع کیاکہ رومی قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو صرف الزامات کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاسکتی جب تک اُسے اپنے الزام لگانے والوںکے رُوبرُو صفائی میں کہنے کا پورا موقع نہ دیا جائے۔  17 میں جیسے ہی یروشلیِم آیا اگلے ہی دن میںنے اِس پر الزام لگانے والوں کو بُلا کر اُن کے سامنے اُس کا مقدمہ سُنا۔  18 مگر جیساکہ میں توقع کر رہا تھا اُس پر الزام لگانے والوں نے اُس پر کوئی بھی ایسا الزام نہ لگایا جس سے اُس کا کوئی جُرم ثابت ہو۔  19 جبکہ یہ جھگڑا اُن کے مذہبی معاملات سے تعلق رکھتا ہے اور یسُوعؔؔ نام اُس شخص سے جو مر گیا ہے مگر پولُسؔ ؔ کا دعویٰ ہے کہ وہ زندہ ہے۔  20 میں جب اِس معاملہ کی تحقیق میں اُلجھ گیا تو میں نے اُس سے پوچھاکہ اگروہ چاہے تو یروشلیِم جا کر اپنے الزامات کا جواب دے سکتا ہے۔  21 لیکن پولُسؔؔ نے درخواست کی کہ اُس کے مقدمے کا فیصلہ شہنشاہ کی عدالت میں ہو۔ تب میں نے حُکم دیا کہ جب تک اِسے شہنشاہ کے پاس نہ بھیجا جائے اِسے یہاں ہی رکھا جائے۔  22 اِس پر اگرّپاؔ نے فیستُس ؔسے کہا کہ میں اِس شخص کو خُود سُننا چاہوں گا۔ اُس نے جواب دیا کل ہی میں اُسے حاضر کر دوں گا۔

  23 اگلے دن اگرّپاؔ اور برنیکےؔ بڑی شان وشوکت سے اعلیٰ فوجی افسروں او رشہر کے اعلیٰ مرتبہ لوگوں کے ساتھ مجلس گاہ میں داخل ہوا اور فیستُسؔ کے حُکم پر پولُسؔؔ کو اندر بُلایا گیا۔  24 پھر فیستُسؔ نے کہا، اے اگرّپا ؔ بادشاہ اور جتنے بھی یہاں موجود ہیں، یہ وہ شخص ہے جس کے لیے یہودی یروشلیِمؔ اور یہاں بھی شور مچاکر اِس کی موت کامطالبہ کرتے ہیں۔  25 لیکن میری تحقیق کے مطابق اِس نے ایسا کوئی جُرم نہیں کیا جس کی سزا موت ہو۔ چونکہ اِس نے خُود شہنشاہ اعظم کے سامنے اپیل کی ہے اِس لیے میں نے اِسے اُس کے ہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔  26 مگر میں سوچتا ہوں کہ شہنشاہ کو اِس کے بارے میں کیا لکھ کر بھیجوں کیونکہ اِس کے خلاف کوئی بھی الزام واضح نہیں۔ میں اِسے اِس لیے تیرے سامنے لایا ہوں تاکہ تُو خاص طور پر اے اگرّپا ؔبادشاہ! تو تحقیق کر کے مُجھے کچھ مشورہ دے سکے کہ میں اِس کے خلاف کیا لکھ کر بھیجوں  27 یہ بڑی بے وقوفی کی بات ہو گی کہ قیدی کو اُس پر لگائے گئے الزامات کی تُفصیل کے بغیر بھیج دوں۔